حج کی نیت کریں، پیسے جمع کریں اپنی استطاعت کے مطابق پیکج منتخب کریں، چند گھنٹے کی فلائٹ لیں اور تھری سے فائیو سٹار سہولیات سے مزین حج کریں۔
یہ حج ایک ہفتے کا بھی ہو سکتا ہے اور 40 دنوں کا بھی، اس کا انحصار آپ کی جیب اور پیکج پر ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ محض ایک سے 150 سال پہلے حج کی ادائیگی کتنے جان جوکھوں کا کام تھی۔ جن کے پاس وسائل ہوتے تھے وہ بھی سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کی سکت نہیں اٹھاتے تھے۔
انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ سفر اور موسم کی سختیوں سے بچ کر زندہ سلامت لوٹ بھی سکیں گے یا نہیں۔ اگر وہ سفر کی صعوبتوں سے بچ بھی گئے تو کسی وبائی مرض کا شکار ہو کر وہیں کسی صحرا کی خاک ہو جائیں گے۔
ایک یا ڈیڑھ صدی پہلے کے سفرِ حج کی روداد ہمیں اردو کے ان اوّلین سفرناموں میں ملتی ہے جو ہندوستان سے جانے والے حاجیوں نے لکھے تھے۔ 1848 میں یوسف خان کمبل پوش حیدرآبادی کے لکھے ہوئے ’تاریخِ یوسفی‘ کو اردو کے پہلے سفرنامہ حج کا اعزاز حاصل ہے۔
اس سے پہلے بھی لوگ تبلیغی و دینی مشن پر عرب ممالک جاتے تھے تاہم ان کی تفصیلات کم کم ملتی ہیں مگر انیسویں صدی کے وسط میں جب اردو میں سفرنامہ نگاری شروع ہوئی تو حج کے سفرنامے بھی سامنے آنے لگے۔
الحاج خواجہ غلام حسنین پانی پتی، جنہوں نے 14مارچ 1935 میں حج کیا ان کا سفرنامہ ریختہ پر موجود ہے جس میں بڑے دلچسپ حقائق دیے گئے ہیں۔
حج کی تیاری اور حفاظتی ٹیکے
ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے سے پہلے حج کے قافلے حجاز مقدس جاتے تھے جنہیں مغل حکمران اور عثمانی خلفا منظم کرتے تھے۔ راستے میں چوری چکاری کے شدید خطرات ہوتے تھے تاہم 1838 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے الیگزینڈر اوگلوی کو جدہ میں قونصل جنرل بنا کر تعینات کیا، جو مکہ کے نزدیک ایک بندرگاہ تھی۔
اس تعیناتی کا مقصد حجاز اور انڈیا کے درمیان تجارتی روابط کو فروغ دینا تھا اور حجاج کے سفر کی دیکھ بھال تھا۔
جن لوگوں نے حج پر روانہ ہونا ہوتا تھا وہ بمبئی یا کراچی پہنچتے تھے جہاز کا ٹکٹ خریدتے تھے اور حجاز مقدس روانہ ہو جاتے تھے۔ تاہم پہلی جنگِ عظیم کے اختتام پر 1920 میں برطانیہ نے ہندوستانیوں کے لیے پاسپورٹ لازمی قرار دے دیا۔
اس کے بعد انہیں حج کی ادائیگی کے لیے پاسپورٹ بنوانا پڑتا تھا۔ 1939 میں بحری کمپنی مغل لائن لمیٹڈ کے جہازوں کا ممبئی سے حجاز تک دو طرفہ کرایہ 167 روپے تھا۔
الحاج خواجہ غلام حسنین پانی پتی نے لکھا ہے کہ سفر پر جانے سے پہلے انہوں نے ہیضہ اور چیچک کا ٹیکہ پانی پت میں لگوا کر ڈپٹی کمشنر کرنال سے حج کا پاس حاصل کیا۔
