شاہراہ قراقرم پر مسلسل سفر کرنے والے ڈرائیور اور اس کی دیکھ بھال پر تعینات افسران، دنیا کے اس ’عجوبے‘ پر رونما ہونے والے ٹریفک حادثات کی بڑی وجوہات، سڑک کی خستہ حالی اور ڈرائیوروں کی لاپرواہی کو قرار دیتے ہیں۔
خطہ کوہستان کے تینوں اضلاع سے گزرنے والی 170 کلومیٹر طویل شاہراہ قراقرم پر، جو گلگت بلتستان اور چین کو پاکستان سے ملانے والا واحد زمینی راستہ ہے، آئے روز ٹریفک حادثات، خاص کر گاڑیوں کا کھائیوں میں گر جانا معمول بن گیا ہے۔ ایسے ہی ایک ٹریفک حادثے میں حال ہی میں پولیس انسپیکٹر عبدالستار خان کی موت ہوئی ہے۔
مرنے والے پولیس انسپکٹر عبدالستار کے ضعیف العمر والد، سول ڈیفنس کے ایک رضاکار سے گلے لگ کر بلک بلک کر رو پڑے جب ان کے جواں سال بیٹے کی موت کا افسوس کرنے، کندھے پر تین پھول سجائے سول ڈیفنس اپر کوہستان کے ڈپٹی چیف وارڈن عبدالجبار ان کے گھر پہنچے۔
متاثرہ والد کہنے لگے: ’میرا بیٹا بھی تین پھول والی شرٹ پہنتا تھا۔ وہ انتہائی دلیر، نفیس اور فرض شناس افسر تھا۔ اب شاید میں اسے جنت میں ملوں۔‘
پولیس انسپیکٹر عبدالستار خان کی کار شاہراہ قراقرم پر پٹن لوئر کوہستان کے مقام پر اس وقت کھائی میں گری، جب وہ اپنی ڈیوٹی کے لیے مانسہرہ سے اپر کوہستان داسو جا رہے تھے۔ ایسے درجنوں افسوسناک واقعات سال بھر اسی شاہراہ پر وقوع پزیر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں اب تک سینکڑوں خاندان اپنے پیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
داسو سے راولپنڈی تک مسافر کوچ چلانے والے ڈرائیور عثمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شاہراہ قراقرم پر حادثات کی بڑی وجہ تنگ سڑک پر تیز رفتاری اور سڑک کی خستہ حالی ہے۔‘
بقول عثمان: ’دونوں جانب دیو قامت پہاڑی سلسلہ، وسط میں دریا اور کنارے پر شاہراہ قراقرم کی کم و بیش 22 فٹ چوڑی سڑک کی پٹی، جہاں ہر سو میٹر کے فاصلے پر خطرناک موڑکے سائن بورڈ آویزاں ہیں۔ اس کے علاوہ طویل سفر اور تیز رفتاری، غلط اوور ٹیکنگ، مال بردار ٹرکوں کا پہاڑی کنارے سے اپنی چھت لگنے سے بچانے کی کوشش میں غلط سمت پر آکر گاڑیوں کو ٹکر مار دینے سے، حادثات پیش آتے ہیں۔‘
’ایسے حادثات میں ڈرائیوروں اور مسافروں کا زندہ بچنا معجزہ ہوتا ہے کیونکہ جب گاڑی سڑک سے لڑھک جائے تو سینکڑوں فٹ کھائی میں جا گرتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’میں ایسے ایک حادثے کا عینی شاہد ہوں جس میں ایک مسافر کوسٹر اپر کوہستان کے مقام سے شاہراہ قراقرم سے گر کر سیدھا دریائے اباسین کے کنارے جالگی اور جس میں سوار 25 افراد منہ کے موت میں چلے گئے۔ مقامی لوگوں اور میری گاڑی میں سوار مسافروں نے لاشوں کونکال کر محفوظ مقام تک پہنچایا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایسے حادثات میں سرکاری مشنیری ہمیشہ دیر سے پہنچتی ہے۔‘
ڈرائیورعثمان غنی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’ان حادثات کے تدارک کے لیے شاہراہ قراقرم کی چوڑائی میں مناسب اضافہ کیا جائے اور دریا کے کنارے والی طرف مضبوط باڑ لگائی جائے۔‘
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر طاہر اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شاہراہ قراقرم پر حادثات کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ تنگ سڑک کی خستہ حالی، ڈرائیوروں کی نیند پوری نہ ہونا اور تیز رفتاری سے اوور ٹیکنگ کرنا۔ علاوہ ازیں شاہراہ قراقرم پر سائن بورڈ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘
طاہر اقبال بتاتے ہیں کہ ’اس سلسلے میں ٹریفک پولیس شاہراہ پر سفر کرنے والے مسافروں کے لیے مہم بھی چلاتی ہے اور یہ مہم پورے ملک سے شمالی علاقہ جات کی جانب سیر و تفریح کی غرض سے آنے والے سیاحوں کے لیے دیگر علاقوں میں ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔‘
ڈی پی او طاہر اقبال کے مطابق: ’خصوصاً موسم سرما میں پہاڑوں سے پتھروں کی زد میں آ کر گاڑیاں حادثات کا شکار ہوتی ہیں۔ ایسے افسوسناک حادثات کی روک تھام کے لیے ضلعی انتظامیہ سفری پلان تیار کرتی ہے۔ بعض اوقات چکائی کے مقام پر قائم پولیس چیک پوسٹ پر گاڑیوں کو رات کے دوران روک کر سفر کی اجازت نہیں دی جاتی۔‘
داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے سیفٹی ایکسپرٹ انجینیئر محمد ابراہیم نے ان حادثات کے تدارک کے بارے میں بتایا کہ ’شاہراہ قراقرم کا بیشتر حصہ پہاڑی سلسلے میں ہے اور ٹریفک کا اصول بھی یہی بتاتا ہے کہ بھاری ٹرک، بسیں اور ایمبولینس کے لیے چھوٹی گاڑیوں کو راستہ چھوڑنا ہوتا ہے۔‘
’ایسے میں چھوٹی گاڑیاں تیز رفتاری کے باعث ٹکر مارتی ہیں اور حادثات کا شکار ہوتی ہیں۔ دوسری جانب گاڑیوں کی پوری طرح سے دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔ بعض اوقات بریک فیل ہونے کی وجہ سے حادثات معمول بن جاتے ہیں۔ اس شاہراہ پر سفر کرنے والے ڈرائیورز کو چاہیے کہ وہ اپنی گاڑیوں کی دیکھ بھال میں کوئی کوتاہی نہ برتیں، ورنہ کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قراقرم ہائی وے کے این 35 سیکشن کے ڈائریکٹر مینٹیننس محمود زمان نے رابطے پر بتایا کہ ’شاہراہ قراقرم کی مکمل بحالی کے لیے اب تک چار ٹھیکے دے چکے ہیں اور اب بھی مرمت کا کام جاری ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’نائٹ سٹڈز، سائن بورڈ اور دیگر سیفٹی کے آلات نصب کرنے کے لیے بھی کنٹریکٹ دیا جا چکا ہے۔ مسافروں کے آرام دہ اور محفوظ سفر کے لیے نیشنل ہائی ویز اتھارٹی پورے پیشہ ورانہ انداز سے کوشاں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پہاڑی سلسلے میں گزرنے والی یہ شاہراہ موسمی حالات میں خراب ہوتی رہتی ہے، تاہم بروقت بحالی کے لیے کنٹریکٹرز اپنی پوری کوشش کرتے رہتے ہیں۔‘
شاہراہ قراقرم پر جان لیوا حادثات میں امدای کارروائیوں کے لیے حکومت کی جانب سے 2020 میں ریسکیو 1122 کو ذمہ داری تو دی گئی مگر طویل شاہراہ پر ان کا بروقت پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے۔
شاہراہ کے اطراف قائم بستیوں کے مکین انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر مقامی پولیس کے ساتھ مل کر اپنی مدد آپ کے تحت کھائیوں میں جا کر ریسکیو کے عمل میں شریک ہوتے ہیں۔
اس خطے کے عوام کا شروع سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ مقامی غوطہ خوروں کو تربیت دی جائے تاکہ آئے روز ان حادثات کا شکار لاچار متاثرین کی خدمت کر سکیں۔
ریسکیو 1122 اپر کوہستان کے مطابق مہینے میں کم از کم 15 سے 20 زخمیوں کو ایبٹ آباد اور دیگر شہروں کو منتقل کیا جاتا ہے۔
شاہراہ قراقرم کا تاریخی پس منظر
اس عظیم الشان سڑک کی تعمیر کا آغاز 1962 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔
شاہراہ قراقرم کی لمبائی 1300 کلومیٹر ہے، جس کا 887 کلومیٹر حصہ پاکستان میں ہے اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔
یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، پٹن، داسو، چلاس، جگلوٹ، گلگت، ہنزہ نگر، سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چین میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔
اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔
موسم کی شدت، شدید برف باری اور لینڈ سلائیڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے، جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔ ایک سروے کے مطابق اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے آٹھ ہزار ٹن ڈائنامائٹ استعمال کیا گیا اور اس کی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔
گلگت بلستان میں جگلوٹ کے مقام پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ، کوہ ہندوکش اور قراقرم اکٹھے ہوتے ہیں۔