پاکستان تحریک انصاف جس صورت حال سے دوچار ہے اسے پوسٹ ٹروتھ کی روایتی جذباتیت سے نہیں، عقل و شعور اور سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں چند سوالات نہایت اہم ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ ریاست نے اس دفعہ عمران خان کے معاملے میں جو دو ٹوک اور سخت رد عمل دیا ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ اس بدلتے رویے کا تعلق صرف سیاست سے ہے یا معاملہ ملکی سلامتی کا بن چکا ہے؟
عمران خان ہمارے معاشرے میں جارج آرول کے ’مور ایکول‘ تھے۔ قانون سے بالاتر اور بے نیاز۔ اب مگر پہلی بار قانون نے انہیں نظر بھر کر دیکھا ہے۔ اپنے پرائے کا کوئی فرق نہیں رہا۔ بڑی بڑی سفارشیں ٹھکرا دی گئی ہیں اور قانون کا اطلاق سب پر ہو رہا ہے۔ معاملہ کیا ہے؟ سیاست کا یا ریاست کا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ نو مئی کو جو ہوا وہ اضطراری رد عمل تھا یا باقاعدہ ایک منصوبہ؟ منصوبہ تھا تو اس کی جڑیں داخل میں تھیں یا خارج میں؟ یہ کیا معاملہ ہے کہ عمران خان نے سازش کا الزام بھی امریکہ پر عائد کیا اور ان کے حق میں آوازیں بھی صرف امریکی کانگریس کے نمائندوں نے اٹھائیں۔
زلمے خلیل زاد جیسے کردار بھی امریکی حکومتی ڈھانچے کے قریب ہیں، جو بھلے اقتدار کا حصہ نہیں لیکن امریکی پالیسی سازی میں بطور عامل ان کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بریڈلے شرمن سے زلمے خلیل زاد تک سب کا عمران کے لیے اس حد تک چلے جانا ایک سوالیہ نشان ہے۔
تیسرے سوال کا تعلق عمران خان کے ’سائفر بیانیے‘ سے ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ امریکہ نے سازش کی کیونکہ امریکہ عمران کے دورہ روس سے ناراض تھا۔ سوال یہ ہے کہ پھر عمران کے حق میں روس سے آوازیں کیوں نہیں اٹھ رہیں؟ یہ آوازیں امریکہ سے کیوں اٹھ رہی ہیں؟ اس صورت میں تو امریکہ سے مخالفت ہونا چاہیے تھی اور روس سے حمایت ملنا چاہیے تھی۔ معاملہ اس کے برعکس کیوں ہے؟
پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ امریکہ عمران کو نکال کر جو حکومت لایا، وہی حکومت اسی روس سے تیل خرید چکی ہے اور اس کی پہلی کھیپ پاکستان پہنچ بھی گئی ہے۔
چوتھا سوال محترمہ جمائما کی پاکستانی سیاست میں دلچسپی سے ہے؟ سوال یہ ہے کہ ان کا پاکستانی سیاست میں کیا لینا دینا ہے جو انہیں بےچین رکھتا ہے؟ اگر عمران خان صاحب کے صاحبزادے یہاں سیاست کر رہے ہوتے تو ایک ماں کی دلچسپی سمجھ میں آتی، لیکن قاسم اور سلمان کا پاکستانی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ تک نہیں۔ وہ یہاں کے شہری ہی نہیں تو پاکستانی سیاست میں جما ئمہ صاحبہ اور ان کے بھائی کی دلچسپی کی وجوہات کیا ہیں؟
عمران خان نے پچھلے ایک سال میں تحریک انصاف بمقابلہ پی ڈی ایم کو تحریک انصاف بمقابلہ فوج اور تحریک انصاف بمقابلہ ریاست بنا دیا۔ یہ بیانیہ ایک سیاسی قوت کا نہیں تھا، یہ ایک نیم عسکری گروہ کا بیانیہ تھا۔ یہ کسی سیاسی جماعت کا رویہ نہیں تھا۔ ایسے رویے کے اہداف بھی بالعموم سیاسی نہیں ہوتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پانچواں سوال گویا یہ ہوا کہ ایک سیاسی قوت کو اس انتہا پر لے جانا عمران خان کی عزیمت سمجھی جائے یا یہ کسی اور کھیل کی ابتدا تھی؟ نیز اس بیانیے کا مخاطب پاکستانی عوام تھی یا مخاطب ملک سے باہر کچھ اور لوگ اور کچھ اور قوتیں تھیں؟
چھٹا سوال عمران خان کے اپنے رویے سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا 9 مئی کے واقعات میں ان کی جماعت کے لوگ شامل نہیں تھے۔ اگر چہ واقعاتی طور پر یہ غلط بیانی ہے۔ تاہم اگر ان کی بات تسلیم بھی کر لی جائے تو پھر سوال یہ ہے کہ انہوں نے یوم تکریم شہدا پر بطور جماعت مکمل لاتعلقی کیوں اختیار کی؟
ذمہ داری کا کم از کم تقاضا یہ تھا کہ اس موقع پر وہ کہتے کہ شہدا تو ہم سب کے سانجھے ہیں اور ریاست اگر شہدا کی تکریم کا دن منا رہی ہے تو ہم بھی اس عمل میں شامل ہیں۔ موجودہ حالات میں کچھ اور ممکن نہ تھا تو ایک عدد ٹویٹ ہی کر دی جاتی۔
اگر وہ شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی میں شامل نہیں تھے، اگر یہ ان کی مرضی اور حکم سے نہیں ہوا، اگر یہ ان کی پالیسی نہیں تھی، اگر یہ توہین کرنے والے ان کی جماعت کے لوگ نہیں تھے تو شہدا کے یوم تکریم سے انہوں نے ایسی سرد مہری سے لاتعلقی کیوں اختیار کی؟ کیا اس سے اپنے کارکنان کو کسی خاص فکری سمت میں دھکیل کر لے جانا مقصود تھا؟
ساتواں سوال بنا کر وہ باتیں یاد آجاتی ہیں جو حکیم سعید مرحوم جیسے لوگ کر گئے ہیں۔
آٹھواں سوال یہ ہے کہ جو لوگ پریس کانفرنسیں کر کے پارٹی چھوڑ رہے ہیں کیا یہ ہمارے سیاسی منظر نامے کے روایتی دباؤ کا نتیجہ ہے یا ان رہنماؤں پر بھی واضح کیا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ اب سیاست کا نہیں، قومی سلامتی کا بن چکا ہے اور اس کے یہ شواہد ہیں؟ یعنی یہ پریس کانفرنسیں دباؤ کا نتیجہ ہیں یا کچھ سنگین شواہد کا؟
نواں سوال یہ ہے کہ عمران خان کے اس سارے سیاسی سفر میں جمہوری عمل اور اہل سیاست معتبر ہوئے یا کمزور؟ یعنی عمران خان نے سماج کو، ملک کو، سیاست کو کیا دیا؟
غلام اسحاق خاں زندہ ہوتے تو دسواں سوال یہ پوچھتا کہ پیر مغاں کا کام تمام ہوا یا انگور کے خوشوں میں کچھ رس ابھی باقی ہے؟
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