حاجیوں کے لیے حفاظتی ٹیکوں کا یہ نظام انگریز نے متعارف کروایا تھا جس کا پس منظر یہ تھا کہ 1865 میں حج کے موقعے پر مکہ میں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی جس سے اس سال 90 ہزار حاجیوں میں سے 15 ہزار انتقال کر گئے۔ بچ جانے والے حاجی واپس اپنے اپنے ملکوں میں گئے تو مصر سے یورپ تک ہیضے کی وبا پھیل گئی اور دو لاکھ لوگ مر گئے۔
وبا کے بارے میں 1866 میں ایک عالمی کانفرنس ہوئی جو اس نتیجے پر پہنچی کہ ہیضے کی وبا انڈیا سے شروع ہوئی اور حجاج کے ذریعے مکہ آئی اور پھر یورپ میں پھیل گئی۔ چنانچہ اس کے بعد اصول اپنا لیا گیا کہ جو بھی حاجی آئے گا وہ بحیرہ احمر میں قائم قرنطینہ سینٹرز میں کچھ عرصہ قیام کر کے حجاز مقدس میں داخل ہو گا۔
بمبئی تک ٹرین اور پھر جہاز کا سفر
لوگ بمبئی تک جانے کے لیے ٹرینوں کا انتخاب کرتے تھے۔ جس سٹیشن سے کسی حاجی نے روانہ ہوتا تھا وہاں انہیں قافلوں کے صورت لایا جاتا اور پھولوں کے ہار پہنا کر رخصت کیا جاتا۔
دوسرے شہروں میں بھی جہاں کہیں ان کے دوست احباب ہوتے وہ راستے کے ٹرین سٹیشنوں پر آ کر انہیں الوداع کہتے تھے۔ تاہم راستے میں حاجیوں کا سامان چوری ہونے کا خدشہ موجود ہوتا تھا، اس لیے حجاج کو اپنے سامان کی کڑی حفاظت کرنی پڑتی تھی۔
اسی طرح راستے میں انہیں ٹھگوں سے بھی واسطہ پڑتا جنہیں معلوم ہوتا تھا کہ یہ حجاز کے سفر پر جا رہے ہیں اس لیے ان کے پاس مال و دولت ہے۔
الحاج غلام حسنین پانی پتی لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں تو انہیں خطرہ ہے لیکن حجاز میں کوئی خطرہ نہیں۔ وہاں ابن سعود کی بدولت حجاز سے نجد تک ایک تنہا آدمی ہزاروں پونڈ لے کراکیلا سفر کر سکتا ہے۔
بمبئی میں حجاج کے لیے الگ مسافر خانے بنے ہوئے تھے۔ جہاں تین دن قیام کے بعد وہ پانچ فروری کو روانہ ہوئے۔ جہاز میں ہر حاجی کو 16مربع فٹ جگہ الاٹ کی جاتی ہے۔ راستے میں ذکر اذکار کی محفلیں بھی سجائی جاتی تھیں اور جو علما دین موجود ہوتے وہ واعظ بھی کرتے تھے۔
لوگ چونکہ ہندوستان بھر سے جاتے تھے اس لیے اپنےاپنے علاقے کے واقعات بھی ایک دوسرے کو سناتے جاتے تاکہ سفر آسانی سے کٹتا رہے۔ دو دن میں جہاز بمبئی سے کراچی پہنچا جہاں سے مزید سامان اور حاجی سوار ہوئے اس عمل میں دو دن صرف ہوئے۔
اس دوران صرف پہلے اور دوسرے درجے کے مسافروں کو جہاز سے اترنے کی سہولت ہوتی تھی۔
تیسرے درجے والوں کو اگر کوئی چیز خریدنا ہوتی تو وہ ایسے خریداری کرتے ہیں جیسے کراچی میں اوپر والے فلیٹوں میں رہنے والی خواتین رسی ڈال کر ریڑھی والے سے سبزی خریدتی ہیں۔
پانی پتی لکھتے ہیں کہ کئی کئی دن سمندر میں تلاطم رہتا ہے جس کی وجہ سے مسافروں کی حالت غیر رہتی ہے۔ کئی مسافر ا س دوران انتقال کر جاتے ہیں جن کا جنازہ ادا کرنے کے بعد میت کو صندوق میں ڈال کر اسے سمندر کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔
مکہ، مدینہ کا سفر اور حج کی ادائیگی
19 فروری کو جہاز جدہ پہنچا اس سے پہلے کامران جو انگریزی عمل داری کا علاقہ ہے وہاں جہاز کو روک کر تمام حاجیوں کا طبی معائنہ کیا گیا تھا۔ اس طرح تقریباً 14دن کے سفر کے بعد جہاز بمبئی سے جدہ پہنچا۔ جدہ میں ایک دن قیام کے بعد حاجی موٹروں کے ذریعے مدینہ جاتے ہیں۔
