ہدایت کار من موہن ڈیسائی کو بتایا گیا کہ ان سے ملنے رائٹر پریاگ راج شرما آئے ہیں۔
من موہن ڈیسائی نے اخبار کا مطالعہ روک کر اسے ایک جانب رکھا لیکن اس سے پہلے اس خبر پر ضرور نشان لگا دیا جو وہ پڑھ رہے تھے۔ انہیں تشویش بھی ہوئی کہ اتنی صبح رائٹر ان سے ملنے کیوں آئے ہیں۔
اگلے چند لمحوں میں پریاگ راج شرما ہنستے مسکراتے ان کے مقابل بیٹھے تھے۔ سکرین پلے لکھنے میں مہارت رکھنے والے پریاگ راج شرما سے من موہن ڈیسائی خاصے متاثر تھےجنہوں نے ان کے ساتھ 70 کی دہائی میں فلم ’سچا جھوٹا‘ سے سفر شروع کیا تھا۔
اس فلم کی کامیابی کے بعد من موہن ڈیسائی کی ہر فلم کی کہانی یا سکرین پلے پریاگ راج شرما کا ہی ہوتا۔ اب ان میں ’رام پور کا لکشمن،‘ ’بھائی ہو تو ایسا،‘ ’آ گلے لگ جا،‘ ’چچا بھتیجا،‘ ’دھرم ویر،‘ ’روٹی‘ اور ’پرورش‘ نمایاں تھیں۔
پریاگ راج شرما نے آنے کی وجہ یہ بتائی کہ ان کے گھر والے پکنک پر جانے والے ہیں اور ارادہ یہ ہے کہ یہ پکنک من موہن ڈیسائی کے ممبئی شہر سے دور فارم ہاؤس پر منائی جائے۔ اب رائٹر پریاگ راج شرما، من موہن ڈیسائی سے اسی فارم ہاؤس کی چابیاں مانگنے آئے تھے۔
من موہن ڈیسائی اس فرمائش کو پورا کرنے کے لیے گھر کے اندرونی حصے کی جانب چابیاں لینے گئے لیکن ساتھ ہی پریاگ راج کی طرف اخبار بڑھادیا اور جس خبر پر انہوں نے نشان زد کیا تھا، اسے پڑھنے کا بھی کہا۔
خبر کچھ یہ تھی کہ بمبئی کے پارک میں تین بچوں کو چھوڑ کر ایک شرابی شخص نے خودکشی کر لی۔ تین چار سطر کی روایتی عام سی خبر تھی، جس میں سوائے خودکشی کے کچھ اور چونکا دینے والا نہیں تھا۔
پریاگ راج شرما نے جب اخبار سے نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ہی من موہن ڈیسائی فارم ہاؤس کی چابیاں لیے کھڑے تھے جو ان کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے، ’میں صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر یہ شخص خودکشی نہ کرتا اور واپس پارک لوٹتا تو کیا ہوتا؟ کیا اسے اپنےبچےملتے ؟ اور اگر ملتے تو کتنے ملتے ؟ ذرا سوچو کہ وہ واپس آتا تو کیا ہوتا؟‘
گھر بھر کے ساتھ پکنک پر جانے والے پریاگ راج شرما نے من موہن ڈیسائی سے چابیاں لے کر انہیں ایک طرف رکھا اور چہکتے ہوئے بولے، ’واقعی یہ تو سوچنے والی بات ہے۔‘
اب دونوں نے کاغذ قلم سنبھالا اور مختلف پہلوؤں کو لکھنا شروع کر دیا۔ صبح سے دوپہر ہوئی اور پھر شام اور رات بھی لیکن کہانی کی کھوج میں جتے ان دونوں کو وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ادھر پریاگ راج شرما کے گھر سے من موہن ڈیسائی تک رابطہ کیا گیا لیکن رائٹر پریاگ راج شرما نے یہ کہہ کر معزرت کرلی کہ فی الحال پکنک منسوخ کی جاتی ہے، وہ اس وقت ایک کہانی لکھنے میں مصروف ہیں۔
رات تک سر جوڑے رکھنے کے بعد ایک کہانی تو بنی لیکن اس میں کچھ خامیاں تھیں۔ اسی لیے رات کے آخری پہر پریاگ راج شرما نے اٹھتے ہوئے کہا کہ وہ اب کل آئیں گے اور اس کہانی کو حتمی شکل دیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا۔
اب کہانی کچھ یوں بنی کہ مالی پریشانیوں اور دشمنوں سے بچنے کے لیے ایک شخص تین معصوم بچوں کے ساتھ پارک میں آتا ہے اور پھر ان بچوں سے چند لمحوں بعد آنے کا کہہ کر یہاں سے جاتا ہے۔ اس عرصے میں اس کے یہ تینوں بچے ڈرامائی صورت حال کی بنا پر الگ الگ ہو جاتے ہیں۔
