پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اس وقت نگران حکومت کا سیٹ اپ قائم ہے جو ملک میں عام انتخابات کرواتا ہے۔
پاکستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیراعظم بنائے جانے کی تصدیق کی ہے۔
ڈیموکریسی رپورٹنگ انٹرنیشنل نامی ایک ادارے کی 2014 میں شائع ہونے والی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’پاکستان کا معاملہ منفرد ہے۔ عام طور پر دوسرے ملکوں میں اقتدار کی منتقلی کے وقت حکومتیں ’نگران انداز‘ یا کیئر ٹیکر موڈس (Caretaker Modus) میں چلی جاتی ہیں، پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں غیر منتخب حکام کی مدد سے نگران حکومت تشکیل دی جاتی ہے۔‘
اس سے قبل بنگلہ دیش میں بھی پاکستان کی طرز پر نگران حکومت انتخابات کرواتی تھی مگر اسے کو ختم کر دیا گیا اور اب دوسرے ملکوں کی طرح وہاں بھی انتخابات جانے والی حکومت کے دور ہی میں کروائے جاتے ہیں۔
نگران حکومت کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟
جب انتخابات کا اعلان ہو جائے اور حکومت تحلیل ہو جائے تو ظاہر ہے کہ اگلے انتخابات منعقد ہونے اور پھر نئی حکومت بننے کے وقفے تک ملک بغیر حکومت نہیں چل سکتا، اس لیے اس دوران فیصلوں کے لیے حکومت درکار ہوتی ہے۔
دنیا کے دیگر ملکوں نے اس کا یہ حل نکالا ہے کہ انتخابات سے کچھ عرصہ قبل اور نئی حکومت کے آنے تک موجودہ حکومت ہی کیئر ٹیکر موڈس میں چلی جاتی ہے۔
اس دوران وہ کوئی بڑی قانون سازی نہیں کر سکتی، نہ ہی اہم فیصلے کر سکتی ہے۔ اس نے جو فیصلے کرنا ہوتے ہیں وہ نئی منتخب حکومت آ کر ختم کر سکتی ہے۔ ان ملکوں کے قانون میں اس نگران موڈس کی وضاحت اور حکومت پر لگنے والی قدغنوں کی تفصیل درج ہوتی ہے۔ ایسے ملکوں میں کینیڈا، نیدرلینڈز اور نیوزی لینڈ وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے برعکس دنیا کے اکثر ملک ایسے ہیں جن میں حکومتیں اگلی حکومت بن جانے تک مکمل اختیارات کے ساتھ کام کرتی رہتی ہیں۔
جہاں تک بات ہے انتخابات کی تو وہ نہ منتخب حکومت کا کام ہے نہ نگران کا، یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے، جو خود مختار ادارہ ہوتا ہے اور اپنے قانون کے تحت خود فیصلے کرنے کا مجاز ہوتا ہے، اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے اس کے پاس مکمل اختیار ہوتا ہے کہ وہ حکومت کو کسی قسم کی مداخلت سے باز رکھے۔
اس وقت پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں آئین کی رو سے نگران حکومت قائم کی جاتی ہے جو انتخابات سے پہلے اور اگلی حکومت کے قیام تک چلتی رہتی ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نگران حکومت کی غیر جانبداری اور طرزِ عمل کے بارے میں کوئی واضح قوانین موجود نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں نگران حکومت کا قانون
پاکستان میں بھی دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح موجودہ حکومت کے دور ہی میں انتخابات ہوا کرتے تھے۔ پاکستان میں اب تک تین آئین بن چکے ہیں، 1956، 1962 اور 1973۔ ان تینوں آئینوں میں نگران حکومت کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
اس وقت ملک میں جو آئین چل رہا ہے وہ 1973 میں بنا تھا۔ اس آئین کے تحت پہلے عام انتخابات 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت ہی میں ہوئے، نہ کہ کسی نگران حکومت کی سرپرستی میں۔
پھر جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا آ گیا جس نے سیاسی عمل کو معطل کر دیا۔ 1985 میں جب ملک جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے تحت جب آٹھ سال گزار چکا تو جنرل ضیا کو انتخابات کروانے کی سوجھی۔
25 فروری 1985 کو غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات منتخب کیے گئے جن میں محمد خان جونیجو وزیرِ اعظم بن گئے۔ ان انتخابات کے فوراً بعد، نو منتخب اسمبلی کے پہلے اجلاس سے قبل ہی دو مارچ 1985 کو جنرل ضیا نے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا جسے آر سی او کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت پہلی بار پاکستان میں نگران حکومتوں کا تصور پیش کیا گیا۔
