پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کو انتخابات میں جیت کے لیے اب الیکٹ ایبلز کی ضرورت نہیں ہے۔ ’ہمارا سب سے بڑا ووٹ بینک ہے۔ جب ووٹ بینک اتنا ہو تو لوگوں کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا۔‘
لاہور کے علاقے زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ پرانڈپینڈنٹ اردو کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت صرف اس وقت کارنر ہوگی جب اس کا ووٹ بینک ختم ہوگا جو ابھی برقرار ہے۔ ’ووٹ بینک تو پی ڈی ایم کا گرا ہے۔ جب بھی الیکشن ہوں گے پی ٹی آئی جیتے گی۔‘
70 سالہ عمران خان کا اصرار تھا کہ پنجاب میں تو حکومت نے محض 15 یا 20 ٹکٹ ہولڈر گرفتار کیے ہیں۔ ’ہم نے تو 300 سے زائد کو ٹکٹ دیئے ہیں۔ باقی تو چھپے ہوئے ہیں۔‘
نو مئی کے واقعات کے بعد حکومت کی جانب سے ان کی جماعت کے خلاف کریک ڈاؤن کے تناظر میں ایک سوال کے جواب میں کہ آیا وہ تنگ گلی میں اپنے آپ کو بند محسوس کر رہے ہیں؟ عمران خان کا اصرار تھا کہ ایسا نہیں۔
’فیصلہ ہونا ہے کہ الیکشن ہوگا یا مارشل لا لگے گا‘
مذاکرات کی پیشکش پر حکومت کی جانب سے کان نہ دھرنے کے بارے میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’مذاکرات تو چلتے رہے ہیں لیکن دوسری جانب سے کوئی رسپانس نہیں ہے۔ مذاکرات وہ چاہتے ہیں جو کوئی حل چاہتے ہیں اور حل الیکشن ہیں۔ وہ یہ نہیں چاہتے ہیں۔ اس سے بھاگ رہے ہیں۔‘
گذشتہ روز ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ جب سیاسی رہنما اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے میز پر بیٹھتے ہیں تو بہت سی سیاسی و آئینی پیشرفت رونما ہوتی ہیں تاہم انتشار پسندوں اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں میں فرق ہے جو سیاست دانوں کے لبادے میں ملک کی علامتوں پر حملہ کریں، ان سے مذاکرات نہیں کیے جاسکتے۔
عمران خان اور پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے درمیان سیاسی رسی کشی بدستور جاری ہے۔ نو مئی کے واقعات کے بعد اس کی نوعیت میں کچھ تبدیلی آئی ہے لیکن نہ عمران خان اور نہ ہی حکومت اپنے اپنے موقف میں کسی نرمی کا کوئی اشارہ نہیں دے رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملک میں مزید سیاسی کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے۔
عمران خان سے جب دریافت کیا گیا کہ انہوں نے گذشتہ ایک برس میں جلد انتخابات کروانے کے لیے ہر سیاسی حربہ یا چال استعمال کر لی لیکن کامیابی اب تک نہیں ملی اس کی وجہ ان کی سیاست، بیانیے کی کمزوری یا ان کی شخصیت کی کوئی خرابی ہے؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد یا وژن تو صرف جلد انتخابات کروا کر ملک میں سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام ختم کروانا تھا۔
’الیکشن پاکستان کی ضرورت تھی۔ ملک ڈیفالٹ ہو رہا ہے اور تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی ہے۔ سب پی ٹی آئی سے ڈرے ہوئے ہیں۔‘
نو مئی کے پرتشدد واقعات کی تحقیقات کے ان کے مطالبے کے بارے میں اس سوال پر کہ کیا کبھی اس ملک میں غیرجانبدارانہ انکوائری ہوئی جس کے نتائج سب کے سامنے آئے ہوں؟ تو عمران خان کا کہنا تھا کہ آگ تو چار یا پانچ جگہ لگی جن میں کور کمانڈر ہاؤس اور ریڈیو پاکستان پشاور جیسی جگہیں تھیں، وہاں کیمرے ہوں گے، سیف سٹی کے کیمرے ہیں سب معلوم ہو جائے گا۔ ’یہ انکوائری تو بہت سیدھی سادھی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’آئین اور قانون ہمیں پرامن احتجاج کی اجازت دیتا ہے۔ جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج کرنا ہمارا حق ہے۔ اندر ہماری پارٹی نہیں گئی بلکہ ہمارے لوگ انہیں روک رہے تھے۔‘
عمران خان کو شک ہے کہ اس پکڑدھکڑ کی تیاری پہلے سے ہو چکی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے ان کے 23 ہزار کارکنوں کی فہرست بنائی ہے جن میں سے 10 ہزار گرفتار کیے جاچکے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ اعداد و شمار کہاں سے اکٹھے کیے گئے؟ تو ان کا کہنا تھا: ’ہمارے اپنے لوگوں نے یہ بتایا ہے۔ یہ مکمل فاشزم ہے۔ ہمارے وکیلوں کو ان (گرفتار کارکنوں) سے ملنے تک نہیں دیا جا رہا۔‘