متعلقہ شخص واپس پارک آتا ہے تو اسے اپنا کوئی بچہ نہیں ملتا۔ دلچسپ صورت حال یہ کہ کسی بچے کی ہندو گھرانے میں تو کسی کی مسیحی اورایک کی مسلم گھرانےمیں پرورش ہوتی ہے۔ اب اسی اعتبار سے ان تینوں کا نام ’امر اکبر انتھونی‘ بنتا ہے اور یہی فلم کا ٹائٹل تھا۔
من موہن ڈیسائی نے فلم کے سکرین پلے تو پریاگ راج شرما سے لکھوائے تھے لیکن ڈائیلاگ کے لیے اپنے من پسند قادر خان کی خدمات حاصل کیں جو من موہن ڈیسائی کی فلم ’روٹی‘ کا زبردست کلائمکس لکھ کر ان کے دل اور پروڈکشن ہاؤس میں جگہ بنا چکے تھے۔
من موہن ڈیسائی کی یہ عادت رہی تھی کہ ان کی فلمیں ملٹی سٹار کاسٹ والی ہوتیں۔ اسی لیے اس فلم کے لیے بھی اس زمانے کے تین بڑے ستاروں کو کاسٹ کیا۔ ایک طرف امیتابھ بچن انتھونی کے روپ میں تو دوسری جانب ونود کھنہ امر کے کردار میں جبکہ اکبر کے کردار کے لیے رشی کپور کا انتخاب کیا گیا۔
تینوں ہی فلم میں بھائی ہوتے ہیں، لیکن بچپن میں بچھڑ جاتے ہیں۔ ونود کھنہ پولیس انسپکٹر تو امیتابھ بچن جیب کترے اور رشی کپور نے گلوکار کا کردار ادا کیا۔
ہیروئنز کے لیے بھی من موہن ڈیسائی کا انتخاب پروین بوبی، شبانہ اعظمی اور نیتو سنگھ تھیں۔ 1975 میں فلم کی عکس بندی کا آغاز ہوا۔ فلم میں ہیرو ہیروئز کے ساتھ دیگر معاون اداکاروں میں پران، نروپا رائے، جیون اور رنجیت شامل تھے۔
آنند بخشی کے بولوں پر دل کو چھو لینے والی موسیقی لکشمی کانت پیارے لال نے ترتیب دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے فلم کے ایک گیت ’مائی نیم از انتھونی گونسالیز‘ میں اپنے میوزک ٹیچر انتھونی گون سالیز کا نام استعمال کیا۔ یہ وہی انتھونی گونسالیز ہیں جنہوں نے متعدد موسیقاروں کی دھنوں میں ارینجر کے طور پر رنگ بھرے، جن میں ایس ڈی برمن، نوشاد، او پی نیئر، روی اور آر ڈی برمن جیسے بڑے نام شامل ہیں۔
ہدایت کار من موہن ڈیسائی نےحسب روایت ’امر اکبر انتھونی‘ طے شدہ وقت میں بناڈالی تھی۔ یہ فلم من موہن ڈیسائی کی دیگر فلموں کی طرح مکمل طور پر مرچ مسالا فلمی ڈراما تھی، جس میں جہاں آپ کو بچھڑنے اور ملنے کا چٹخارہ ملے گا۔ وہیں یہ بھی کہ کس طرح کلائمکس میں بصارت سے محروم ماں کا بیٹے کا گانا سن کر بینائی کا واپس لوٹ کر آنے کا چمتکار بھی۔
پھر معمولی سا گیٹ اپ بدل کر دشمن تک ہیروز کا پہنچنا کہ نادان ولنز ان کو پہنچانتے بھی نہیں ہیں جبکہ تینوں ہیروز گیت میں اپنا نام لہک لہک کر لیتے ہیں لیکن مجال ہے کہ ولنز کو خبر ہو۔
دراصل من موہن ڈیسائی کی خاصیت یہی رہی تھی کہ ان کی فلمیں منطق سے کوسوں دور ہوتیں اور اس کا اعتراف وہ خود بھی کرتے کہ تین گھنٹے کی فلم دیکھنے کے لیے سنیما گھر میں آنے والوں کو منطق سمجھانے بیٹھ گئے تو فلم پھر فلم نہیں رہے گی۔ فلم بینوں کو بس فینٹسی ورلڈ میں لے جایا جائے اور یہی کام وہ کرتے ہیں۔
من موہن ڈیسائی کی یہ فلم تکمیل کے مراحل سے تو گزر گئی لیکن اسی دوران انڈیا میں ایمرجنسی لگی تو فلم کی نمائش تعطل کا شکار ہو گئی اور پھر اخر کار 1976 میں نمائش پذیر ہونےوالی ’امر اکبر انتھونی‘ 1977 میں سینیما گھروں میں سجی تو اس نے کھڑکی توڑ کامیابی حاصل کی۔
فلم کے گیت تو پہلے ہی دھوم مچا چکے تھے۔ ایک گیت ’ہم کو تم سے ہو گیا ہے پیار کیا کریں‘ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں اس دور کے تین بڑے گلوکاروں محمد رفیع، کشور کمار اور مکیش کی آواز استعمال کی گئی اور یہ پہلا اور آخری موقع تھا جب ان تینوں نے ایک ساتھ یہ گانا گایا جبکہ گیت ’پردہ ہے پردہ‘ میں ایک لائن کشور کمار کے بیