’باربی کی دنیا‘: جہاں کاسمیٹک سرجری معمول بنتی جا رہی ہے

آج کل کے دور میں زیادہ سے زیادہ لوگ پلاسٹک سرجری کے ساتھ خود کو ’ایڈٹ‘ کر رہے ہیں۔

یکم فروری، 2018 کو پیرس میں استھیٹک سائنس، پلاسٹک سرجری اور کاسمیٹک ڈرماٹالوجی کانگریس ہو رہی ہے (اے ایف پی)

اگر باربی ایک حقیقی عورت ہوتی تو وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ ہوتی۔ اس کا بہت بڑا سر اس کی گردن پر آگے لڑھک جاتا، اس کے چھوٹے ٹخنے اس کی لمبی ٹانگوں کے نیچے دب جاتے اور اسے چاروں شانے چت چلنے پر مجبور ہونا پڑتا۔

باربی کے بارے میں آنے والی نئی فلم میں مارگوٹ روبی نے اپنے کردار کی دانتوں سے لبریز مسکراہٹ اور سنہرے بالوں کو مزید نکھارا ہے لیکن وہ پھر بھی باربی کے خوف ناک تناسب کی نقل کے قریب نہیں آ سکتی۔ زیادہ مہم جو نقالوں نے تاہم کوشش کی ہے۔

دا سپیکٹیٹر میگزین کی لویز پیری نے ایک تحریر میں لکھا کہ یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ پلاسٹک سرجری کے عادی کئی افراد میں سے ایک 'ایسٹرن بلاک باربی' کے طور پر جانی جانے والی مالڈووا کی 37 سالہ ویلیریا لوکیانووا کی پسلیاں نکال دی گئی ہیں اور ان کی پلکیں کاٹ دی گئی ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ حقیقی (یا غیرحقیقی) نظر آئیں۔

یہ ایک انتہائی سنگین مثال ہے لیکن اس سے بھی زیادہ پریشان کن چیز بنیادی رجحان ہے۔ سوشل میڈیا پر پرورش پانے والی ایک نسل، جو اپنا ایک مثالی ورژن پیش کرنے کی عادی ہے، خوبصورتی کے ایک خاص آئیڈیل کے شکار ہو رہے ہیں۔

یہ سب کچھ ایک ایسے دور میں ہو رہا ہے جب اپنی تصاویر کو نکھارنا وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ پلاسٹک سرجری کے ساتھ اپنے اصل خود کو ایڈٹ کر رہے ہیں۔

قیمتیں بھی گر رہی ہیں: برطانیہ میں 200 پاؤنڈ سے ہونٹ بڑے کریں اور 3500 پاؤنڈ میں ناک ٹھیک کروا لیں۔

برٹش ایسوسی ایشن آف ایستھیٹک پلاسٹک سرجنز (بی اے اے پی ایس) کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال ایک ہفتے میں 600 کاسمیٹک پروسیجر کیے گئے، جو اس سے قبل سال کے مقابلے میں دوگنا ہیں۔

برطانیہ میں اہم سڑکوں پر بوٹوکس، لائپوسکشن اور چربی کا خاتمہ کرنے والے اشتہارات لگ رہے ہیں۔

انسٹا گرام اور رئیلٹی ٹی وی پر انفلوئنسرز کے ذریعے مقبول ہونے والی تکنیک کی ایک نئی رینج نوز جاب، چھاتی میں اضافہ اور پیٹ کم کرنا شامل ہیں۔

برطانوی گاہکوں کو متوجہ کرنے والے ایک ترک کلینک کے مطابق 'باربی ناک' ایک چھوٹی، خوبصورت ناک پر مشتمل ہے جیسے کسی افسانوی تصور سے آیا ہو۔

برازیل میں سب سے تیزی سے بڑھنے والا طریقہ کار بٹ لفٹ یا بی بی ایل ہے: یہ برطانوی صحت کے نظام میں نہیں کروایا جا سکتا ہے لیکن ان کی ویب سائٹ پر دی گئی اس کی وضاحت کافی مقبول ہے۔

جسم کے ایک حصے (رانوں یا پیٹ) سے چربی نکالی جاتی ہے اور زخم کو ٹانکے لگا کر بند کر دیا جاتا ہے۔

