تاریخ میں اب تک مختلف ممالک اور ثقافتوں کے بہت سے ایسے خزانے رہے ہیں جو پراسرار انداز میں غائب ہوئے اور جن کا آج تک کوئی سراغ نہ مل سکا۔
تاریخ میں مختلف تہذیبوں سے حیرت انگیز خزانے چوری یا پراسرار طور پر غائب ہوچکے ہیں۔ اکثر ان کی چوری یا گمشدگی جنگوں یا آفات کے دوران ہوئی۔ بعض اوقات چوری شدہ خزانے مل جاتے تھے، لیکن بہت سے اب بھی لاپتہ ہیں۔
ذیل میں ان گمشدہ خزانوں میں سے کچھ کا ذکر کیا جا رہا ہے جو شاید کبھی نہ ملیں۔ ان میں سے کچھ خزانے اب ممکنہ طور پر تباہ ہو چکے ہیں، لیکن کچھ اب بھی موجود ہوسکتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ایک دن مل جائیں۔
1۔ امبر روم
امبر روم 18 ویں صدی میں سینٹ پیٹرزبرگ کے قریب زارسکو سیلو میں کیتھرین پیلس میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کمرے میں سونے سے بنے موزائک، شیشے اور نقش و نگار کے ساتھ ساتھ تقریباً 450 کلوگرام عنبر سے بنائے گئے پینل بھی تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران 1941 میں جرمنی نے زارسکو سیلو پر قبضہ کر لیا اور کمرے کے پینل اور آرٹ ورک کو الگ کرکے جرمنی لے جایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے انہیں نہیں دیکھا گیا اور یہ ممکن ہے کہ وہ اب تباہ ہو گئے ہیں۔
2۔ مینکور کا تابوت
مصری فرعون مینکور کا اہرام ان تین اہراموں میں سے سب سے چھوٹا ہے جو تقریباً 4500 سال قبل مصر کے شہر گیزہ میں تعمیر کیے گئے تھے۔ 1830 کی دہائی میں انگریز فوجی افسر ہاورڈ ویس نے گیزہ اہرام کی تلاشی لی، جہاں سے انہیں ایک خوبصورت تابوت بھی ملا۔
انہوں نے 1838 میں تجارتی جہاز بیٹریس پر اس تابوت کو انگلستان بھیجنے کی کوشش کی، لیکن جہاز دوران سفر ڈوب گیا۔ اگر یہ جہاز کبھی مل گیا تو قدیم تابوت بھی دوبارہ مل سکتا ہے۔
3۔ تابوت سکینہ
عبرانی بائبل کے مطابق تابوت سکینہ میں 10 تختیاں تھیں جن پر احکام کندہ تھے۔ یہ تابوت قدیم اسرائیل میں بیت المقدس میں ایک ہیکل میں رکھا گیا تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے بادشاہ سلیمان نے تعمیر کروایا تھا۔
یہ 587 قبل مسیح میں اس وقت تباہ ہوگیا تھا جب قدیم بابل کی ایک فوج نے بادشاہ بخت نصر دوم کی سربراہی میں بیت المقدس کو فتح کیا اور شہر کو تباہ کر دیا۔ یہ واضح نہیں کہ تابوت سکینہ کے ساتھ کیا ہوا، اور اس کے مقام کے بارے میں طویل عرصے سے صرف قیاس آرائیاں ہی کی جا رہی ہیں۔
4۔ ہونجو مسامون تلوار
ہونجو ماسامون ایک تلوار ہے جو مبینہ طور پر جاپانی تلوار ساز گورو نیوڈو ماسمونے نے بنائی تھی۔ وہ 1264 سے 1343 تک زندہ رہے اور بہت سے لوگ انہیں جاپانی تاریخ کا سب سے بڑا تلوار ساز سمجھتے ہیں۔
