دو عشرے قبل 19 مارچ 2003 کو صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق پر امریکی حملے کا حکم دیا تھا۔ بش اور اعلیٰ انتظامی عہدیداروں نے امریکیوں کو بار بار بتایا تھا کہ عراقی آمر صدام حسین بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے لیس تھے اور وہ القاعدہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔
امریکی نیوز چینل سی این این کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں پیٹر برگن نے صدام کی تفتیش کرنے والے ایف بی آئی کے ایک اہلکار سے گفتگو کی تفصیلات بتائی ہیں۔
ان دعووں کے نتیجے میں زیادہ تر امریکیوں کا خیال تھا کہ صدام 11 ستمبر 2001 کے حملوں میں ملوث تھے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے سروے کے مطابق نائن الیون کے ایک سال بعد دو تہائی امریکیوں نے کہا کہ عراقی رہنما نے دہشت گردوں کی مدد کی تھی، حالانکہ اس کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھے اور نہ ہی ان پر امریکی حکام کی جانب سے بڑے ہتھیار رکھنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
امریکی اور برطانوی افواج نے چند ہفتوں کے اندر صدام کی فوجوں کو شکست دے دی، لیکن حملہ آوروں کے خلاف بغاوت شروع ہوگئی جو سالوں تک جاری رہی۔ 13 دسمبر 2003 کو امریکی سپیشل آپریشن فورسز نے صدام کو شمالی عراق میں ایک چھوٹے سے گڑھے میں چھپا ہوا پایا۔
ایف بی آئی نے فیصلہ کیا کہ 30 سالہ لبنانی امریکی سپیشل ایجنٹ جارج پیرو، جو عربی بولتے تھے، صدام سے پوچھ گچھ کرنے کے لیے مناسب شخص تھے۔ جارج پیرو کے کام کی اخلاقیات متاثر کن تھیں: وہ ورزش کے لیے صبح چھ بجے واشنگٹن ڈی سی کے مرکزی علاقے میں ایف بی آئی جم پہنچتے تھے تاکہ وہ دفتر میں صبح سات بجے کام شروع کر سکیں۔ یہ دفتر مشرق وسطی کی تاریخ سے متعلق کتابوں سے بھرا تھا۔
جارج پر صدام سے عراق کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور القاعدہ کے ساتھ مبینہ تعلقات کی حقیقت جاننے کے لیے شدید دباؤ تھا۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر جارج ٹیننٹ نے بش کو بتایا تھا کہ صدام کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا معاملہ ایک ’طاقتور موقع‘ ہے۔
عراق جنگ کو بھی امریکیوں کو انتہائی آسان یا ’کیک واک‘ کے طور پر بیچا گیا تھا۔ اس کی بجائے صدام کی گرفتاری تک عراق میں سینکڑوں امریکی فوجی ہلاک ہو چکے تھے۔
سی آئی اے نے سب سے پہلے صدام سے پوچھ گچھ کی۔ بعد میں سات ماہ کے دوران جارج پیرو نے ان سے روزانہ کئی گھنٹوں تک بات کی۔ ان کے سوا کسی اور کو پوچھ گچھ کے کمرے میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ انہیں عراقی آمر سے معلوم ہوا کہ ان کے پاس کوئی ڈبلیو ایم ڈی موجود نہیں ہیں اور صدام القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن سے نفرت کرتے ہیں۔
’عراق جنگ امریکہ کا ایک گناہ‘
جارج کے ساتھ ڈکٹیٹر کی بات چیت نے اس بات کی تصدیق کی کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں عراق جنگ امریکہ کا ایک گناہ تھا - ایک ایسی جنگ جو غلط مفروضوں کے تحت لڑی گئی، ایک ایسا تنازعہ جس میں ہزاروں امریکی فوجی اور لاکھوں عراقی ہلاک ہوئے۔
اس جنگ نے دنیا میں امریکہ اور اس کے شہریوں میں اپنی حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ یہاں تک کہ امریکی فوج کی عراق میں سرکاری تاریخ نے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ عراق میں جنگ کا اصل فاتح امریکہ نہیں تھا۔ وہ ... ايران تھا۔