گرفتار کارکنوں کی رہائی کے لیے بظاہر کچھ نہ کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ہر ضلعے میں ان کے وکیلوں کی اس سلسلے میں ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔
’کئی پکڑے ہوئے کارکنوں کے خلاف تو ایف آئی آر بھی درج نہیں کی گئی، انہیں نامعلوم افراد کی فہرست میں ڈالا ہوا ہے۔ یہ منصوبہ بندی سے پی ٹی آئی کو کرش کرنا چاہ رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سوال پر کہ کیا وہ نہیں سمجھتے کہ اپنی گرفتاری کو ریڈ لائن قرار دینا اس پُرتشدد احتجاج کی وجہ بنی؟ عمران خان نے کہا کہ انہوں نے خود کبھی ایسا نہیں کہا۔ ’میرے کارکن یہ کہتے تھے کیونکہ ایک مرتبہ انہوں نے (حکومت نے) غیرقانونی طور پر مجھے بنی گالہ سے گرفتار کرنے کی کوشش کی۔
’بعد میں گولیاں لگیں تو پارٹی کے اندر یہ خوف تھا کہ مجھے پھر قتل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کا مطلب تھا کہ یہ ان کے لیے ریڈ لائن ہے۔ وہ (حکومت) تو خود کہتی ہے کہ عمران خان کو الیکشن نہیں کرنے دینا۔‘
گرفتار ہونے والے رہنماؤں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پارٹی چھوڑنے والوں پر شدید دباؤ تھا تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کس قسم کا دباؤ تھا۔ انہوں نے اس سلسلے میں شیریں مزاری کا خصوصی ذکر کیا کہ ان پر ان کے خاندان، بیٹی کا کافی دباؤ تھا اور پھر ان کی صحت بھی کافی خراب تھی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ بعض رہنماؤں کے پارٹی چھوڑنے پر انہیں دکھ ہوا ہے۔
پارٹی پر پابندی یا ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمے کا کتنا امکان ہے؟ اس سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ بقول ان کے قانون نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ ’ججوں کے فیصلوں پر عمل نہیں ہو رہا۔ وہ ضمانت دیتے ہیں، حکومت پھر گرفتار کر لیتی ہے۔
’سپریم کورٹ کے 14 مئی کے حکم کے باوجود انتخابات نہیں ہوئے۔ ملک طاقت کے زور پر چل رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر فوجی عدالتوں میں شہریوں کے خلاف مقدمات چلیں گے تو جمہوریت تو ختم ہوگئی۔ ’نیم مارشل لا تو لگ گیا ہے۔ ان کا پہلے پی ٹی آئی کو ختم کرکے نواز شریف کو بحال کروانا مقصد ہے۔‘
کیا پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنا اچھا فیصلہ تھا؟ اس سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تو آئین کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا تھا۔ ’90 دن میں انتخابات پھر ہو جانے چاہیے تھے۔‘
مستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق جو بھی ہوگا انہیں ان کے ساتھ چلنا پڑے گا۔ ’ان کے خلاف ریفرنس اس وقت کے وزیر قانون اور قانونی ماہرین نے اس طرح پیش نہیں کیا گیا تھا جیسے ہونا چاہیے تھا۔
’پھر گیم یہ بنائی گئی کہ جیسے میں نے عدلیہ یا ججوں کے خلاف کچھ کیا ہے۔ میں نے تو ریفرنس جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش کیا تھا۔ ہمیں اس میں پڑنا ہی نہیں چاہیے تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں انہوں نے نہ قانونی اور نہ اخلاقی طور پر کوئی غلط کام کیا اور یہ مقدمہ بھی فارن فنڈنگ کیس کی طرح باہر پھینک دیا جائے گا۔
حکومت میں آنے کی صورت میں کیا وہ افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کریں گے؟ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات اچھے رکھنے چاہییں۔ ’افغانستان کی خواتین خود اپنے حقوق لے لیں گی۔ ہمیں ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔‘
ان کا اصرار تھا کہ انڈیا میں مودی حکومت کی مسلمانوں کے خلاف پالیسیوں کی وجہ سے کسی ملک نے ان کے ساتھ تعلقات کبھی خراب نہیں کیے۔ ’ہمیں اپنے فیصلے قومی مفاد میں کرنے چاہیں۔‘