اگر آپ سے سوال کیا جائے کہ اکشے کمار، سلمان خان یا شاہ رخ خان یا پھر سنی دیول کسی پاکستان مخالف فلم میں ہوں گے تو وہ کس نوعیت کی ہو گی؟
یقینی طور پر آپ کا جواب یہ ہو گا کہ یہ تخلیق حقیقی دنیا سے دور ایک ایسے ماحول اور کہانی کی عکاس ہو گی جس میں پیش کیے جانے والے واقعات کا تعلق، تصوراتی دنیا میں بھی ممکن نہیں جس میں تن تنہا ہیرو کئی ایک پر بھاری ہو گا۔
وہ بلا روک ٹوک دشمن ملک میں گھومتا پھرتا رہے گا اور کوئی کچھ نہیں کر پائے گا۔ وہ منصوبے بنائے گا اور کامیاب ہو گا لیکن کوئی بھی اس کا بال بیکا نہیں کر پائے گا۔
اسی خیال کی بہترین مثال ایک بار پھر سلمان خان کی ٹائیگر سیریز کی نئی فلم ’ٹائیگر 3‘ بن گئی ہے۔ جسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے دنیا میں ذہانت، ہوشیاری، پھرتی، منصوبہ سازی اور چالاکی صرف ہیرو سلمان خان کو ہی آتی ہے۔
سلمان خان کی ’ٹائیگر 3‘ دراصل 2012 کی ’ایک تھا ٹائیگر‘ اور پھر 2017 کی ’ٹائیگر زندہ ہے‘ کا تیسرا حصہ ہے۔ سلمان خان اور کترینہ کیف کے علاوہ اس بار عمران ہاشمی کو شامل کیا گیا۔ یہ بھی سلمان اور شاہ رخ خان کا خاصہ ہے کہ ہمیشہ اپنے مقابل ان اداکاروں کو شامل کرتے ہیں جو بلند مقام بنانے کی جدوجہد میں اپنا کیریئر گزار دیتے ہیں۔
اس مووی میں حسب روایت سلمان خان انڈین جاسوس ہیں جبکہ ولن عمران ہاشمی کو بنایا گیا جو پاکستانی عہدیدار ہو کر جمہوریت ہی نہیں اپنی خاتون وزیراعظم کی جان کے دشمن بنے ہوتے ہیں۔ اب ایسے میں ٹائیگر صاحب پاکستانی ہمدرد بن کر خاتون وزیراعظم کے لیے جان پر کھیل جاتے ہیں۔
پروڈکشن ہاؤس یش راج فلمز نے اپنی دیگر فلموں کی طرح اس مرتبہ بھی اس فلم میں ایکشن کی بھرمار کر دی، نظر یہی آ رہا ہے کہ دولت پانی کی طرح بہائی گئی ہے۔ مقصد صرف یہ تھا کہ سلمان خان کو غیر معمولی انداز میں پیش کیا جائے اور کہانی میں جو جھول ہے وہ ایکشن اور ماردھاڑ سے پورا کیا جائے۔
فلم کی کہانی اور سکرین پلے پر بات کی جائے تو کئی مناظر منطق سے عاری ہیں جنہیں آپ فکشن کے طور پر تو دیکھ سکتے ہیں لیکن اگر ان کی منطق ڈھونڈیں گے تو سر پیٹنے کو دل چاہے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چوں کہ اس بار ٹائیگر صاحب کے دل میں پاکستان کی محبت رچی بسی ہے، اسی لیے جمہوریت اور پاکستانی وزیراعظم کے لیے ہر امتحان اور آزمائش سے گزرنے کو تیار ہیں۔
دل و دماغ تو یہ ماننے کو تیار نہیں لیکن فلم میں کچھ ایسا ہی دکھایا گیا۔ اب یہی سب کچھ انڈین فلم بینوں کو بھی ہضم نہیں ہو رہا جن کا کہنا ہے کہ پاکستانی حالات اور واقعات پر مبنی فلم وہ کیوں دیکھیں؟
ان کے لیے اس بات میں قطعی کوئی دلچسپی نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کے خلاف کون ہے اور وہ کیوں چاہیں گے کہ پاکستان میں استحکام ہو۔
