یہ 2004 کی بات ہے۔ اس وقت صوبہ سرحد کے بااختیار، متحرک اور عملیت پسند گورنر سید افتخار حسین شاہ مہمند ایجنسی کے دورے پر ایجنسی ہیڈ کوارٹر غلنئی آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے فاٹا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کھلی کچہری لگائی اور ملکان، صحافیوں، نوجوانوں سمیت سینکڑوں افراد کو سوال و جواب کا موقع دیا۔
ایک مقامی ریٹائرڈ افسر نے، جو کافی بااثر ملک بھی تھے، روایتی طور پر ایجنسی کے لیے کچھ مانگنے کی خاطر فریاد کرتے ہوئے کہا ’گورنر صاحب یہاں ہر طرف پسماندگی اور محرومی ہے، باقی چیزیں تو درکنار ہمارا تو سنگِ مرمر بھی ایسا ہے جسے کوئی خریدنے کو تیار نہیں۔‘
گورنر افتخار حسین شاہ نے برجستہ جواب دیا ’ملک صاحب آپ کس دنیا کی بات کر رہے ہیں؟ آپ کی ایجنسی کا زیارت ماربل تو دنیا بھر میں مشہور ہے، اس کو مناسب انداز میں مارکیٹ تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔‘
گورنر کی اس بات کو 15 سال ہو چکے ہیں مگر حکام بالا کو معلوم ہونے اور احساس ہونے کے باوجود ضلع مہمند کے ان چھپے قدرتی خزانوں کو مارکیٹ تک مناسب انداز میں پہنچانے کا کوئی بندوبست نہیں ہو سکا۔
ضلع مہمند کو اللہ تعالی نے بیش بہا قدرتی خزانوں سے نوازا ہے، جس میں متعدد اقسام کے قیمتی سنگِ مرمر کے ساتھ ساتھ انتہائی قیمتی کرومائیٹ، نیفرائٹ اور گرینٹ جیسے قیمتی پتھر بھی شامل ہیں، جس کے ایک ٹرک خام مال کی قیمت کروڑوں روپے ہوتی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ضلع مہمند سے آج بھی روزانہ تقریباً 120 سے لے کر 150 ٹرک ماربل ملکی کارخانوں میں فراہم کیا جاتا ہے، اس میں چھوٹے ٹرک سے 2400 اور بڑے ٹرک سے 3400روپے ٹیکس لیا جاتا ہے۔
مہمند ایجنسی میں سنگِ مرمر کی کان کنی تقریباً 30 سال قبل امبار کے علاقے کوہی اور گمبتی سے شروع ہوئی اور اب اولئی شاہ، سپینکی تنگی اور زیارت ماربل سمیت متعدد پہاڑوں میں قیمتی سنگِ مرمر کی کان کنی کا سلسلہ اپنی مدد آپ کے تحت جاری ہے۔
گذشتہ 20 سال سے تمام تر حکومتی دعوؤں اور اعلانات کے باوجود حکومتی سرپرستی کا یہ حال ہے کہ اب تک پورے مہمند ضلعے میں صرف دو یا تین لیز مالکان کو قرضے کی سہولت دے کر الیکٹرک وائر کٹنگ ٹیکنالوجی فراہم کی گئی ہے، جبکہ اس وقت کم و بیش ایک سو لیز مالکان مختلف پہاڑوں میں روایتی بلاسٹننگ (یعنی بارودی دھماکے) کے ذریعے سنگِ مرمر نکالنے میں مصروف ہیں جس سے 50 فیصد سے زیادہ قیمتی پتھر ضائع ہو جاتا ہے۔
کان کنی والے علاقوں میں پختہ سڑکوں کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پولیٹیکل انتظامیہ نے تقریباً آٹھ سال قبل امبار کے علاقے میں ماربل پہاڑی تک ایک سڑک کی منظوری دی تھی، جس کو بنانے والے افسران پر آج تک نیب کا مقدمہ چل رہا ہے۔
گذشتہ 30 سال سے علاقے میں یہی طریقہ رائج ہے کہ ٹھیکے دار یعنی لیز مالکان اپنی مدد آپ کے تحت لاکھوں اور کروڑوں روپے خرچ کر کے پہاڑوں میں کچی سڑکیں بنا دیتے ہیں جو انتہائی خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ وقت فیول اور گاڑیوں کے نقصان کا بھی باعث بنتی ہیں۔