یہ اسمبلی جب قائم ہوئی تو اس نے اولین کاموں میں سے ایک کام یہ کیا کہ بدنامِ زمانہ آئینی شق 58 ٹو بی منظور کر دی۔ یہ وہ شق ہے جس کے تحت صدر کو اسمبلیاں توڑنے کا غیر معمولی اختیار دے دیا گیا۔
اس آر سی او میں لازمی قرار دیا گیا کہ جب قومی یا صوبائی اسمبلیاں ٹوٹ جائیں تو انتخابات تک ایک عارضی یا نگران سیٹ اپ کام کرتا رہے۔
یہی نظام آج تک چلا آ رہا ہے، اگرچہ 18ویں اور 20ویں ترامیم میں اس کے اندر کئی تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔
1988 میں جنرل ضیاء الحق کی وفات کے بعد عام انتخابات منعقد کرائے گئے جن میں بےنظیر بھٹو نے فتح حاصل کی۔
آٹھ اگست 1990 کو اس وقت کے صدرِ مملکت غلام اسحٰق خان نے آئین کی ترمیم 58 ٹو بی کے سہارا لے کر بدعنوانی کے الزامات کے بےنظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔
اب معاملہ یہ تھا کہ حکومت ختم ہو گئی تھی اور ابھی الیکشن کروانے میں تین ماہ باقی تھے، اس لیے صدر نے ضیاء الحق کے منظور کردہ آر سی او کو استعمال کرتے ہوئے نگران حکومت قائم کر دی۔
اس پہلی نگران حکومت کے سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی مقرر ہوئے، جنہوں نے چھ اگست 1990 سے لے کر چھ نومبر 1990 تک بطور نگران وزیرِ اعظم فرائض سرانجام دیے اور انہی کے دور میں انتخابات منعقد ہوئے۔
ان انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف کو حکومت ملی، مگر وہ بھی اسی آئینی تلوار کے باعث برطرف کر دیے گئے اور نگران وزیرِ اعظم بلخ شیر مزاری کو بنا دیا گیا۔
اس کے بعد معین قریشی، ملک معراج خالد، محمد میاں سومرو اور ناصر الملک نگران وزرائے اعظم بن چکے ہیں۔
بنگلہ دیش میں نگران حکومت
1990 میں بنگلہ دیش کی تین بڑی سیاسی جماعتوں نے ایک نگران حکومت کے قیام کا فیصلہ کیا جس کے تحت ملک کے چیف جسٹس شہاب الدین احمد کو مشیرِ اعلیٰ بنایا گیا جن کے اختیارات وزیرِ اعظم جیسے تھے۔ اس کے علاوہ مشیر مقرر کیے گئے جو وزرا کے برابر اختیارات رکھتے تھے۔
اسی قسم کے نگران سیٹ اپس نے 1991، 1996، 2001 اور 2008 کے انتخابات منعقد کروائے۔
تاہم 2011 میں عوامی لیگ کی حکومت نے آئین میں 15ویں ترمیم کے ذریعے نگران حکومت کا نظام ختم کر دیا۔ اب بنگلہ دیش میں حکومت کا دائرۂ عمل دوسری حکومت کے آنے تک رہتا ہے۔
اصل وجہ ایک دوسرے پر بداعتمادی
پاکستان میں ہی یہ نظام کیوں چلا آ رہا ہے؟ اس سلسلے میں ایڈووکیٹ حیدر سید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اصل وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی سٹیک ہولڈرز کو نہ تو منتخب حکومتوں اور نہ ہی الیکشن کمیشن پر اعتماد اور اعتبار ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’2011 میں رضا ربانی کی قیادت میں پارلیمانی کمیٹی برائے آئینی اصلاحات نے آئینی کی دوسری شقوں کے ساتھ نگران حکومت کے سیٹ اپ پر بھی غور کیا تھا جس میں یہ بھی زیرِ غور آیا تھا کیوں نہ اسے ختم کر دیا جائے۔
’مگر اس پر سیاسی جماعتوں میں اتفاق نہیں ہو سکا کیوں کہ ہر جماعت کو دوسری پر شک تھا کہ وہ اپنے اقتدار کی قوت استعمال کر کے انتخابات میں مداخلت کریں گے۔
’اسی بداعتمادی کی فضا کی ایک جھلک گذشتہ برس اس وقت نظر آئی جب پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں تو سوال اٹھا کہ اگر وہاں انتخابات ہو گئے تو پھر قومی انتخابات کے وقت منتخب حکومتوں کی جانب سے دھاندلی کا خطرہ رہے گا۔‘
گویا بنگلہ دیش نے یہ بندوبست ختم کر دیا ہے مگر پاکستان ابھی تک اس سے پیچھا چھڑانے کے قابل نہیں ہو سکا۔
دھاندلی اور جھرلو کی لمبی تاریخ
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے، نگران حکومت کا یہ سیٹ اپ دنیا بھر میں انوکھا اور اپنی مثال آپ ہے۔ ایسا نظام قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی خوبیاں اور فوائد بھی ایسے ہوں جن سے پتہ چلتا ہو کہ ایسا غیر معمولی قدم اٹھانے کا جواز کیا ہے؟