اس کے بعد چربی کو ہموار یا بڑھنے کے لیے انجکشن کے ذریعے ڈالا کیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں چربی کی منتقلی کے اس طرح کے طریقہ کار پر دو سے آٹھ ہزار پاؤنڈ تک لاگت آتی ہے۔

گذشتہ سال برطانیہ میں اس قسم کے 1600 آپریشن کیے گئے جو 36 فیصد کا اضافہ ہے۔

پلاسٹک سرجری اور انجکشن متوسط طبقے کا معمول بن رہا ہے اور بہت سے لوگ اس قسم کے کام کے لیے تڑپ رہے ہیں جو اگر مناسب طریقے سے کیا جائے تو تقریباً نظر نہیں آتا۔

ایک امریکی کاسمیٹک سرجن اینڈریو جیکونو کا کہنا ہے کہ '50 سال یا اس سے زیادہ عمر کی ہر سیلبرٹی نے جو اب بھی جوان دکھائی دیتا ہے تو اس کی سرجری کی ہوگی۔‘

یقیناً، زیادہ تر اس سے انکار کرتے ہیں۔ طبی جمالیات کا سب سے زیادہ نقصان دہ اظہار 'انسانی باربیز' نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو دوپہر کے کھانے کے وقفے کے دوران ایسی چھوٹی موٹی سرجری کرواتے ہیں جس سے باآسانی انکار کیا جاسکتا ہے۔

اس کا اس چیز پر کہیں زیادہ گہرا اثر پڑتا ہے جسے ہم نارمل سمجھتے ہیں – ایک ایسا رجحان جس کی عکاسی اور اضافہ رئیلٹی ٹی وی نے کیا ہے۔

دو دہائی قبل ہمارے پاس ایم ٹی وی کا آئی وانٹ اے فیمس فیس اور چینل فور کا 10 سال جوان تھا، جس میں کاسمیٹک سرجری کو ٹول کٹ کے طور پر پیش کیا گیا تھا تاکہ آپ اپنے آئیڈیل یا نوجوان کی طرح نظر آئیں۔ اور یہ صرف خواتین ہی نہیں ہیں: اب کاسمیٹک سرجری میں مردوں کا حصہ سات فیصد ہے۔

کارڈیشین بہنیں، جن کی عمریں 30 کے آخر سے لے کر 40 سال کے وسط تک ہیں، اس نئی خوبصورتی کے آئیڈیل کی ملکائیں ہیں۔

وہ دن گزر گئے جب پیرس ہلٹن خوشی سے کم کارڈیشین کے عقب کو 'ایک بڑے کچرے کے تھیلے کے اندر کاٹیج پنیر' کے طور پر بیان کر سکتی تھیں۔

مارکیٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ وائی فشنیس ختم ہو گیا ہے اور بھاری پن ان ہے۔ یہ شکل اچھی قیمت پر آپ کی بھی ہوسکتی ہے۔

پورے برطانیہ میں برطانیہ میں جمالیات کے کلینک 'کائیلی جینر پیکج' (کارڈیشینز کی سوتیلی بہن کے نام پر) کی تشہیر کرتے ہیں، جس میں ہونٹوں، ٹھوڑی، جبڑے، گالوں اور ناک میں فلرز لگائے جا سکتے ہیں۔

ایک کلینک نے بی بی ایل کا ایک ورژن بھی پیش کیا جب وولورہیمپٹن کونسل نے اسے کچھ ہفتے پہلے یہ کہتے ہوئے کہ اس کے پاس اس طرح کے نازک سرجری کرنے کی مہارت نہیں ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔

یہ پہلا موقع تھا جب کسی کونسل نے اس طرح کا کریک ڈاؤن کیا۔ کونسل نے نشاندہی کی کہ بی بی ایل لائسنس جیسی کوئی چیز نہیں۔ ٹیکنالوجی ریگولیٹرز سے کہیں زیادہ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔

تشویش کی وجہ بہت واضح ہے۔ جب بی بی ایل غلط ہو جاتے ہیں تو وہ مہلک ثابت ہوسکتے ہیں – دنیا بھر میں کی جانے والی تین ہزار سرجریز میں سے ایک موت کا باعث بنتی ہے۔