اس تلوار کا نام اس کے ایک مالک ہونجو شیگیناگا کے نام پر رکھا گیا۔یہ تلوار دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک توکوگاوا خاندان میں رہی۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان پر امریکی قبضے کے وقت تلوار امریکی حکام کے حوالے کردی گئی، لیکن یہ تلوار کبھی دوبارہ منظرعام پر نہیں آئی۔
یہ ممکن ہے کہ امریکی فوجیوں نے دیگر پکڑے گئے جاپانی ہتھیاروں کے ساتھ تلوار کو بھی تباہ کر دیا ہو یا ممکن ہے کہ وہ یہ تلوار امریکہ لے گئے ہوں، جس کا مطلب ہے کہ یہ دوبارہ مل سکتی ہے۔
5۔ ماسکو کے بادشاہوں کی گم شدہ لائبریری
خیال کیا جاتا ہے کہ ماسکو کے بادشاہوں کی لائبریری میں قدیم یونانی متن کا ایک بہت بڑا مجموعہ تھا، نیز مختلف دوسری زبانوں میں لکھے گئے متن بھی تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ماسکو کے حکمرانوں نے 1518 تک لائبریری کی تعمیر کی تھی۔
ایسے دعوے بھی سامنے آئے ہیں کہ ایوان چہارم، جنہیں ایوان دی ٹیریبل کے نام سے جانا جاتا ہے اور جو 1530 سے 1584 تک زندہ رہے، نے کسی نہ کسی طرح لائبریری کے متن کو چھپا رکھا تھا۔ اس ’چھپی ہوئی لائبریری‘ کو تلاش کرنے کے لیے کئی صدیوں سے کوششیں کی گئی ہیں، لیکن اب تک کامیابی نہیں مل سکی۔
6۔ آئرلینڈ کے تاج کے زیورات
1907 میں ڈبلن قلعے سے چوری ہونے والے ’آئرلینڈ کے تاج کے جواہرات‘ 1783 میں بنائے گئے تھے، جب آئرلینڈ برطانیہ کے کنٹرول میں تھا۔
یہ زیورات ملکہ شارلٹ کے زیورات اور آرڈر آف دی باتھ بیج سے لیے گئے 394 پتھروں سے بنائے گئے تھے۔ ان زیورات میں مغل شہنشاہ کے روپے اور ممکنہ طور پر ترکی کے سلطان کی جانب سے فراہم کردہ قیمتی پتھر بھی شامل تھے۔
یہ زیورات ایک لائبریری میں رکھے گئے تھے، تاہم انہیں کس نے چوری کیا اور ان کے ساتھ کیا ہوا، یہ ابھی تک ایک معمہ ہے۔
7۔ سیفو کی گم شدہ نظمیں
ساتویں صدی قبل مسیح کی یونانی شاعرہ سیفو اپنے زمانے کی شیکسپیئر تھیں۔ قدیم یونانی ان کا بہت احترام کرتے اور انہیں بہترین شاعروں میں سے ایک سمجھتے تھے۔
بدقسمتی سے ان کی چند ہی نظمیں باقی بچی ہیں، تاہم 2014 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہر نفسیات ڈرک اوبنک نے سیفو کی دو نظموں کے کچھ حصوں کا انکشاف کیا، جو پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔
ایک نظم ان کے بھائیوں کے بارے میں ہے جبکہ دوسری بے لوث محبت کے بارے میں ہے، تاہم ان کی اصلیت واضح نہیں ہے۔ فی الحال یہ غیر یقینی ہے کہ وہ کہاں سے آئے تھے۔
8۔ مردہ پادری کا خزانہ
سال 1357 میں ساؤ ونسٹ نامی ایک جہاز پرتگال کے شہر لزبن سے فرانس کے شہر ایوی نیوں کے لیے روانہ ہوا جس میں لزبن کے حال ہی میں وفات پانے والے بشپ تیبو دا کاستی لوں کا خزانہ لدا ہوا تھا۔