صدام سے پوچھ گچھ کے بعد جارج پیرو ایف بی آئی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے اور جولائی میں میامی فیلڈ آفس کے انچارج سپیشل ایجنٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اب وہ سائمن اینڈ شوسٹر کے لیے عراقی ڈکٹیٹر سے طویل پوچھ گچھ پر مبنی ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔
عراق جنگ کے آغاز کی 20 ویں سالگرہ آنے پر پیٹر برگن نے جارج سے اس بارے میں بات کی جسے کچھ لوگ ایف بی آئی کی تاریخ کی سب سے کامیاب تفتیش سمجھتے ہیں۔
جارج پیرو نے پیٹر کو بتایا کہ انہیں کرسمس کے موقع پر شام پانچ بجے انسداد دہشت گردی ڈویژن کے ایک سینیئر ایگزیکٹو کی کال موصول ہوئی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے ایف بی آئی کی جانب سے صدام حسین سے پوچھ گچھ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
’ابتدا میں ۔ میں ایمانداری سے کہوں گا۔ یہ جان کر مجھ میں خوف پیدا ہوا کہ اب میں کسی ایسے شخص سے پوچھ گچھ کرنے جا رہا ہوں جو اتنے سالوں سے عالمی سٹیج پر تھا۔ ایف بی آئی کی جانب سے یہ ایک اہم ذمہ داری لگ رہی تھی۔ میں (امریکہ میں کتب کی فروخت کی دکان) بارنس اینڈ نوبل گیا اور صدام حسین کے بارے میں دو کتابیں خریدیں تاکہ میں اپنی سمجھ سکوں کہ وہ کون تھا اور وہ تمام چیزیں جو تفتیش کی حکمت عملی تیار کرنے میں اہم ہوں گی۔‘
’میں پہلے ہی ایک بار عراق جا چکا تھا، جو ایف بی آئی اہلکاروں کی پہلی تعیناتی تھی۔ میں نے عراقی ثقافت اور بعث پارٹی کے بارے میں معلوم کرنا شروع کیا، جس کی قیادت صدام کر رہے تھے۔‘
صدام 28 اپریل 1937 کو تکریت کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں العجوہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن انتہائی مشکل تھا کیونکہ ان کے والد نہیں تھے اور اس کی والدہ نے ان کے چچا سے شادی کر لی تھی۔
ان کے بچپن نے ان میں ایک گہری خواہش پیدا کی کہ وہ ہر ایک کو اپنے بارے میں غلط ثابت کریں اور کسی پر بھروسہ نہ کریں بلکہ صرف اپنی جبلت پر بھروسہ کریں۔ ایک نوجوان کی حیثیت سے انہوں نے بعث پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور ان کی ابتدائی ذمہ داریوں میں سے ایک اس وقت کے وزیر اعظم کو قتل کرنا تھا۔
قتل کی کوشش ناکام ہوگئی اور صدام کو عراق سے فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ لیکن واپسی پر انہیں ایک سخت آدمی کے طور پر دیکھا گیا، ایک ایسا تصور جسے وہ اپنے پورے کیریئر میں فروغ دیتے رہے۔
صدام سے جارج کی پہلی ملاقات کے 30 سیکنڈ کے اندر ان کا کہنا ہے کہ وہ میرے بارے میں دو باتیں جان چکے تھے۔ ’میں نے انہیں بتایا کہ میرا نام جارج پیرو ہے اور میں انچارج ہوں۔ اس نے فورا کہا، تم لبنانی ہو۔ میں نے اسے بتایا کہ میرے والدین لبنانی ہیں اور پھر اس نے کہا، ’تم مسیحی ہو۔
’میں نے اس سے پوچھا کہ کیا یہ کوئی مسئلہ ہے تو اس نے کہا بالکل نہیں۔ وہ لبنانی عوام سے محبت کرتے تھے۔ لبنانی عوام ان سے محبت کرتی تھی۔‘ میں نے کہا، ’ٹھیک ہے، بہت اچھا۔ ہم میں اچھی رہے گی۔‘ (صدام ایک سنی تھے جبکہ زیادہ تر عراقی شیعہ مسلمان ہیں۔
پیٹر کے ایک سوال کہ آپ صدام کے ساتھ کتنے عرصے تھے؟ تو جارج نے بتایا کہ سات ماہ تک۔ ’ابتدا میں میں اس سے صبح میں ملتا تھا۔ میں ان کے طبی عملے کے لیے ترجمہ کرتا تھا۔ اور پھر باضابطہ پوچھ گچھ ہفتے میں ایک یا دو بار کئی گھنٹوں تک ہوتی تھی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، میں نے ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ون آن ون وقت گزارنا شروع کر دیا۔ میں نے اسے ہر روز پانچ سے سات گھنٹے، ایک ایک، صبح میں دو گھنٹے، دوپہر میں دو گھنٹے اور پھر ہفتے میں دو بار باضابطہ پوچھ گچھ کا سیشن منعقد کیا۔