یہ تیزی سے ایک عالمی مارکیٹ بن رہی ہے۔ ترکی خود کو یورپ کے رہنما کے طور پر پیش کر رہا ہے، جو برطانیہ کی قیمت کے تقریباً ایک تہائی پر بی بی ایل کی پیشکش کر رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترکی کے قومی شماریات کے ادارے کے مطابق گذشتہ سال تقریباً 12 لاکھ طبی سیاحوں نے ترکی میں دو ارب ڈالر سے زائد خرچ کیے، نہ صرف کاسمیٹک تبدیلیوں پر بلکہ وزن کم کرنے کی سرجری، ڈینٹسٹری اور دیگر طریقہ کار پر بھی یہ رقم خرچ کی گئی۔

ترکی کی سرکاری ہیلتھ کیئر کمپنی اوشاس نے انگلینڈ کو اپنی سب سے بڑی مارکیٹ قرار دیا ہے۔

جب غیر ملکی آپریشنز غلط ہوجاتے ہیں تو این ایچ ایس اکثر علاج کا بل ادا کرتا ہے۔ بی اے اے پی ایس کا کہنا ہے کہ بی بی ایل کے لیے بیرون ملک جانے والا ایک مریض گوشت کھانے والے بیکٹیریا کے انفیکشن کے ساتھ گھر واپس آیا جس کے علاج کے لیے این ایچ ایس کو ایک اندازے کے مطابق 47 ہزار پاؤنڈ خرچ کرنے پڑے۔

سب سے زیادہ متاثر ہونے والی خاتون ایسٹ اینڈرز کی سابق اداکارہ ڈینیلا ویسٹ بروک ہیں جن کے ترکی میں چہرے کی سرجری اتنی غلط ہوئی کہ انہوں نے اسے درست کرنے کے لیے این ایچ ایس کو پانچ لاکھ پاؤنڈ ادا کرنے کی پیشکش کی۔

برطانوی حکومت کا اندازہ ہے کہ گذشتہ چار سالوں میں ترکی میں علاج کے دوران 24 برطانوی شہری فوت ہو چکے ہیں۔

اکیسویں صدی کی خوبصورتی کے اس آئیڈیل کی ایک عجیب خصوصیت یہ ہے کہ یہ ٹو ڈی کے لیے زیادہ موزوں ہے۔

مٹھی بھر مواقع پر میں نے مشہور انٹرنیٹ خوبصورت شخصیات سے ملاقات کی تو میں ان کی ظاہری شکل دیکھ کر حیران رہ گئی: ان کی جلد بہت ہموار ہوتی ہے اور ہونٹ بہت موٹے ہیں۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انسٹاگرام چہرے حقیقیت کے مقابلے میں انسٹاگرام پر زیادہ بہتر نظر آتے ہیں۔

دکھائی جانے والی خوبصورتی ہمیشہ سے اہم رہی ہے۔ اس بارے میں کافی تحقیق ہویی ہے کہ جن لوگوں کو عام طور پر بدصورت سمجھا جاتا ہے وہ غیر متناسب شرح پر ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں – جیسے کہ ملازمت میں ترقی پانے میں اور دوست بنانے میں۔

2021 کی ایک تحقیق میں پایا گیا کہ جب مہمان نوازی کے عملے کو کوویڈ کے دوران فیس ماسک پہننے پر مجبور کیا گیا تو کم پرکشش عملے کو گاہکوں کی طرف سے زیادہ مثبت سمجھا گیا جبکہ خوبصورت عملے نے گاہکوں کے اطمینان میں کمی دیکھی۔

بچے نہ صرف اس سے واقف ہیں بلکہ انسٹاگرام کے دور میں اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

امریکی اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے 2021 کی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں 15 سال کی عمر کے نوجوانوں میں 'جسمانی ظاہری شکل کے جنون' کی وجہ سے کاسمیٹک طریقہ کار کے لیے مشاورت حاصل کرنے میں 'تیزی سے اضافہ' ہوا ہے۔