علاقے میں کئی سالوں تک جاری رہنے والی دہشت گردی کی وجہ سے کان کنوں کو ایک درپیش اور مسئلہ بارود کی عدم دستیابی ہے۔ ظاہر ہے ٹنوں کے حساب سے پہاڑ گرانے اور سنگِ مرمر نکالنے کے لیے روزانہ منوں بارود درکار ہوتا ہے، مگر سکیورٹی خدشات یعنی بارود کے دہشت گردوں کے ہاتھوں لگنے اور غیر قانونی استعمال کے خدشے کے پیش نظر اس کی فراہمی کو انتہائی محدود کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے متعدد ٹھیکے دار نقصانات اٹھا کر کام سے کنارہ کش ہو گئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ گذشتہ 30 سال کے دوران مائننگ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مقامی لوگوں کے پہاڑوں کی ملکیت پر باہمی تنازعات رہے ہیں کیونکہ قبائلی علاقے میں زمین کی ملکیت کے کاغذات نہیں ہوتے، خاص کر پہاڑی علاقے زیادہ تر قومی شاملات ہوا کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایک ہی مائننگ پوائنٹ کو ایک سے زیادہ ٹھیکے داروں کو بیچ دیا جاتا ہے جس سے ٹھیکے داروں اور مقامی لوگوں کے مابین تنازعات جنم لیتے ہیں اور آئے روز پولیٹیکل انتظامیہ اور روایتی جرگہ ارکان انہیں حل کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔
ظاہر ہے یہ کروڑوں کے لین دین کے معاملات ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جرگہ ارکان اور انتظامی افسران کے بھی وارے نیارے ہوتے ہیں۔ گذشتہ تقریباً دس سال سے محکمہ معدنیات کی جانب سے باقاعدہ لیز دینے کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اب تک سو سے زیادہ افراد کو مختلف پہاڑ لیز پر دیے گئے ہیں، جہاں نسبتا کم تنازعات کے ساتھ مائننگ کا کام جاری ہے۔
ماربل کے خام مال کی درجہ بالا معیار اور وافر مقدار کے پیش نظر 2012 میں حکومت نے مہمند ماربل سٹی کے نام سے ایک انڈسٹریل سٹیٹ بنانے کا اعلان کیا۔ پشاور سے چند کلومیٹر دور تحصیل یکہ غنڈ کے علاقے مچنی میں اس کے لیے 1.774 ارب روپے سے 348 ایکڑ زمین خریدی گئی اور حکومت نے اعلان کیا کہ یہاں سڑک، بجلی، پانی، نکاسی اور سکیورٹی وغیرہ کا بہترین انتظام کیا جائے گا۔
گذشتہ دس سال کے دوران پختونخوا کے جو گورنر آئے انھوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ اس ماربل سٹی سائٹ کا دورہ کیا، اعلانات کیے لیکن نشستند و گفتند و برخاستند کے مصداق وہاں اب تک ایک کارخانہ لگانے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔
حکومت سمیت متعلقہ محکمے وہاں ترقیاتی کاموں کی تکمیل کا دعویٰ کرتے ہیں مگر مہمند چیمبر کے عہدے دار اور وہاں پلاٹ لینے والے افراد کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت ٹیکسوں میں چھوٹ اور نئے کارخانے لگانے کے لیے قرضے فراہم نہیں کرے گی، لیولنگ، پانی کی فراہمی اور نکاسی کا کام مکمل نہیں کرے گی، کوئی بھی سرمایہ کار وہاں بھاری سرمایہ کاری کا خطرہ مول نہیں لے گا۔
یاد رہے سابقہ صوبائی حکومت نے اس ماربل سٹی کو سی پیک کے ساتھ منسلک کر کے اسے انڈسٹریل زون کی مراعات دینے کا اعلان کیا تھا، جو سی پیک میں شامل ہیں۔ لیکن تمام تر دعوؤں اور کوششوں کے باوجود یہاں کاروبار پروان نہیں چڑھ سکا۔
ایک اندازے کے مطابق ضلع مہمند کی تقریبا 20 فیصد آبادی یعنی کم وبیش دو لاکھ افراد کی روٹی روزی کا انحصار بالواسطہ یا بلاواسطہ ماربل اور اس سے جڑی انڈسٹری پر ہے، جس میں مائننگ مالکان اور مزدور، مشینری، ٹرانسپورٹ، ہوٹل، جنرل سٹورز، پیٹرول پمپ، وزن کانٹے، کنڈا مزدور، منشی، کاروباری ایجنٹ، ماربل فیکٹری مالکان اور مزدور وغیرہ شامل ہیں۔
سرکاری بے پروائی کی وجہ سے ان سب کا روزگار خطرے میں ہے۔