اس خزانے میں سونا، چاندی، انگوٹھیاں، غالیچے، زیورات، عمدہ پلیٹیں اور یہاں تک کہ پورٹیبل قربان گاہیں بھی شامل تھیں۔ جدید دور کے سپین میں کارٹیجینا قصبے کے قریب سفر کرتے ہوئے، ساؤ ونسنٹ پر بھاری ہتھیاروں سے لیس بحری قزاقوں کے دو جہازوں نے حملہ کیا اور خزانہ اپنے قبضے میں لے لیا، جس کا آج تک کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
9۔ راست باز جج
’راست باز ججز‘ کا پینل گینٹ قربان گاہ کا حصہ ہے۔ یہ 15 ویں صدی کا فن پارہ ہے جسے ہبرٹ اور جان وین آئیک نے گینٹ، بلجیئم میں سینٹ باوو کے گرجا گھر میں بنایا۔
یہ پینل گھوڑے پر سوار ایسے متعدد کرداروں کو ظاہر کرتا ہے جن کی شناخت غیر یقینی ہے۔ فلپ دا گڈ جو قربان گاہ کی تیاری کے وقت اس وقت برگنڈی کے ڈیوک تھے، ممکنہ طور پر اس کےکرداروں میں سے ایک تھے۔ یہ پینل 1943 میں چوری کر لیا گیا اور پھر کبھی نہیں ملا۔
10۔ فلورنٹین ہیرا
زرد رنگ کے 137 قیراط کے فلورنٹین ڈائمنڈ کا تعلق ممکنہ طور پر انڈیا سے تھا، جو 15ویں صدی کے آخر تک یورپ پہنچ چکا تھا۔ یہ یورپ کیسے اور کب پہنچا یہ بحث کا موضوع ہے۔
ایک کہانی یہ ہے کہ چارلس دا بولڈ جو 1467 تا 1477 برگنڈی کے ڈیوک تھے، نے اسے ایک بڑے ہیرے سے کاٹ کر الگ کیا۔ انہیں فلورنٹین ڈائمنڈ سے اس قدر پیار تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ جنگ میں بھی لے گئے۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ جب انہیں قتل کیا گیا تو ہیرا ان کے جسم پر موجود تھا۔
11۔ ڈا ونچی کی دیوار گیر تصویر
1505 میں لیونارڈو ڈا ونچی نے ایک بڑی تصویر بنائی جس میں انگیاری کی لڑائی میں اٹلی کے شہر میلان پر اطالوی فوج کی 1440 کی فتح کو دکھایا گیا۔
یہ تصویر فلورنس کے ٹاؤن ہال پلازو ویکیو میں بنائی گئی تھی۔ یہ تصویر 1563 میں اس وقت غائب ہو گئی جب مصور اور معمار جارجیو وساری نے ہال کو نئے سرے سے بنایا۔
12۔ دوسرے ہیکل کا شمع دان
تقریباً 66 اور 74 سن عیسوی کے دوران یہودی باغی اسرائیل کو رومی سلطنت کے کنٹرول سے آزاد کروانے کی کوشش میں رومی فوج کے خلاف لڑے۔
70 عیسوی میں باغیوں کو شدید دھچکا لگا جب بیت المقدس پر ٹائٹس کی قیادت میں رومی فوج نے قبضہ کر لیا۔ جنرل ٹائٹس نے بعد میں رومی شہنشاہ بن جانا تھا۔
اس دوران دوسرا ہیکل جو اس وقت یہودیوں کے لیے سب سے اہم مذہبی مقام تھا تباہ ہو گیا اور رومی فوج اپنے خزانے کو قدیم روم واپس لے گئی۔ ان خزانوں میں ہیکل کا منورہ بھی شامل تھا۔ منورہ ایک شمع دان تھا جس کی چھ شاخیں تھیں۔
13۔ تانبے کے سکرول کا خزانہ
غالباً مغربی کنارے کے قمران غاروں میں دریافت ہونے والا سب سے غیر معمولی بحیرہ مردار کا سکرول (گولائی میں لپٹی ہوئی تحریر) تانبے کی ایک چادر پر کندہ ایک تحریر ہے جس میں پوشیدہ بڑے خزانے کے مقام کی نشاندہی کی گئی ہے۔
یہ تانبے کا سکرول اردن کے ایک عجائب گھر میں ہے۔ لیکن اس سکرول کے قدیم مصنف حقیقی یا افسانوی خزانے کے بارے میں بات کر رہے تھے، یہ اہل علم کے درمیان بحث کا باعث ہے۔
