کوہاٹ کے نزدیک تاندہ ڈیم میں اتوار کی صبح کشتی الٹنے کے بعد اب تک 31 لاشیں اور چھ بچے زندہ نکالے جا چکے ہیں۔
مدرسے کی جانب سے دی گئی فہرست کے مطابق تاحال 13 بچے پانی میں لاپتہ ہیں۔
تاندہ ڈیم کے آس پاس پیر کو بھی بچوں کے لواحقین سمیت سینکڑوں لوگ جمع تھے جو ڈیم کے کنارے کھڑے خاموشی سے اپنے بچوں کا انتظار کرتے رہے۔
کوہاٹ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ( ڈی ایچ کیو) کے سپروائزر برکت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو پیر کی شام بتایا کہ حادثے کے پہلے روز 17 جبکہ دوسرے روز 20 بچوں کو نکالا گیا۔
جس مدرسے سے بچے تعلق رکھتے تھے، اس کے مہتمم شاہد اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے خود 50 بچوں کو کشتی میں بٹھایا تھا، جن میں پانچ اور چھ سال کے بچے بھی تھے۔
مدرسہ کے مہتمم کے مطابق خود ان کا بیٹا بھی ان طلبہ میں شامل تھا جو پانی میں ڈوب کر جان کی بازی ہار گئے۔
’اپنے ہاتھوں سے میں نے بچوں کو کشتی میں بٹھایا، جو پانی کے وسط میں جا کر آنکھوں کے سامنے ڈوب گئی۔‘
شاہد اللہ کہتے ہیں کہ وہ ہر کچھ عرصے بعد بچوں کو سیر کی غرض سے لے کر جاتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی تاندہ ڈیم گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے بچوں کو روانہ کیا تو وہ کچھ دیر کھڑے رہے، جیسے ہی کشتی پانی کے بیچ پہنچی تو دیکھتے ہی دیکھتے الٹ گئی۔
’میں بے بس تھا۔ کھڑا سب کچھ دیکھتا رہا۔ بچوں کی چیخیں سنتا رہا۔ میں اڑ کر تو وہاں جا نہیں سکتا تھا۔ ریسکیو کو کال کیا اور وہ 15 منٹ میں ہی پہنچ گئے تھے۔‘
ڈیم کے پاس موجود لوگوں نے بتایا کہ حافظ اللہ نامی ملاح بھی پانی میں ڈوب چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شکیل نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ ’تاندہ ڈیم میں صرف دو کشتیاں ہی تھیں، جن میں سے ایک ماہی گیروں کی اور ایک حافظ اللہ کی تھی۔‘
حادثے میں بچ جانے والے چھ بچوں میں سے ایک شاہ زیب ہیں جو کوہاٹ ڈی ایچ کیو ٹیچنگ ہسپتال میں پیر کی شام تک داخل رہے۔ طبیعت مکمل طور پر بحال ہونے کے بعد انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔
شاہ زیب نے بتایا کہ ’دراصل جس وقت ملاح کشتی کو موڑ رہا تھا، اسی وقت حادثہ پیش آیا۔ تمام بچے گرتے ہی ڈوبنا شروع ہوگئے۔ مجھے تھوڑا بہت تیرنا آتا تھا، جو کہ میں نے اپنے آبائی گاؤں تیراہ میں سیکھا تھا۔ لیکن پانی بہت ٹھنڈا تھا، میں ٹھنڈ لگنے کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا۔‘
شاہ زیب کے والد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی ’پہلی بیوی اور شاہ زیب کی والدہ حیات نہیں ہیں لہذا شاہ زیب کی تعلیم و تربیت کے لیے انہیں کوہاٹ کے مدرسے میں داخل کروایا۔‘