’ہم نے ہر چیز کے بارے میں بات کی، خاص طور پر پہلے چند مہینوں میں میرا مقصد صرف ان سے بات کرنا تھا۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ زندگی میں کس چیز کی قدر کرتے ہیں اور ان کی پسند، ناپسند اور سوچ کیا ہے۔ اس لیے ہم نے تاریخ، آرٹ، کھیل سے لے کر سیاست تک ہر چیز کے بارے میں بات کی۔ ہم ان چیزوں کے بارے میں بات کرتے تھے جن کے بارے میں میں جانتا تھا کہ انہیں بات کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی۔
’اس پہلی بحث کا زیادہ تر حصہ ان کے شائع شدہ ناول کے بارے میں تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ اس کے بارے میں جھوٹ نہیں بولیں گے۔ میں نے اس کتاب پر تحقیق کی تھی۔ یہ ایک بدترین ناول تھا، زبیبا اور بادشاہ۔‘
’زبیبہ ایک خوبصورت عرب عورت تھی اور اس کی شادی ایک بوڑھے شخص سے ہوئی تھی۔ یقینا، زبیبا نے عراق کی نمائندگی کی۔ بوڑھا شخص امریکہ کی نمائندگی کرتا تھا۔ خوبصورت بادشاہ نے زبیبا کو اس کی تکلیف دے زندگی سے بچایا اور وہ ہمیشہ خوشی سے رہنے لگے۔
ایف بی آئی ایجنٹ کی حیثیت سے اور خاص طور پر تفتیش کار کے طور پر میں جانتا تھا کہ میں صدام کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتا ہوں کیونکہ ان کی کہانی میں تضادات دھوکہ دہی کے اشارے ہوتے ہیں۔
’میں صدام کو سمجھنا چاہتا تھا اور صدام کو اتنا ہی جاننا چاہتا تھا جتنا وہ خود کو جانتا تھا۔ آپ کو ایک مثال دیتا ہوں: صدام کا 1990 میں کویت پر حملہ کرنے کا فیصلہ۔ میں نے دیگر تمام ’اہم قیدیوں‘ کا انٹرویو کیا اور ہم نے خاص طور پر اس فیصلے کے بارے میں بات کی۔ ’ایک اہم اجلاس ہوا جہاں صدام نے کویت پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے معلوم تھا کہ کانفرنس روم میں ہر کوئی کہاں بیٹھا تھا، صدام نے کیا کیا، اس نے اپنی بندوق کی بیلٹ بھی کہاں رکھی اور اس نے اسے کس طرح رکھا۔
’جب میں ان سے بات کرتا تو میں ان چھوٹی چھوٹی تفصیلات کو سامنے لاتا تاکہ وہ اس بات کا اندازہ لگا سکے کہ میں کتنا باخبر ہوں اور حقائق کے بارے میں غلط بیانی کرنا یا جھوٹ بولنا کتنا مشکل ہوگا۔‘
ایف بی آئی کے ایجنٹ نے انٹرویو میں ’تحقیقات کی زیادہ موثر تکنیک‘ کے استعمال سے انکار کیا۔ ’یہ امریکی آئین کے خلاف ہیں، ایف بی آئی کی پالیسی کے خلاف ہیں اور یہ واقعی ایف بی آئی کی بنیادی اقدار کے خلاف ہے۔ میرے لیے یہ واقعی آپشن نہیں تھا کیونکہ میں نے انہیں کبھی استعمال نہیں کیا ہے، نہیں جانتا کہ انہیں کس طرح استعمال کرنا ہے اور نہ ہی میں چاہتا ہوں۔‘
’ہم جو جاننا چاہتے تھے وہ صدام کے سر میں دفن تھا اور یہ سٹریٹجک تھا۔ اور یہ اسے اس کا اشتراک کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ ایک مؤثر طویل مدتی تفتیش کی حکمت عملی تیار کرنا واقعی کلیدی تھا۔‘
صدام حسین کے گیارہ ستمبر 2001 کے واقعے میں ملوث ہونے کے بارے میں جارج پیرو نے بتایا کہ صدام اسامہ بن لادن کو پسند نہیں کرتے تھے اور وہ القاعدہ کے پوری عرب دنیا میں ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کے نظریے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ’صدام کو اقتدار سونپنے یا کسی اور کے حوالے کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ صدام اسامہ بن لادن کے بارے میں مذاق کرتے ہوئے کہتے تھے کہ آپ واقعی اس طرح کی داڑھی رکھنے والے کسی بھی شخص پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔‘
دیگر عراقی قیدیوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ان کا القاعدہ کے ساتھ کوئی آپریشنل تعلق نہیں تھا۔ صدام کے خیال میں وہ عرب مسلم تاریخ کے تیسرے عظیم ترین جنگجو تھے۔ ’پیغمبر اسلام اور صلاح الدین کے بعد وہ اپنے آپ کو سمجھتے تھے۔ وہ بہت سیکولر تھے۔ انہوں نے عرب قوم پرستی بمقابلہ اسلامی نقطہ نظر کو فروغ دیا۔ وہ عراق کے عرب پہلو بمقابلہ اسلامی پہلو پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے تھے۔‘
وسیع پیمانے کے ہتھیار
وسیع پیمانے کے ہتھیاروں کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ بات بہت واضح تھی کہ صدام ابتدائی طور پر ڈبلیو ایم ڈی اور القاعدہ کے بارے میں بات کرنے سے بہت ہچکچا رہے تھے۔ ’وہ بہت محتاط تھے۔‘
جارج نے بتایا کہ صدام کی 67 ویں سالگرہ کے موقع پر جیل میں انہوں نے ٹی وی پر دیکھا کہ عراقی عوام کو نہ صرف دنیا کو بلکہ انہیں بھی دکھانے کا موقع ملا کہ وہ واقعی ان کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔ اور انہوں نے کیا جو ایک زبردست نفرت تھی۔ ’میری ماں نے کچھ گھریلو کوکیز بنائیں اور میں انہیں ان کے پاس لے گیا جنہیں ہم نے چائے پر کھایا۔‘
انہوں نے بتایا کہ بڑے ہتھیاروں کے بارے میں بات میں نے پانچ ماہ تک نہیں چھیڑی۔ ’انہوں نے مجھے جو بتایا وہ یہ تھا کہ عراق کے پاس وہ ڈبلیو ایم ڈی نہیں جن کا ہمیں شبہ تھا۔ صدام نے جون 2000 میں ایک تقریر کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عراق میں ڈبلیو ایم ڈی ہیں اور بہت سے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس ڈبلیو ایم ڈی نہیں تھا تو انہوں نے یہ تقریر کیوں کی؟ وہ چاہتے تھے کہ میں ان سے تقریر کے بارے میں پوچھوں۔
’جب انہوں نے مجھے اس تقریر کے بارے میں بتایا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کا سب سے بڑا دشمن امریکہ یا اسرائیل نہیں تھا۔ ان کا سب سے بڑا دشمن ایران تھا۔ وہ مسلسل ایران کے ساتھ توازن یا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ صدام کو سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ اگر ایران کو پتہ چل گیا کہ عراق کتنا کمزور ہو چکا ہے تو کوئی بھی انہیں جنوبی عراق پر حملہ کرنے اور اس پر قبضہ کرنے سے نہیں روک سکے گا۔ لہٰذا ان کا مقصد ایران کو دور رکھنا تھا۔‘
1980 کی دہائی کے دوران عراق اور ایران نے تقریبا آٹھ سالہ طویل جنگ لڑی تھی جس میں دونوں اطراف سے لاکھوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ایران جنگ کے پہلے مرحلے کے دوران کچھ عراقی سرزمین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا جس کے بعد تعطل پیدا ہوگیا تھا۔
جارج کا کہنا تھا کہ صدام ایرانیوں کو یہ احساس دلانے کا متحمل نہیں ہو سکتے تھے کہ وہ امریکی پابندیوں اور عراق میں ہتھیاروں کے معائنے کی وجہ سے ایران کے اندر حملہ کرنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ انہوں نے اپنے سب سے بڑے دشمن کو یہ یقین دلا کر دھوکہ دیا کہ وہ اب بھی اتنا ہی طاقتور اور خطرناک ہے جتنا وہ 1987-88 کے ٹائم فریم کے دوران تھا۔
جارج نے بتایا کہ امریکی حملے سے وہ حیران نہیں ہوئے تھے۔ شروع میں اس نے نہیں سوچا تھا کہ امریکہ حملہ کرے گا بلکہ محض فضائی کارروائی تک محدود رہے گا۔