بظاہر تو جواز یہی ہے کہ پاکستان میں چونکہ انتخابی دھاندلی کی ایک لمبی تاریخ موجود ہے۔ ایوب خان کی حکومت کے دوران 1965 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کو شکست ہوئی۔ لیکن ان انتخابات کے نتائج ہمیشہ سے متنازع رہے ہیں اور بڑے پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں جھرلو چلا تھا۔
اسی طرح 1977 میں جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں ہونے والے انتخابات منعقد ہوئے تو حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں نے ان کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا اور حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر دھاندلی کی ہے۔
اس کے بعد ہونے والے خونریز احتجاج نے اتنی شدت اختیار کی کہ بالآخر جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی گئی۔
اس لیے بظاہر 1985 میں ضیاء الحق کے جاری کردہ آر سی او کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ انتخابی عمل کو شفاف اور سب کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے کسی غیر جانب دار سیٹ اپ کی جانب سے انتخابات منعقد کروائے جائیں۔
لیکن مسئلہ یہ رہا ہے کہ خود ان بزعم خود غیر جانب دار حکومتوں کے دور میں ہونے والے انتخابات کبھی بھی بےداغ نہیں رہے۔ چاہے وہ 90 کی دہائی میں ہونے والے انتخابات ہوں، جن پر آپریشن ’مڈ نائٹ جیکال‘ کی پرچھائیاں آج بھی نہیں چھٹ سکیں۔ یا پھر 2013 کے انتخابات، جن میں نگران حکومت پر ’35 پنکچر‘ کا الزام لگا، یا پھر 2018 کے انتخابات، جس پر آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ جانے کی وجہ سے آج تک سوالیہ نشان قائم ہے۔
اس لیے سوال اٹھتا ہے کہ جب نگران حکومتوں کے دور میں ہونے والے انتخابات بھی متنازع ہیں تو پھر اس تمام کھٹ راگ کی ضرورت ہی کیا ہے؟
اس کے علاوہ بھی نگران حکومتوں کے طریقۂ کار میں کئی خامیاں اور کجیاں موجود ہیں، جن سے اس نظام کی افادیت مشکوک رہتی ہے۔
ارکان کی اہلیت کا معیار طے نہیں
ماہرِ قانون اور تجزیہ کار آصف محمود اپنی کتاب ’ناقص انتخابی قوانین‘ میں لکھتے ہیں کہ رکنِ پارلیمان کی اہلیت کا تو کڑا معیار مقرر کیا گیا ہے لیکن نگران حکومت کی اہلیت کے لیے کوئی اصول طے نہیں کیا گیا اور یہ معاملہ صرف وزیرِ اعظم، وزیرِ اعلیٰ یا قائد حزبِ اختلاف پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
اسی طرح نگران کابینہ کی اہلیت کا بھی کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا گیا، حالانکہ ان کے ذمے انتہائی اہم کام یعنی شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔
اختیارات پر ابہام موجود ہے
نگران حکومت کے اختیارات کے بارے میں بھی ابہام موجود ہے۔ دفعہ 230 کی دو شقوں میں کچھ عمومی باتیں درج ہیں، کہ نگران حکومت کیا کر سکتی ہے کیا نہیں، لیکن کوئی تفصیل نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے 2013 میں سابق نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کے دور میں کی جانے والی چار سو سے زائد تقرریوں اور تبادلوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
ان تقرریوں کے خلاف مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کے پیٹیشن دائر کی تھی، جسے تسلیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اس وقت کی نگران حکومت کی جانب کی جانے والی تمام تقرریوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ نگران حکومت کا مینڈیٹ صرف شفاف انتخابات کا انعقاد تھا، اور اس کے دور میں کیے جانے والے ان تبادلوں اور تقرریوں کو ایسے سمجھا جائے جیسے وہ کبھی ہوئے ہی نہیں تھے۔
کسی کو جواب دہ نہیں
آصف محمود کہتے ہیں کہ نگران حکومتوں کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ان کی کارکردگی کو جانچنے کا کوئی پیمانہ، کوئی طریقہ نہیں۔ منتخب حکومتیں تو عوام اور حزبِ اختلاف کو جواب دہ ہوتی ہیں، لیکن نگران سیٹ اپ کسی کو جواب دہ نہیں۔ نہ ان کی کوئی مانیٹرنگ ہوتی ہے، نہ کوئی حلقۂ انتخاب۔
ان سارے اعتراضات کی روشنی میں ہمارے قانون سازوں کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ اگر دنیا میں کسی اور جمہوریت نے نگران حکومتوں کا نظام وضع نہیں کیا تو ہمیں نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