70 عیسوی کے آس پاس جس وقت یہ تحریر لکھی گئی، رومی فوج ان یہودی گروپوں کو شکست دینے کے عمل میں تھی جو رومی حکومت کے خلاف بغاوت کر رہے تھے۔ رومی فوج نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اور دوسرے ہیکل کو تباہ کر دیا۔
14۔ ازابیلا سٹیوٹ گارڈنر عجائب گھر میں فن پاروں کی چوری
18 مارچ 1990 کو بوسٹن، میساچوسٹس میں واقع ازابیلا سٹیورٹ گارڈنر میوزیم میں دو چور پولیس افسروں کے لباس میں داخل ہوئے اور تقریباً 50 کرور ڈالر کی مالیت کے 13 فن پارے چوری کر لیے۔
ان میں ڈچ مصور ریمبرینڈ کے تین اور فرانسیسی مصور ایدگر دیگاس کے پانچ فن پارے شامل تھے۔ چوروں کی شناخت ابھی تک نامعلوم ہے اور فن پارے کبھی برآمد نہیں کیے گئے۔
ممکن ہے کہ چور جنہوں نے فن پارے چرائے، وہ اب مر چکے ہوں اور پینٹنگز کو شدید نقصان پہنچا یا انہیں تباہ کردیا گیا ہو۔ بڑی قیمت کے باوجود ان فن پاروں کو فروخت کرنا مشکل ہو گا کیونکہ وہ بہت مشہور ہیں اور کوئی بھی خریدار آسانی سے اس بات کا تعین کر سکتا ہے کہ یہ چوری ہوئے اور خود اسے بھی مجرمانہ الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
15۔ پیکنگ مین
1923 میں اس قدیم انسان کی باقیات ملیں جسے پیکنگ مین (سیدھا کھڑا ہونے والا انسان) بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا وجود دو لاکھ سے ساڑھے سات لاکھ سال پہلے کے درمیان پایا جاتا تھا۔
یہ فوسلز بیجنگ کے قریب واقع زوکودیان نامی گاؤں کے قریب ایک غار میں دریافت ہوئے (بیجنگ کو اس وقت پیکنگ کہا جاتا تھا)۔ لیکن 1941 میں چین پر جاپانی حملے کے دوران یہ فاسلز غائب ہو گئے اور آج ان کا مقام معلوم نہیں ہے۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ فوسلز اس وقت سمندر میں گم ہو گئے جب انہیں امریکہ لے جایا جا رہا تھا۔ (یہ فوسلز حملے سے بچانے کی کوشش کے دوران گم ہوئے) دوسروں کا خیال ہے کہ وہ دراصل چین میں پارکنگ لاٹ کے نیچے موجود ہو سکتے ہیں۔
16۔ ’کیو‘ ماخذ
کیو سورس جیسا کہ جدید دور کے ماہرین اسے کہتے ہیں، یا بعض اوقات صرف کیو، یہ پہلی صدی عیسوی کی ایک فرضی تحریر ہے جس میں حضرت عیسیٰ سے منسوب متعدد اقوال موجود ہیں۔
اگر یہ موجود ہے تو ماہرین کا خیال ہے کہ قدیم مصنفین نے میتھیو اور لیوک کی انجیلوں کو تیار کرنے میں مدد کے لیے کیوسورس کا استعمال کیا۔ کیو سورس کا وجود جزوی طور پر اس حقیقت پر مبنی ہے کہ میتھیو اور لوقا میں کئی حوالے ایک جیسے ہیں۔
17۔ نازیوں کا سونا
روایت کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے قریب جرمن پیرا ملٹری فورس ایس ایس آفیسر ارنسٹ کالٹن برونر کی قیادت میں ایک نازی فورس نے آسٹریا کی جھیل ٹاپ لٹز میں سونا ڈبو دیا تا کہ اسے حملہ آور اتحادی افواج کے قبضے سے بچایا جا سکے۔ اس وقت سے لے کر اب تک متعدد بار تلاش کے باوجود یہ سونا نہیں ملا۔