’یہی وجہ ہے کہ انہیں ستمبر 2002 میں احساس ہوا کہ صدر بش عراق پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے اپنی پوزیشن تبدیل کر لی اور عراق میں ہتھیاروں کے معائنہ کاروں کو اجازت دے دی کہ وہ اسے روکنے کی کوشش کریں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ شاید اکتوبر یا نومبر 2002 تک انہیں احساس ہوا کہ جنگ ناگزیر ہے اور پھر انہوں نے خود کو اور اپنی قیادت اور فوج کو جنگ کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عراق کا مستقبل
کیا آپ کو اس بات کا اندازہ ہے کہ عراق اب کہاں ہے اور مستقبل کیسا ہو سکتا ہے؟ اس بارے میں جارج نے کہا کہ میں عراق کے مستقبل کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں ہوں، بنیادی طور پر اس لیے کہ عراق کو ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو ملک کو اولیت دے۔ ’صدام نے ایک کام کیا اور ایک لحاظ سے عراق کو اولیت دی اور سب کو متحد کیا۔ جب آپ دیکھتے ہیں کہ یہ کتنا منقسم ہے، جب تک کوئی آپ کے مذہبی یا نسلی پس منظر کی پرواہ نہیں کرتا اور عراق کو ایک ملک کے طور پر نہیں سوچتا، اس کا مستقبل ایک چیلنج ہوگا۔‘
بالآخر صدام کو دسمبر 2006 میں شیعہ اکثریتی عراقی حکومت نے پھانسی دے دی۔ سرکاری ٹیلی ویژن پر ایک ویڈیو نشر کی گئی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ پھانسی دینے سے چند لمحے قبل انہیں کمرے میں لانے والے محافظوں نے ایک مشہور شیعہ عالم دین کا نام لیتے ہوئے ان کا مذاق اڑایا۔ جارج کا کہنا تھا کہ یہ انہیں نہیں بھایا۔
ادارے کی منظوری سے جارج اس تجربے کے بارے میں ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔ ’میرا مقصد قارئین کو پوچھ گچھ کے اندر موجود ہونے کی اجازت دینا ہے اور یہ محسوس کرنا ہے کہ وہ وہاں بیٹھ کر اسے براہ راست دیکھ رہے ہیں، نہ صرف صدام نے کیا کہا کیونکہ اس میں سے کچھ پہلے سے ہی دستیاب ہیں، بلکہ اس تجربے، چیلنجوں، شطرنج کے کھیل کے بارے میں جو وہ اور میں کھیلتے تھے۔
’مجھے اس کاپی کا اندرونی نظارہ بھی ملا جو انہوں نے رکھی تھی اور جب وہ جیل میں تھے۔ صدام نے مجھے بتایا کہ میں اسے ان کے دو بیٹوں سے بہتر جانتا ہوں کیونکہ میں نے ان کے دو بیٹوں کے مقابلے میں ان کے ساتھ زیادہ وقت گزارا۔ یہ سب کچھ کتاب میں موجود ہوگا تاکہ قاری کو نہ صرف سفاک آمر بلکہ صدام حسین کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں بھی بصیرت حاصل ہو سکے۔‘
پیٹر برگن سی این این کے قومی سلامتی کے تجزیہ کار، نیو امریکہ میں نائب صدر اور ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی میں پریکٹس کے پروفیسر ہیں۔ وہ 'دی کاسٹ آف افراتفری: ٹرمپ انتظامیہ اور دنیا' نامی کتاب کے مصنف ہیں۔
تدفین
ادھر عراق کے سابق وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے دعویٰ کیا ہے کہ معزول عراقی صدر صدام حسین کی لاش کو 2006 میں حسین کی پھانسی کے بعد بغداد میں سابق وزیر اعظم کے مکان کے قریب ’ٹھکانے‘ لگا دیا گیا تھا۔
عربی روزنامے الشرق الاوسط کے ساتھ ایک انٹرویو میں الکاظمی نے واضح کیا کہ صدام کی لاش ان کے گھر اور نوری المالکی کے درمیان شہر کے قلعہ بند سبز زون کے علاقے میں چھوڑ دی گئی تھی، جو اس وقت وزیر اعظم تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’[صدام] کو تکریت میں دفن کیا گیا۔ 2012 کے بعد جب [علاقہ] داعش کے کنٹرول میں آیا تو لاش کو کھود کر ایک خفیہ مقام پر منتقل کیا گیا جس کا آج تک کسی کو علم نہیں۔ اس کے بچوں کی قبروں کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی۔‘