شاہراہ قراقرم پر سال 1985سے اب تک میری اَن گنت سیاحتوں کے دوران چلاس کے سنگلاخ پہاڑوں سے گزرتے ہوئے جو چیز ہمیشہ میرے لیے باعثِ کشش رہی وہ منفرد نقوش اور زمانہ قدیم کی تحریروں سے آراستہ قدیم کندہ چٹانیں ہیں جو اس علاقے میں سڑک کے ساتھ ساتھ بکھری پڑی ہیں۔
خاص طور پر شتیال اور رائے کوٹ پل کے درمیان تقریباً سو کلومیٹر کا علاقہ قدیم چٹانی نقش و نگاری کی ایک وسیع نمائش گاہ کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں پانچ ہزار سے زائد چٹانیں ہزاروں نقش و نگار اور تحریروں سے آراستہ زمانہ قدیم سے انسانی ارتقا کی داستان سناتی ہیں۔
ان چٹانوں پر کندہ نقوش اور تحریروں کا تعلق نویں صدی قبل از مسیح سے 16ویں صدی بعد از مسیح تک ہے۔ اِن تصاویر میں ہم جانوروں، انسانوں، بدھ مت کے سٹوپاز اور مہاتما بدھ کی شبیہوں کے علاوہ شکار کے مناظر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اِن تصاویر میں کہیں کہیں جانور شکاری سے حجم میں بڑے بھی نظر آتے ہیں۔ ابتدائی نقش و نگار یا کندہ کاری شاید پتھر کے بنے اوزاروں سے کی گئی تھیں جبکہ بعد میں بدھ مت سے متعلقہ نقش و نگار کسی تیز دھار دھاتی اوزار سے بنائے گئے لگتے ہیں۔
ان چٹانوں پر بنائے گئے نقش و نگار نہ صرف مختلف ادوار کے لوگوں کی تاریخی، معاشرتی، سماجی، ثقافتی اور مذہبی پس منظر سے آگاہی فراہم کرتے ہیں بلکہ ان سے اس خطے کی علاقائی اہمیت اور تجارتی روابط کا بھی پتہ چلتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے شمال میں خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کا پہاڑی علاقہ جو قراقرم اور مغربی کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندو کش کے عظیم پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ہے، قدیم شاہراہ ریشم کا اہم حصہ رہا ہے جو زمانہ قدیم میں چین اور وسط ایشیا کو برصغیر پاک و ہند سے ملانے کا ایک اہم ذریعہ تھا۔
یہی وجہ ہے کہ دریائے سندھ کا یہ بالائی علاقہ مختلف تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے۔ سیاح، حملہ آور، مبلغ، تاجر، زائرین، دستکار سب ہی مختلف ادوار میں اس افسانوی شاہراہِ ریشم اور اس کے ذیلی راستوں سے اس علاقے میں داخل ہوتے رہے ہیں۔ صدیوں کے اس سفر میں ان میں سے بہت سوں نے یہاں سے گزرتے ہوئے ان چٹانوں پر اپنے ثقافتی اور مذہبی نقوش چھوڑے ہیں۔ ان چٹانوں پر کندہ نقوش کے موضوعات اتنے متنوع ہیں کہ یہ علاقہ دنیا میں کندہ چٹانوں کے مطالعے کا اہم ترین مرکز بن گیا ہے۔
شاہراہ قراقرم کی تکمیل سال 1978 میں ہوئی۔ اس عظیم شاہراہ کی لمبائی 750 کلومیٹر ہے۔ چین اور پاکستان کو ملانے کے لیے اس شاہراہ کو ہمالیہ اور قراقرم کے بلند پہاڑی سلسلوں کو کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ اس سڑک کے ذریعے ہماری رسائی ان دور دراز پہاڑی علاقوں تک ممکن ہوئی جو صدیوں کے ثقافتی ارتباط کا مرکز رہے ہیں۔
سال 1980 میں ایک جرمن ماہرِ آثارِ قدیمہ کارل جیٹ مار اور پاکستان کے بابائے آثارِ قدیمہ پروفیسراحمد حسن دانی نے مل کر ایک پاک جرمن آرکیالوجیکل مشن پاکستان کے شمالی علاقہ جاتات میں شروع کیا تاکہ ایک منظم طریقے سے ان آثارِ قدیمہ کی تحقیق کی جائے اوردنیا کو قدیم چٹانی نقش و نگاری کے اس انمول ورثے سے متعارف کروایا جائے۔
اِن میں سے کئی ایک کندہ چٹانیں تو شتیال سے رائے کوٹ پل کی طرف جاتے ہوئے شاہراہ قراقرم سے دیکھی جا سکتی ہیں لیکن اگر آپ ان چٹانوں کو قریب سے دیکھنے کا شوق اور تجسس رکھتے ہوں تو سڑک سے اتر کر دریا کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اور بھی بہت سی نقش ونگار سے مزین چٹانیں دیکھ سکتے ہیں۔