آپ اس منطق کو دیکھ سکتے ہیں: اگر بدصورت ہونا ایک غیر معمولی بدقسمتی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، تو کم ہونا - یا یہاں تک کہ خوبصورت ہونا - کسی شخص کی زندگی کو بنیادی طور پر بہتر بنا سکتا ہے۔ اس طرح، ہر مستقبل کی کارڈیشین مکمل طور پر منطقی طور پر برتاؤ کر رہی ہے۔

اگر یہ حقیقی زندگی میں تھوڑا عجیب لگتا ہے تو یہ ایک ایسی نسل کے لیے کم اہمیت رکھتا ہے جو سکرینوں پر زیادہ موجود اور بات چیت کرتی ہے۔

اگر خوبصورتی کو ایک ایسی چیز کے طور پر دیکھا جائے جسے آپ خرید سکتے ہیں تو اس کا نتیجہ خطرناک دوڑ ہوسکتی ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ بوٹوکس کو ایک لڑکی کے میک اپ کٹ کا حصہ ہونے کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے ('مسکارا اور بلش سے مختلف نہیں)۔

ہر بار جب بیوٹی ٹیک کی کوئی نئی مثال مارکیٹ میں آتی ہے تو انسٹاگرام انفلوئنسرز اس پر جھپٹ پڑتے ہیں اور پھر اپنے لاکھوں پیروکاروں کو اس کی تشہیر کرتے ہیں۔

خواتین کو اچانک پتہ چلتا ہے کہ 'نارمل' بیوٹی ریجیم مینی کیور اور بالوں کی رنگت سے کہیں آگے ہے اور اب اس میں سرجیکل تھیٹر باقاعدگی سے جانا بھی شامل ہے، جس پر سالانہ دسیوں ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔

میرا اپنا شک یہ ہے کہ یہ اثر جزوی طور پر غیر معمولی خوبصورت خواتین کی تصاویر کے مسلسل سامنے آنے کا نتیجہ ہے – فلٹرز کے ذریعہ بڑھائی جانے والی تصاویر کے ساتھ ساتھ جمالیاتی علاج بھی – ایک لڑکی کے اپنے نام نہاد 'انٹرا سیکشوئل مسابقت' کے بارے میں تصور کو تبدیل کرتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو ماضی کی لڑکیوں نے اپنے ہم عمر اور عام بچوں کے ایک گروپ کو دیکھا ہوگا جو ان کی طرح گول گول اور مہاسوں سے بھرے ہوئے ہوں گے۔

اب وہ اپنی سکرین کو دیکھتی ہیں اور پوچھتی ہیں: 'میں مقابلہ کیسے کر سکتی ہوں؟‘

ماضی کی باربی ایک زیادہ معصوم دنیا میں رہتی تھی جہاں بچے گڑیا کے ساتھ کھیلتے تھے بغیر یہ سوچے کہ وہ ان کی طرح نظر آسکتے ہیں یا نہیں۔

لیکن نوجوان اب ایک دوسرے کی ایڈٹڈ تصاویر کا تبادلہ کرتے ہوئے بڑے ہو رہے ہیں۔ ان کی پرورش ایک ایسی دنیا میں ہوئی ہے جہاں جمالیات ہر چیز کی کلید معلوم ہوتی ہے: حیثیت، قد، دوستی، امکانات، قیمت۔

ہمیں توقع کرنی چاہیے کہ عالمی طبی جمالیات کی صنعت میں تیزی آئے گی کیونکہ اسے روکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

میری نسل پہلے ہی باربی خوبصورتی کی پلاسٹک کی شاندار دنیا میں اتنی دور چلی گئی ہے کہ اس کے قدرتی آئیڈیل کی طرف لوٹنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

لیکن یہاں نوعمروں کے والدین اور خاص طور پر لڑکیوں کے لیے ایک سبق ہے۔ والدین کی بڑھتی ہوئی تعداد اپنے بچوں کے لیے سمارٹ فون خریدنے سے انکار کر رہی ہے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ ان کی ذہنی صحت پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔

اس وقت ہمارے پاس جو ہے وہ ایک ایسی نسل ہے جو اس سے پہلے کی کسی بھی نسل کے مقابلے میں جمالیات کی بنیاد پر زیادہ جج ہوتی محسوس ہوتی ہے۔

نوٹ: یہ مضمون برطانیہ کے میگزین دا سپیکٹیٹر میں شائع ہو چکا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سٹائل