مجھے شاہراہِ قراقرم پر 25 بار سفر کا تجربہ ہے اور میں اس سٹیٹ آف دی آرٹ شاہراہ کے اطراف میں پھیلے مناظر اور مشکل ترین سفر کے آسان احساس کا شاہد ہوں۔
دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ بل کھاتی قراقرم ہائی وے کبھی جگلوٹ تک ویران تھی اور اب تو ہر طرف آباد ہو چکے قصبے ہیں جہاں ضروریات زندگی کی تمام اشیا کی دستیابی کے ساتھ ساتھ اے ٹی ایم اور پٹرول پمپس بھی کھل چکے ہیں۔
پاکستان میں 1956 سے 1958 تک تعینات رہنے والے چین کے سفیر جنرل چینگ بائیو نے چین کو گلگت سے ملانے کی خواہش کا پہلی بار اظہار کیا تھا۔ 1963 میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کی بات چیت ہوئی اور پھر 1966 میں اس اہم سڑک کی تعمیر کا آغاز ہوا۔
قراقرم کی تعمیر میں پاکستان اور چین کے 25 ہزار مزدوروں اور کارکنوں نے حصہ لیا تھا۔ اس وقت کم وسائل اور محدود مشینری کے باوجود سنگلاخ چٹانوں کو کاٹ کر ہموار راستہ بنانا ایک ناممکن کام تھا اور حویلیاں سے خنجراب تک لگ بھگ چار سو کلومیٹر کی اس سڑک کی تعمیر کے مشکل ترین کام کے دوران 408 کارکن مارے بھی گئے تھے۔
گویا لگ بھگ سڑک کے ہر کلومیٹر نے ایک جان کا نذرانہ قبول کیا۔
لیکن یہ سڑک خنجراب پر ختم نہیں ہو جاتی، اس سے آگے چین کے وسیع و عریض صوبے سنکیانگ میں رواں دواں رہتی ہے۔
یہ شاہراہ بننے سے پہلے گلگت، سکردو اور ہنزہ جانا خواب و خیال کی طرح تھا۔ سفر دنوں میں نہیں، ہفتوں کی بات تھا۔ یہ علاقے بےحد پسماندہ اور مرکزی دھارے سے یکسر کٹے ہوئے تھے۔ نہ وہاں کے باسیوں کو بقیہ پاکستان کی کوئی خبر تھی، نہ بقیہ پاکستان کو وہاں کی کوئی اطلاع۔
سڑک نے بقیہ پاکستان کو شمالی علاقوں سے ملانے کے لیے ایک پل کا سا کام کیا۔ اب لوگ گھنٹوں میں اسلام آباد سے گلگت پہنچنے لگے۔ خنجراب پاس سے چلاس تک کے علاقے سیاحوں کو اپنی طرف بلانے لگے اور پھر نانگا پربت، فیری میڈوز، تین پہاڑی سلسلوں کا ملاپ، راکا پوشی اور شمشال جیسے خوبصورت نظارے عام آدمی کو میسر آئے۔
اس سڑک کے بننے سے ان علاقوں میں ترقی و خوشحالی کا ایسا دور شروع ہوا جس سے شرح خواندگی 14 فی صد سے 60 فیصد تک جا پہنچی۔ خواتین میں شرح خواندگی بھی تسلی بخش رہی۔ ہنزہ، سوست، نگر اور غذر کے لوگ اب دنیا بھر میں پاکستان کی روشن مثال ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاہراہِ قراقرم کے وہ حصے جہاں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے رکاوٹیں آتی تھیں اور چین سے پاکستان تجارتی سامان لانے والی گاڑیاں کئی کئی دن رکی رہتی تھیں، اب وہاں سرنگیں بنا دی گئی ہیں جن کی لمبائی دو سے 10 کلومیٹر تک ہے، جس کی وجہ سے اب شاہراہ سال بھر کھلی رہتی ہے۔
اس ایک سڑک کی تعمیر نے خطے کو معاشی طور پر مضبوط کر دیا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ چین پاکستان راہداری جیسے عظیم الشان منصوبے دراصل شاہراہِ قراقرم کی ہی توسیع ہیں۔
اس سڑک کا صرف پاکستان ہی کو نہیں، چین کو بھی بے پناہ فائدہ ہوا ہے۔ مشرقی چین تو زمانۂ قدیم ہی سے ایک ترقی یافتہ ملک رہا ہے، مگر اس کے مغربی علاقے خاص طور پر سنکیانگ جیسا دورافتادہ صوبہ پسماندہ اور بقیہ دنیا سے تقریباً کٹا ہوا تھا۔
اس شاہراہ نے ان مغربی علاقوں کو بقیہ دنیا سے ملایا۔ چونکہ چین 60 کی دہائی سے قبل بقیہ دنیا سے الگ تھلگ تھا، اس لیے چینی مسلمان حج و عمرہ کرنے کی حسرت دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو جاتے تھے۔
شاہراہِ قراقرم بننے کے بعد چین کے لوگ گلگت سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچنے لگے اور یہاں سے عازمِ حج ہونے لگے۔ لوگوں کو یاد ہو گا کہ اسلام آباد میں واقع حاجی کیمپ میں چینی مسلمانوں کے لیے الگ سیکشن بنایا جاتا تھا۔
اسلام آباد کی اسلامک یونیورسٹی میں آج بھی چینی طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد دینی علوم حاصل کرتی ہے۔