ممکن ہے کہ یہ محض افسانہ ہو اور حقیقت میں کوئی سونا جھیل میں نہیں ڈالا گیا تھا۔ تاہم کچھ محققین نے نوٹ کیا ہے کہ جھیل آسانی سے دکھائی نہیں دیتی اور اس میں بہت زیادہ درختوں کے تنے اور ملبہ ہے جس کی وجہ سے سونے کی تلاش مشکل اور خطرناک ہو جاتی ہے۔ جھیل کے پانی میں سونا تلاش کرنے کی کوشش کرنے والے کچھ غوطہ خور جان سے جا چکے ہیں۔
18۔ رافایل کی گم شدہ پینٹنگ
اطالوی مصور رافیل سنزیو جنہیں اکثر صرف رافایل کہا جاتا ہے، 1483 سے 1520 تک زندہ رہے۔ انہوں نے ’ایک نوجوان کی تصویر‘ شاندار انداز میں بنائی۔ تصویر میں موجود شخص کی شناخت نامعلوم ہے۔
ستمبر 1939 میں جب جرمن فوج نے پولینڈ پر حملہ کیا تو یہ پینٹنگ پولینڈ کے شہر کراکو میں زارٹورسکی میوزیم کی ملکیت تھی۔ مونومینٹس مین فاؤنڈیشن نے اپنی ویب سائٹ پر بتایا کہ نازی اہلکاروں نے میوزیم سے پینٹنگ چرا لی اور اسے لنز آرٹ گیلری آسٹریا کے فیوہرر میوزیم میں رکھنے کا ارادہ کیا۔ یہ عجائب گھر ابھی قائم کیا جانا تھا۔
فیوہرر میوزیم کبھی نہیں بنا اور یہ پینٹنگ آخری بار جنوری 1945 میں جرمنی کی جھیل شلیازے پر لکڑی سے بنے ہینز فرینک کے گھر میں دیکھی گئی۔ فرینک نازی عہدے دار تھے جنہیں مقبوضہ پولینڈ کا انچارج مقرر کیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر مقدمہ چلانے کے بعد فرینک کو پھانسی دے دی گئی اور اس کے بعد مذکوہ تصویر کبھی نہیں ملی۔
19۔ شاہی صندوق
سال 1800 میں پولینڈ کی شہزادی ازابیلا زارٹوریزکا نے نام نہاد شاہی صندوق تیار کیا جس میں ملک پر حکمرانی کرنے والے شاہی خاندانوں کی ملکیت فن پارے رکھے گئے۔ فن کے ان نمونوں میں پولینڈ کے بادشاہوں کے زیورات، فن پارے اور دیگر یادگاریں شامل تھیں۔
پولینڈ کا وجود 1795 میں ایک آزاد ریاست کے طور پر ختم ہوا اور ملک خطے کی مختلف دیگر طاقتوں میں تقسیم ہو گیا۔ شاہی صندوق آخرکار حملہ آوروں کے ایک اور گروہ کے ہاتھ لگ جانا تھا - ستمبر 1939 میں پولینڈ پر حملہ کرنے کے بعد اسے نازی جرمنی نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ تب تک صندوق میں موجود اشیا گم ہو چکی تھیں۔
20۔ لوز لیبر وَن
برطانوی ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کے بارے میں جانا جاتا ہے کہ انہوں نے ڈراما ’لوز لیبر ون‘ لکھا تھا۔ حالاں کہ آج اس ڈرامے کی کوئی کاپی باقی نہیں ہے۔
یہ ’لوز لیبر لوسٹ ‘ کا سیکوئل ہو سکتا ہے جو ایک مزاحیہ ڈراما ہے جسے شیکسپیئر نے 1590 کی دہائی میں لکھا تھا۔ بوسٹن یونیورسٹی کے انگریز پروفیسر ولیم کیرل نے اس کے دوبارہ شائع ہونے والے ایڈیشن کے دیباچے میں لکھا کہ 1590 اور 1600 کی دہائیوں کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ’لوز لیبر ون‘ 1598 تک شائع ہو چکا تھا اور 1603 میں اب بھی فروخت ہو رہی تھا۔ اگرچہ اس کی کوئی کاپیاں نہیں ملیں۔
21۔ پہلی صدی کی انجیل
قدیم مسیحی انجیل کی سب سے پرانی بچ جانے والی کاپیاں - مارک، لیوک، میتھیو اور یوحنا - دوسری صدی عیسوی تک کی ہیں تاہم بہت سے مفکرین کا ماننا ہے کہ ان میں سے کچھ انجیل ابتدائی طور پر پہلی صدی عیسوی کے دوسرے نصف حصے میں لکھی گئی تھیں۔
اس سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا کوئی کاپیاں پہلی صدی سے اب تک موجود ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہم ان کی تاریخ کا تعین کیسے کر سکتے ہیں؟
سال 2015 میں سکالرز نے بتایا کہ انہیں ایک ممی ماسک کی باقیات کے اندر سے گوسپل آف مارک کا ایک ٹکڑا ملا ہے جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ پہلی صدی کا ہے۔ تاہم جریدے اوکسی رنکس پپیری کے 2018 کے ایڈیشن میں متن کی اشاعت کے بعد یہ پتہ چلا کہ متن دوسری یا تیسری صدی کا ہے۔
22۔ مائیجل اینجلو کا ماسک آف اے فان
سنگ مرمر کا ’ماسک آف اے فان ‘ آدھے انسان اور آدھے بکرے کی افسانوی مخلوق ہے۔ اسے اطالوی فنکار مائیکل اینجیلو دی لوڈوویکو بووناروتی سیمونی سے منسوب کیا گیا ہے جنہیں اکثر محض مائیکل اینجیلو کہا جاتا ہے۔ وہ 1475 سے 1564 تک زندہ رہے۔
اٹلی کے شہر فلورنس میں واقع بارگیلو میوزیم کے پاس یہ ماسک تھا لیکن یہ 1944 میں ٹسکنی کے ایک قلعے کاسٹیلو دی پوپی سے چوری ہو گیا۔
23۔ کاراواگیو نیٹیویٹی
دا ’نیٹیویٹی سینٹ فرانسس اینڈ سینٹ لارنس‘ نامی پینٹنگ کو 1609 میں اطالوی مصور مائیکل اینجیلو میریسی دا کاراوگیو نے بنایا تھا جو 1571 سے 1610 تک زندہ رہے۔
تصویر میں حضرت عیسیٰ کی پیدائش کو دکھایا گیا۔ اہل دانش کے مطابق یہ پینٹنگ 1969 میں اس وقت چوری ہوئی تھی جب یہ اٹلی کے شہر سسلی میں پالرمو کے ایک گرجا گھر میں تھی۔ پینٹنگ کبھی نہیں ملی اور یہ واضح نہیں ہے کہ اسے کس نے چرایا تھا۔ طویل عرصے سے یہ شبہ کیا جا رہا ہے کہ سسلی مافیا کے ارکان نے ڈکیتی کی۔
24۔ رومانوف کے گم شدہ ایسٹر انڈے
سال 1885 اور 1916 کے درمیان زیورات کی کمپنی فابرژے جو اس وقت روسی جیولر پیٹر کارل فابرژے کے ذریعے چلائی جاتی تھی، نے روسی شاہی خاندان کے لیے نقش و نگار سے مزین ایسٹر انڈے تیار کیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
10 انڈے 1885 سے 1893 کے دوران شہنشاہ الیگزینڈر سوم کے دور میں بنائے گئے۔ اس کے بعد ان کے فرض شناس بیٹے نکولس دوم کے دوران میں مزید 40 انڈے تیار کیے گئے۔
1917 میں روسی انقلاب کے نتیجے میں روس کے آخری زار نکولس دوم کو رومانوف خاندان کے بیشتر افراد سمیت پھانسی دے دی گئی۔ ان کی موت کے بعد کچھ انڈے غائب ہو گئے اور آج تک ان کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے۔ افواہ ہے کہ ان میں سے کچھ دنیا بھر میں نجی کلیکشنز کا حصہ ہیں۔