اس ضمن میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اتنے معصوم تو انڈین ہدایت کار اور فلم ساز بھی نہیں کہ وہ ان نکات کو فراموش کر جائیں۔ دراصل اس کا ایک پس منظر ہے۔
را کا امیج بہتر بنانے کی کوشش؟
انڈین خفیہ ایجنسی را خاصا بدنام ادارہ ہے۔ حال ہی میں کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل کے بعد یہ منظرِ عام پر آئی ہے لیکن اس سے قبل پاکستان میں اپنے ایجنٹ کلبھوشن جادھو کی گرفتاری اور دوسرے واقعات کی وجہ سے اس کا بین الاقوامی امیج خاصا خراب چل رہا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس فلم کے ذریعے را کا امیج بہتر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ وہ تو امن کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ اور تو اور، وہ اپنے دشمن ملک تک میں جمہوریت کی آبیاری کے لیے سرگرم رہتی ہے۔
دراصل ’ٹائیگر 3‘ سے دو دھاری تلوار کا کام لیا جا رہا ہے کہ ایک جانب پاکستانیوں کے دل میں اپنے اداروں کے لیے نفرت اور انہیں ولن کے طور پر پیش کرنے کی بھونڈی چال ہے تو دوسرے ’را‘ کو دنیا بھر میں امن اور جمہوریت کاعلم بردار بنا کر پیش کرنے کی ناکام جستجو۔
کیا مخصوص ایجنڈے پر مبنی فلمیں بنتی رہیں گی؟
ماضی میں اکا دکا فلم ہی پاکستان مخالف ہوتی تھی لیکن نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ایک بڑی تعداد میں ایسی فلموں کی بھرمار کر دی گئی ہے۔ صرف گذشتہ ایک ڈیڑھ سال کا جائزہ لیں تو سوریا ونشی، دی کشمیر فائلز، کیرالا اسٹوری ، مشن منجو اور غدر2 نمایاں ہیں۔
ان فلموں میں پاکستان اور مسلمانوں کا منفی امیج پیش کیا گیا اور پاکستان پر حملے اور پاکستانی اداروں کو امن کا سب سے بڑا دشمن قرار دینے کے لیے سرتوڑ کوشش کی گئی۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ کچھ ممالک اپنے حریف ملکوں کے خلاف ایسی پروپیگنڈا فلمیں بناتے رہتے ہیں لیکن ذرا ان فلموں کا جائزہ لیں تو ان میں کہیں نہ کہیں کوئی منطق ضرور شامل ہوتی ہے، لیکن انڈین ہدایت کار اور کہانی نویس اس منطق کی سمجھ بوجھ سے کوسوں دور ہیں۔
ان کی ساری تخلیقات ایسی ہیں جن میں پاکستانی ادارے اور افسران ایسے دکھائے جاتے ہیں جیسے انہیں تو کچھ معلوم ہی نہیں، جیسے ان کا کوئی عقل و شعور نہیں بلکہ ایک مخصوص سوچ کے گرد بس گھومتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
ان فلموں میں تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ پاکستان کے پاس صرف انڈیا میں حالات خراب کرانے اور اس کے معاملات میں مداخلت کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی کام ہی نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ حالات و واقعات کو نہ صرف مسخ کیا جاتا ہے بلکہ ان فلموں میں من گھڑت اور مبالغہ آرائی پر مبنی واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ یہ تاثر ہو کہ انڈیا دنیا کا سب سے مظلوم ملک ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم کے ہیرو صاحبان اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان میں بڑے مزے سے گھوم پھر رہے ہوتے ہیں اور کوئی ان سے بازپرس نہیں کرتا۔ انڈین ہدایت کار وں اور پروڈیوسرز اپنے ہیرو کے ’پر‘ نہ ہوتے ہوئے بھی انہیں ’سپرمین‘ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ انڈین ہدایت کاروں نے فلموں میں اپنے ہیروز کے ارد گرد ایک ایسی خیالی دنیا بسا دی ہے جس میں ہر وہ چیز ممکن ہے جو ہیرو چاہے۔
جیسے ’ٹائیگر 3‘ میں شاہ رخ خان اور سلمان خان کے مناظر کو ہی لے لیں، کم و بیش دس سے 12 منٹ یہ دونوں صاحبان سینکڑوں اہلکاروں سے لڑتے رہے۔ سلمان اور شاہ رخ خان کی بےمقصد اور غیر ضروری اچھل کود اور ایکشن فلم کے سست ٹیمپو کو اور بوجھل کر گیا۔
ہزاروں گولیاں ان کے آس پاس سے گزریں لیکن مجال ہے کہ کسی ایک گولی نے بھی ان دونوں کو چھونے کی جرات کی ہو۔ یہ مناظر سچے پرستاروں کو تو تالیاں بجانے پر مجبور کرسکتا ہے لیکن باشعور اور سنجیدہ فلم بین کو کھلکھلا دیتا ہے کہ ہیرو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جسے ننھی منی سی خراش تک نہ آئے۔
سلمان خان ہوں یا عامر خان یا پھر اکشے کمار ان سب اداکاروں کو سوچنا چاہیے کہ آخر کب تک وہ ایجنڈا اور پروپیگنڈے پر مبنی فلموں میں کام کرتے رہیں گے۔ ان کے پسند کرنے والوں کا ایک بڑا حلقہ پاکستان میں بھی ہے لیکن مخصوص مکتبہ فکر کی خو شنودگی کے لیے کیا وہ اس روش کو تبدیل نہیں کریں گے؟
کیا وہ اس تصوراتی دنیا سے باہر نکلیں گے جس میں صرف نفرت اور زہر کا پرچار کیا جائے؟ غدر سیریز میں گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے والے سنی دیول یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب پاکستان میں کرتار پور راہدری پر وہ آئے تو پاکستانیوں نے کیسے ان کا پرتپاک استقبال کیا تھا۔
پٹھان اور ٹائیگر۔۔۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے
یش راج فلمز نے حالیہ دنوں میں اپنی فلموں کو کامیاب کرانے کے لیے ایک نیا تڑکہ یہ لگانا شروع کر دیا کہ ایک فلم میں دوسری فلم کی تشہیر یا پھر اس کے کردار کی رونمائی ہو۔
جیسے’پٹھان‘ میں سلمان خان نے بطور ٹائیگر جھلک دکھائی تو وہیں اس بار ’ٹائیگر 3‘ میں شاہ رخ خان اور ہرتھک روشن کی کی مختصر سی جھلک نے ان کے پرستاروں کو مجبور کیا کہ وہ ’ٹائیگر 3‘ دیکھیں۔
یہ عمل دراصل ناکامی کے انجانے خوف اورخدشات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ وہ کچھ اس طرح کہ فلم ساز خود تذبذب کا شکار ہوتے ہیں کہ پتہ نہیں ان کی فلم چلے گی بھی کہ نہیں۔ یہی خود اعتمادی کی کمی انہیں یہ عمل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
