پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر راولاکوٹ کی ایک عدالت نے ایک مجسٹریٹ اور پولیس افسر سمیت چھ ملزمان کی رہائی کا حکم دیا ہے جن پر خزانے کی تلاش میں قدیمی قبرستان کی کھدائی کا الزام ہے۔ ان کے دیگر چھ ساتھی ابھی بھی پولیس کی حراست میں ہیں اور ان سے تفتیش جاری ہے۔
چند روز قبل راولاکوٹ کے نواحی گاؤں منجاڑی، حسین کوٹ کے رہائشیوں نے ایک مقامی مجسٹریٹ، پولیس افسر اور کم از کم تین پولیس اہلکاروں سمیت 12 افراد کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا جبکہ ان کے کچھ ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے، جن میں مبینہ طور پر ایک تحصیلدار بھی شامل تھا۔ مقامی لوگوں کے بقول یہ لوگ خزانہ اور مورتیاں تلاش کرنے کے لیے پرانی قبروں کی کھدائی کر رہے تھے۔
تھانہ سٹی راولاکوٹ میں منجاڑی گاؤں کے رہائشی صدام حسین شاہ کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں نو افراد کو نامزد کیا گیا تھا، جن میں میونسپل کارپوریشن راولاکوٹ کے مجسٹریٹ سردار عمران، کوٹلی پولیس کے ایس ایچ او چوہدری مہربان اور کھوئی رٹہ کے ایک تاجر فضل کریم کے علاوہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مختار خان، مقصود علی، افسرخان، قدیر اللہ، محمد کامران اور صاحب گل شامل ہیں۔
تھانہ سٹی راولاکوٹ کے محرر فیاض نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتےہوئے تصدیق کی تھی کہ پولیس نے 12 افراد کو حراست میں لیا ہے، جن میں سے تین افراد کو واقعے میں براہ راست ملوث نہ ہونے کے باعث نامزد نہیں کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ تینوں پولیس اہلکار تھے جو کھدائی کرنے والوں کو تحفظ دینے کے لیے وہاں موجود تھے۔
مقدمے کے مدعی صدام حسین شاہ نے ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان افراد کے پاس کچھ نقشے، میٹل ڈیٹیکٹر، لیپ ٹاپ، کھدائی کے آلات اور کچھ دیگر ساز و سامان موجود تھا۔ ’جس وقت ہم وہاں پہنچے تو وہ کم از کم دو قبریں کھود چکے تھے۔ ہمیں دیکھ کر ان لوگوں نے بھاگنے کی کوشش کی مگر گاؤں والوں نے پیچھا کرکے 12 لوگوں کو پکڑلیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدام حسین کے بقول ’ملزمان کے کچھ ساتھی فرار بھی ہوئے‘ اور انہیں یقین ہے کہ فرار ہونے والوں کے پاس کوئی قیمتی شے تھی، جو انہوں نے کھدائی کے دوران حاصل کی تھی۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ انہوں نے قبروں سے کھدائی کرکے کیا نکالا۔
راولاکوٹ شہر سے لگ بھگ 20 کلو میٹر دور جس گاؤں میں یہ واقعہ پیش آیا اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ کشمیر کی تقسیم سے قبل وہاں کی ساری آبادی ہندوؤں پر مشتمل تھی جو 1947 میں بھارت اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر منتقل ہو گئے تھے۔ جس مقام پر کھدائی کی گئی ہے اس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ قدیمی شمشان گھاٹ ہے جسے بعد ازاں قبرستان میں تبدیل کیا گیا اور چند سال قبل بھی اسی جگہ کھدائی کی ایک کوشش ناکام بنائی جا چکی ہے۔
ماہرینِ آثار قدیمہ نے امکان ظاہر کیا ہے کہ یہ لوگ نوادرات کی چوری میں ملوث کسی گروپ کا حصہ ہو سکتے ہیں، جو نوادرات اور خزانوں کی تلاش میں قدیم قبرستانوں، متروکہ عمارات اور عبادت گاہوں کی کھدائی کرتے ہیں۔ ماضی میں راولاکوٹ کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے کچھ دیگر علاقوں میں بھی اس طرح کی کھدائیاں ہو چکی ہیں۔
مقامی لوگوں نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ان افراد کا رابطہ بھارت اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ایسے غیر مسلم خاندانوں سے ہو سکتا ہے جو تقسیم سے پہلے راولاکوٹ میں مقیم تھے اور یہ افراد ان کی نشاندہی پر ہی قبروں کی کھدائی کرکے خزانہ اور زیورات تلاش کر رہے ہوں گے۔
تھانہ سٹی راولاکوٹ کے ایس ایچ او اکمل شریف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس کو ابھی تک ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ اس گروہ کا لائن آف کنٹرول کے پار کسی قسم کا رابطہ ہو تاہم ابتدائی تفتیش میں پولیس نے تصدیق کرلی ہے کہ ان لوگوں کا مقصد کسی نایاب چیز کا حصول تھا۔ پولیس کے مطابق اس منصوبے کے ماسٹر مائنڈ کا تعلق پشاور سے ہے جسے مقامی پولیس اور انتظامی افسران کا تعاون حاصل تھا۔
راولاکوٹ شہر تقسیم سے قبل ریاست پونچھ کا حصہ تھا اور یہاں بڑی تعداد میں ہندو اور سکھ خاندان آباد تھے۔ 1947 میں نقل مکانی کے بعد ان کی جائیدادیں مقامی لوگوں کے قبضے میں آ گئیں جبکہ ان کی عبادت گاہوں کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔
صحافی حارث قدیر کے بقول: ’مقامی سطح پر کئی ایسی کہانیاں مشہور ہیں کہ مالدار سکھ اور ہندو خاندان نقل مکانی کے وقت اپنا قیمتی سامان اس امید پر یہیں چھوڑ گئے کہ حالات ٹھیک ہونے پر وہ واپس آ جائیں گے یا سامان لے جائیں گے، تاہم انہیں یہ موقع کبھی نہیں مل سکا۔‘
ماہرین کے بطابق اس سامان میں زیورات اور سکوں کے علاوہ سونے اور چاندی سے بنی بیش قیمت مورتیاں اور دیگر نوادرات بھی شامل ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں نے قیمتی اشیا عبادت گاہوں اور قبرستان کے قریب دفن کرنے کا فیصلہ ممکنہ طور پر اس لیے کیا ہو کہ مقدس مقامات سے محفوظ جگہ اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
امکان ہے کہ ہے اب پون صدی کے بعد ان لوگوں کی اولادیں اپنے جاننے والوں کے ذریعے ان خزانوں اور مورتیوں تک پہنچنے کی کوشش میں ہوں۔