25۔ جولس کی ریمیٹ ٹرافی
جولز ریمٹ ٹرافی ایک انعام تھا جو فٹ بال ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کی فاتح ٹیم کو دیا گیا تھا۔ ورلڈ کپ کے بانی جولس ریمیٹ کے نام سے منسوب اس ٹرافی کو ایبل لافلور نے بنایا تھا۔
فٹ بال کی بین الاقوامی تنظیم فیفا کی ویب سائٹ کے مطابق اس میں فتح کی دیوی بنائی گئی تھی جس نے اپنے سر پر آٹھ سمتوں والا برتن اٹھا رکھا تھا جو کم قیمتی پتھروں کی بنیاد کے ساتھ سونے سے تیار کیا گیا تھا۔
ٹرافی پہلی بار 1930 میں افتتاحی ورلڈ کپ میں دی گئی۔ اسے ہر چار سال بعد فاتح ٹیم کو دیا جاتا رہا۔ لیکن 1970 میں برازیل نے تیسری بار مقابلہ جیتا۔ فیفا کے قوانین کے مطابق تین بار ورلڈ کپ جیتنے والی پہلی ٹیم جولس ریمیٹ ٹرافی پر مستقل طور پر اپنے پاس رکھے گی۔ اس لیے کپ برازیل دے دیا گیا اور ورلڈ کپ کی نئی ٹرافی بنائی گئی۔
1983 میں ٹرافی ریو ڈی جنیرو میں چوری ہو گئی۔ اس کے بعد سے اسے نہیں دیکھا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ چوروں نے اس کپ کو پگھلا دیا ہو جو زیادہ تر سونے کا تھا اور اس کا وزن تقریباً 6.1 کلو گرام تھا۔
26۔ نمرود کا خزانہ
قدیم شہر نمرود جدید دور کے عراق میں واقع ہے اور آشور ناصرپال دوم کے دور حکومت میں آشوری سلطنت کا دارالحکومت تھا جنہوں نے 883 سے 859 قبل مسیح تک حکومت کی۔ انہوں نے دوسری عمارات سمیت نمرود میں ایک نیا محل تعمیر کروایا۔
حالیہ تاریخ نمرود پر اتنی مہربان نہیں رہی۔ عسکریت پسند گروہ داعش نے جون 2014 میں ایک فوجی کارروائی کے دوران قدیم شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔ نومبر 2016 تک اسے واپس نہ لیا جا سکا۔
تب تک داعش نے شہر کے ایک حصے کو اڑا دیا اور دوسرے حصوں کو تباہ کرنے اور کھودنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کیا۔ لوٹ مار بھی قدیم شہر پر دوبارہ قبضے کے بعد کے عرصے میں ہوئی جب بہت کم سکیورٹی فراہم کی جا سکتی تھی۔
نمرود میں بہت سے خزانے تباہ ہو چکے ہیں۔ باقیوں کو نقصان پہنچا اور ان کی تعمیر نو کی جا سکتی ہے۔ اب بھی دیگر خزانوں کو بلیک مارکیٹ میں دوبارہ دریافت کیا جا سکتا ہے۔
27۔ جارج میلوری کا گم شدہ کیمرہ
برطانوی مہم جو جارج میلوری اور اینڈریو اروائن آٹھ جون 1924 کو ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی کے قریب لاپتہ ہو گئے۔ ہو سکتا ہے طوفان نے پہاڑ پر چڑھنے کے لیے ان کی آخری کوشش کو ناکام بنا دیا ہو۔ اس کے بعد کوئی بھی چوٹی تک پہنچنے میں 1953 تک کامیاب نہیں ہوا، جب ایڈمنڈ ہلیری کی قیادت میں ایک ٹیم ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے والی پہلی ٹیم بن گئی۔
