مغلیہ دور کے مقبول پہناوے فرشی پاجامے کا فرشی شلوار تک کا سفر

فرشی شلوار ان دنوں پاکستان میں خاص طور پر مقبول ہو رہی ہے اور ہر برانڈ نے اسے متعارف کروایا ہے، لیکن کوئی نئی چیز نہیں ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والی آمنہ خان نے اس عیدالفطر کے لیے کپڑوں کا ایک جوڑا درزی سے سلوایا ہے جب کہ دوسرا مارکیٹ سے تیار خریدا ہے۔ انہوں نے دونوں لباسوں میں مشترکہ چیز فرشی شلوار رکھی ہے۔

ایک ہی موقعے کے لیے دو مختلف جوڑوں میں فرشی شلوار کا ٹچ رکھنے کی وجہ بتاتے ہوئے آمنہ خان کا کہنا تھا کہ ’پرانے سٹائل کا لباس ہمیشہ سے میری پسند رہی ہے اور ان میں فرشی شلوار بھی شامل ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’فرشی شلوار کو پسند کرنے کی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ پہناوا ہماری روایتی شلوار قمیص کے بہت قریب ہے۔ 

’فرشی شلوار ایک طرف اگر فیشن ہے تو دوسری طرف اس میں پردے اور حیا والا عنصر بھی برقرار رہتا ہے، جو ہماری ثقافت کا ایک اہم جز ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’یہی وجہ ہے کہ یہاں ہمارے معاشرے میں اس شلوار کو پسند کیا جاتا ہے اور حالیہ دنوں میں اس کے ٹرینڈ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔‘

فرشی شلوار ان دنوں پاکستان میں خاص طور پر مقبول ہو رہی ہے اور ہر برانڈ نے اسے متعارف کروایا ہے۔

لیکن یہاں یہ بتاتے چلیں کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ دورِ حاضر کی فرشی شلوار ہندوستان میں مغلیہ دور میں فرشی پاجامے کی ایک شکل ہے۔

فرشی پاجامے کی تاریخ

متحدہ ہندوستان کے دہلی میں مغلیہ سلطنت کا زمانہ 1857 میں اختتام پذیر ہوا اور انگریزوں نے پورے ملک پر اپنا تسلط جما لیا۔

مغلیہ دور میں بعض ریاستیں آزاد تھیں، جیسے ریاست سوات، ریاست دیر اور دیگر۔

انہی آزاد ریاستوں میں سے ایک ریاست اودھ تھی، جس کا صدر لکھنؤ ہوا کرتا تھا، جو انگریزوں کے آنے تک قائم رہی۔

انٹرنیشنل جرنل آف ٹیکسٹائل اینڈ فیشن ٹیکسٹائل میں شائع ایک تحقیقی مقالے کے مطابق ہندوستان میں انگریزوں کی موجودگی کے دوران مقامی لباس پر گوروں کا اثر چھایا رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’مغل سلطنت میں ایک خصوصیت تھی کہ ان کے لباس میں ترک، مسلمانوں، ہندوؤں اور مختلف تہذیبوں کے لباس آسانی سے رچ بس جاتے تھے اور اسی وجہ سے ہندوستان میں مختلف تہذیبوں کے لباس دیکھنے کو ملتے ہیں۔‘

اسی تنوع کے باعث متحدہ ہندوستانی لباس انگریزوں کے وضع قطع سے بھی متاثر ہوئے اور انگریزی پہناوے کا اثر بھی مقامی کلچر پر غالب رہا، جس کی مختلف اشکال آج بھی موجود ہیں۔

انہی لباسوں میں سے ایک ریاست اودھ کی ملکہ کے فرشی پاجامے تھے، جو 17 ویں سے 20 ویں صدی تک افسر شاہی یعنی امیر یا اس وقت مغل خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کا لباس ہوا کرتا تھا۔

فرشی پاجامہ اس دور میں امیر خواتین کا لباس اس لیے ہوتا تھا کہ اس کے لیے نو سے 15 گز کپڑا درکار ہوتا تھا، جو بہت قیمتی بھی ہوا کرتا تھا۔

فرشی پاجامے کی ساخت

مغلوں کے زمانے میں فرشی پاجامے کی سلوٹیں یعنی شکل دیگر کم قیمت پاجاموں سے مختلف ہوتی تھی۔

فرشی پاجامہ دونوں ٹانگوں کے لیے دو حصوں (سکرٹس) پر مشتمل ہوتا تھا، جو پائنچوں کے ساتھ منسلک ہو کر ٹخنوں تک بالکل سیدھا ہوتا تھا اور اس کے آخری سرے فرش کو چھوتے تھے۔ 

مغل دور میں شاہی خاندانواں کی خواتین فرشی پاجامے کو سونے یا سلور زری کی کڑھائی سے سجاتی تھیں، جس کی تیاری میں کاریگروں کی بہت زیادہ محنت اور وقت لگتا تھا۔

فرشی پاجامہ عام طور پر ’اتلس یا ایتلس سلک‘ نامی کپڑے سے بنتا تھا، جو چین سے درآمد ہوتا، جہاں اب بھی یہ کپڑا کچھ علاقوں میں بنایا جاتا ہے۔

فرشی پاجامہ اور فلمیں

انڈیا کی ریاست راجستھان میں بندستالی یونیورسٹی کے ایک تحقیق مقالے کے مطابق فرشی پاجامے بعد میں انڈین ثقافت کا ایک حصہ بن گئے اور 80 کی دہائی میں مشہور بالی ووڈ اداکاروں نے فلموں میں اسے پہننا شروع کیا۔

اسی مقالے کے مطابق 80 کی دہائی میں ان فلموں میں 19ویں صدی میں مسلم کلچر دکھا کر اس میں شاہی خاندان کی خواتین کو فرشی پاجامے پہنے دکھایا گیا۔

فرشی پاجامے وقت کے ساتھ تبدیل بھی ہوتے رہے اور بعد میں پاکستان اور انڈیا میں شادی بیاہ کی تقریبات میں خواتین کے لباس کا اہم جز بن گئے۔

اس کی شکل اور لمبائی میں تبدیلی ضرور آتی گئی اور ایک شکل غرارہ کہلانے لگی، جو آج بھی انڈیا اور پاکستان میں مقبول ہے۔

یہی فرشی پاجامہ آج کل فرشی شلوار کے نام سے ان دنوں پاکستان میں ٹرینڈنگ میں ہے اور سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر ہو رہی ہیں۔

اسے ’فرشی‘ یعنی فرش سے منسوب کیا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شلوار لمبائی میں پہننے کے بعد فرش تک لمبی ہوتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سٹائل