یہاں موجود ان سینکڑوں چٹانوں میں سے کچھ کا تعلق نو سو قبل از مسیح سے ہے اور اب وہ تقریباً 29 سوسال پُرانی ہیں۔ ان چٹانوں کی سیاحت آثارِ قدیمہ کی سیاحت کا اہم جز بن سکتی ہے اور یہ ثقافتی ورثے کے تحفظ میں ایک اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کے لیے روز گار کے مواقع بھی فراہم کرے گی اور ساتھ ہی ساتھ سیاحت سے ہونے والی اس آمدنی سے آثارِ قدیمہ کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں متعلقہ حکام نے اس علاقے میں اس کام کو ترقی دینے کی کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی جس کے نتیجے میں پاکستان کا یہ عظیم ثقافتی ورثہ اور سیاحتی سرمایہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ تحفظ کے لیے مناسب انتظامات نہ ہونے اور عوام الناس میں آگہی نہ ہونے کے سبب یہ انمول ورثہ شدید خطرات سے دوچار ہے۔
مقامی لوگوں اور کچھ سیاحوں کی لاپروائی سے بہت سی چٹانوں کے نقوش کو ارادی یا غیر ارادی طور پر نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ عوام الناس میں اس ورثے کی تاریخی اہمیت سے لاعلمی کے باعث چٹانوں پر مصنوعات کے اشتہارات تک لکھ دیے گئے ہیں۔ میری شمالی علاقوں میں جانے والےسیاحوں سے گزارش ہے کہ وہ ان کندہ چٹانوں پر کسی بھی قسم کی تحریر، اپنا نام، اور فون نمبر وغیرہ لکھنے سے گریز کریں۔
دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع ہونے سے یہ خوبصورت کندہ چٹانیں ایک نئے خطرے سے دو چار ہونے والی ہیں۔ اس ڈیم کی تعمیر سے جہاں بہت سے گاؤں پانی میں ڈوب جائیں گے وہیں یہ قدیم کندہ چٹانیں بھی ڈیم کی پانیوں میں ڈوب کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نظروں سے اوجھل ہو جائیں گی۔
ایک مشہور جرمن ماہر آثارِ قدیمہ ڈاکٹر ہیرالڈ ہوپٹمین جو سال 1989سے گلگت بلتستان کے اس علاقے میں ماضی کے ان شاہکاروں پر کا م کر رہے ہیں اُن کے مطابق یہاں ان چٹانوں پر 50 ہزار تصویریں اور پانچ ہزار سے زائد تحریریں جوقدیم زبانوں مثلاً خروستھی، براہمی، سوگڈہن، چینی اور پروٹو ثرادا میں لکھی گئی ہیں ڈیم کے پانی کے ذخیرے میں ڈوب جائیں گی اوریہ اس علاقے کی تاریخی ثقافت کے لیے ایک بڑا المیہ ہو گا۔
نقوش اور تحریروں سے آراستہ یہ کندہ چٹانیں کئی صدیوں پر محیط انسان کے تہذیبی ارتقا سے پردہ اٹھاتی ہیں اور ہزاروں سال سے انسانیت سے ہم کلام ہوتی آئی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اِس انمول تار یخی خزانے کو پوری دنیا اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا جائے۔
حکومت کو چاہیے کہ ان کندہ چٹانوں کو محفوظ کرنے اور مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے ایک جامع منصوبہ مرتب کرے۔ اس ثقافتی ورثے کو پائیدار تحفظ فراہم کرنے کے لیے گلگت یا چلاس میں کسی بڑی اور محفوظ جگہ پر ایک کندہ چٹانوں کا عجائب گھر قائم کیا جانا چاہیے، جہاں ان میں سے بیشتر چٹانوں کو منتقل کیا جائے۔
کچھ بڑی چٹانیں جنہیں منتقل کرنا ممکن نہیں ان کے نقوش کے عکس تیار کرکے اس عجائب گھر میں آویزاں کیے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ اس منصوبے پر کام بہت مشکل نظر آتا ہے لیکن اس عالمی ورثہ کو تحفظ فراہم کرنے کی لیے کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ یونیسکو جیسے عالمی اداروں سے رابطہ کرے اور دوست ممالک سے اس عظیم ورثے کے لیے مالی اور فنی مدد کے لیے درخواست کرے۔
اگر یہ چٹانی نقش و نگار کا عجائب گھر قائم ہو گیا تو یہ ثقافتی ورثہ نہ صرف سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے گا بلکہ پائیدار سیاحت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے علاقے کی معاشی ترقی کا باعث بھی ہو گا۔ ساتھ ہی ساتھ ان تمام محققین اورتاریخ دانوں کی توجہ کا محور بھی ہو گا جو گذشتہ صدیوں میں ہونے والے انسانی تہذیب کے مختلف مراحل کے ارتقا کا مطالعہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