ایک سوال جس کا جواب نہیں مل سکا وہ یہ ہے کہ کیا میلوری اور ارون اپنی موت سے پہلے چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے؟
جارج میلوری کی لاش 1999 میں دریافت ہوئی۔ شواہد بتاتے ہیں کہ وہ گر کر چل بسے تھے۔ اروائن کی لاش کبھی نہیں ملی۔ اگر اروائن کی لاش مل جائے تو ممکن ہے کہ میلوری اور اروائن کا کیمرہ بھی مل جائے۔ اگر کیمرے میں فلم اب بھی محفوظ ہے تو یہ ممکن ہے کہ اسے ڈویلپ کیا جا سکے اور یہ سوال کہ آیا میلوری اور اروائن نے مرنے سے پہلے ایورسٹ کی چوٹی تک پہنچے تھے یا نہیں؟ آخرکار اس کا جواب مل سکتا ہے۔
28۔ مائیکل اینجلو کی لیڈا اینڈ دا سوان
مائیکل اینجلو کی پینٹنگ ’لیڈا اینڈ دا سوان‘ میں قدیم افسانوں کا ایک منظر دکھایا گیا ہے جہاں دیوتا مشتری ہنس کی شکل اختیار کرتے ہوئے سپارٹا کی ملکہ لیڈا کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔
افسانے کے مطابق ہیلن آف ٹرائے ان کی اولاد میں سے ایک تھیں۔ مائیکل اینجلو کی اصل پینٹنگ اب گم ہو چکی ہے اور دوسرے لوگوں کی بنائی ہوئی کاپیوں کی صرف ایک چھوٹی سی تعداد باقی ہے۔
29۔ لائف آف دا جنرل وِلا
’لائف آف دا جنرل ولا‘ ایک گمشدہ فلم ہے جس میں میکسیکو کے انقلابی جنرل فرانسسکو ’پانچو‘ وِلا (1878-1923) کو دکھایا گیا ہے، جنہوں نے میکسیکو کے لیڈروں کے خلاف کئی جنگیں لڑی تھیں۔
یہ فلم بہت زیادہ افسانوی تھی لیکن اس میں ولا کی افواج کے ذریعے لڑی جانے والی حقیقی زندگی کی لڑائیوں کی فوٹیج موجود تھی۔ ولا نے خود میوچل فلم کارپوریشن کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت فلم سازوں کو فلم کی نمائش سے ہونے والی آمدن کے ایک حصے کے بدلے فوجیوں کی طرف سے لڑی جانے والی حقیقی زندگی کی لڑائیوں کو فلم میں شامل کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ فلم ریلیز ہوئی اور سینیما گھروں میں دکھائی گئی تھی لیکن اب یہ گم ہو چکی ہے۔
30۔ دنیا کی پہلی فیچر فلم
سال 1906 میں آسٹریلیا میں ریلیز ہونے والی ’سٹوری آف دا کیلی گینگ‘ کو بہت سے لوگوں نے دنیا کی پہلی فیچر فلم قرار دیا ہے۔ ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت کی اس فلم میں 19 ویں صدی کے غدار نیڈ کیلی (1854-1880) اور ان کے گینگ کی کہانی بیان کی گئی۔
فلمی تاریخ دان سیلی جیکسن اور گراہم شرلی نے آسٹریلیا کی ویب سائٹ نیشنل فلم اینڈ ساؤنڈ آرکائیو پر ایک مضمون میں لکھا کہ یہ فلم بہت کامیاب رہی۔
جیکسن اور شرلی کے مطابق بدقسمتی سے اس فلم کو کبھی صحیح طریقے سے محفوظ نہیں کیا گیا اور 1970 کی دہائی تک اس کا صرف کچھ تشہیری مواد اور چند تصاویر رہ گئیں۔ فلم کے کچھ حصوں کی دریافت اور ان کی بحالی کے کام کے بعد فلم کے تقریباً ایک چوتھائی حصے کو نمائش کے قابل بنایا جا سکا لیکن اس کا زیادہ تر گم ہو چکا ہے۔
یہ رپورٹ لائیو سائنس پر شائع ہوئی تھی۔