اس سے پہلے یہ سفر اونٹوں کے ذریعے طے ہوتا تھا۔ جدہ سے مدینہ کچی سڑک ہے جو بہت اونچی نیچی ہے مسافر کو سارے سفر میں جھٹکے لگتے رہتے ہیں ۔ بعض جگہ گاڑی ریت میں دھنس جاتی ہے اور حاجیوں کو اتر کر دھکا لگانا پڑتا ہے۔
پانی پتی لکھتے ہیں کہ حجاز میں مہنگائی ہے، جتنا کھانا بمبئی میں ڈیڑھ آنے میں آتا ہے اتنا یہاں آٹھ آنے میں ملتا ہے۔ پانی کی صراحی جس میں ایک لیٹر پانی آتا ہے وہ ایک قرش کی ملتی ہے۔
مدینہ سے مکہ جاتے ہوئے بھی راستے میں کئی بار موٹر کو دھکا لگا کر ریت سے نکالنا پڑتا ہے۔ نواب آف بہاولپور کی موٹر راستے میں خراب ہو گئی اور انہیں جنگل میں رات گزارنی پڑی۔
منیٰ میں مکانات اور دکانیں بکثرت ہیں جو ان دنوں معقول کرائے پر اٹھ جاتی ہیں۔ امیر لوگ مکانوں میں مقیم ہو جاتے ہیں۔ دوسرے لوگ منیٰ کے وسیع میدان میں خیموں کا انتظام کر لیتے ہیں اور جو لوگ بہت غریب ہوتے ہیں وہ میدان میں ہی لیٹ جاتے ہیں۔
ہم 10 آدمیوں نے تین دن کے لیے 60 روپے فی کس کے حساب سے ٹھیکہ دے دیا تھا جس کے عوض ہمارے کھانے پینے روشنی اور سواری کے لیے اونٹوں کا انتظام کر دیا گیا جن پر ہم مزدلفہ، منیٰ اور عرفات گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جدہ سے بمبئی تک جب واپسی کے لیے مسافر جہاز پر سوار ہو جاتے ہیں تو انہیں واپسی کی جلدی ہوتی ہے ہر کوئی پوچھنا چاہتا ہے کہ جہاز کب بمبئی پہنچے گا؟
26 مارچ کو واپسی کا سفر شروع ہوا ہے۔ حاجی کپتان سے پوچھتے ہیں مگر کپتان کوئی جواب نہیں دیتا۔ بلکہ کہتا ہے دو دن تک کچھ نہیں بتا سکتے۔ دو دن بعد کہا پرسوں بتائیں گے۔
اسی اثنا میں دو حاجیوں نے جہاز کی کمپنی کو بمبئی تار بھیج دیا کہ کپتان صاحب کو کہیں کہ ہمیں محرم سے پہلے بمبئی پہنچا دیں وہاں سے جواب آیا کہ ہم نے کپتان صاحب کو ہدایت کر دی ہے کہ حتیٰ الامکان کوشش کی جائے کہ حاجیوں کی خواہش کو پورا کیا جائے۔
30 مئی کو ایک حاجی نے کہا کہ میں نے نوٹس لگا ہوا دیکھا ہے کہ جہاز چار اپریل کو بمبئی پہنچے گا۔ مگر اس خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ دوسری خبر یہ ملی کہ جہاز میں اتنا کوئلہ نہیں کہ اسے تیز چلایا جا سکے۔
کپتان نے زائد کوئلہ خریدنے کے لیے عدن کو تار دیا تھا مگر جواب ملا کہ گودی پر ٹھہرنے کا ایک ہزار روپیہ لیا جائے گا۔
جہاز نے 500 روپیہ دینا چاہا مگر عدن والوں نے نہیں مانا۔ بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں حقیقت کا علم نہیں۔ بالآخر نوٹس لگ گیا کہ جہاز پانچ اپریل کو 10 بجے دن بمبئی پہنچے گا۔ جہاز کی رفتار 10 میل فی گھنٹہ ہے جدہ اور بمبئی کا فاصلہ 2340 میل کے قریب اس لیے یہ فاصلہ وہ پونے 10 دن میں طے کرے گا۔
واپسی کے سفر میں 1684 حاجی سوار تھے جن میں سے چھ راستے میں انتقال کر گئے۔