بہرحال اس وقت سوشل میڈیا پر سلمان خان اور شاہ رخ خان کے متوالوں کے درمیان یہ جنگ چھڑ ی ہوئی ہے اگر ’ٹائیگر 3‘ نے نمائش کے صرف تین دنوں میں 100 کروڑ روپے کی کمائی کا سنگ میل عبور کیا ہے تو اس کی ایک وجہ ان کے اپنے اپنے محبوب ہیرو ہیں۔
دونوں کے مداحوں کے لیے بڑی خبر تو یہ ہے کہ یش راج فلمز نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ان کی اگلی تخلیق میں پٹھان اور ٹائیگر ایک ساتھ ہوں گے۔
مبالغہ آمیز کہانیوں اور واقعات پر فلمیں کامیاب کیوں؟
ایک سوال یہ بھی ذہن میں گردش کرتا ہے کہ ٹائیگر3 ہو یا پھر اسی نوعیت کی فلمیں اپنے عجیب و غریب ڈرامائی مفروضات کے گرد گھومنے کے باوجود سو سو کروڑ روپے کا کاروبار کیوں کر لیتی ہیں تو بہت ہی آسان جواب یہ ہے کہ شاہ رخ خان ہوں یا سلمان خان ان کے پرستار انڈیا کے کونے کونے میں ہیں۔ وہ ’منطق‘ سے عاری فلموں کی کہانیوں پر غور نہیں کرتے بلکہ ان کا فوکس اس بات پر ہوتا ہے کہ بھائی جان کیسے لگے یا بادشاہ نے کیا انداز اپنایا۔
یہ وہی مداح جو ان ستاروں کی سال گرہ یا عید تہوار پر ان کی رہائش گاہ پر میلوں کا سفر طے کرکے پہنچتے ہیں اور پھر یہ سپر سٹار کسی بادشاہ سلامت کی طرح اپنی جھلک بالکونی سے دکھاتے ہیں۔ یہی وہ جنون، جوش اور عقیدت ہے جو ان فلم بینوں کو کچھ اور سوچنے پر مجبور نہیں کرتی۔
رومانوی فلموں سے پاکستان مخالف فلموں کا سفر
رومانوی فلموں کے شہنشاہ یش چوپڑا کی یش راج فلمز ایک زمانے میں رومانی اور پیار و محبت کے گرد گھومتی فلموں کے لیے مشہور تھا۔ موسیقی میں کئی ایسی شاہکار فلمیں اسی بینر تلے تخلیق کی گئیں، لیکن حیرانی ہوتی ہے یہ دیکھ کر ٹائیگر 3 میں صرف دو ہی گیت ہیں۔
گذشتہ دو دہائیوں سے اس یش راج فلمز کا مقصد صرف اور صرف پاکستان یا مسلم مخالف فلمیں ہی رہ گیا ہے۔ ان میں فنا، کابل ایکسپریس، وار، سمراٹ پرتھوی اور پٹھان نمایاں ہیں۔
یہاں سوال یہ بھی ہے کہ آخر کب پاکستان یا مسلم مخالف فلمیں بنا نے کا یہ عمل تھمے گا؟
رپورٹ تو یہ بھی بتاتی ہیں کہ انڈیا میں متوقع انتخابات پر 20 پاکستان اور مسلم مخالف فلمیں نمائش کے لیے تیار ہیں۔ یہ تخلیقات دراصل بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی مہم کا ہی حصہ ہیں جن کے ذریعے انڈین عوام کو گمراہ کرنے کی پوری تیاری ہے۔
المیہ تو یہ بھی ہے شیام بینیگل جیسا سنجیدہ ہدایت کار ’مجیب دی میکنگ آف اے نیشن‘ جیسی فلم بنا کر اس میں تاریخی حقاٗئق کو توڑ مروڑ کر اور انہیں مسخ کر کے سکرین کی زینت بناتے ہیں۔
یہاں ایک سنجیدہ نوعیت کا سوال یہ بھی ہے کہ کیا کبھی انڈین ہدایت کار اس بات کی کوشش کریں گے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان نفرت اور خلیج کو دور کرنے کے لیے اپنا کوئی کردار ادا کریں؟
کیا کبھی کوئی فلم ساز یا ہدایت کار دونوں ممالک کے درمیان یکساں مسائل غربت، تعلیم اور خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے مسائل پر مبنی تخلیقات کے لیے کیمرے کے پیچھے کھڑا ہونا پسند کرے گا؟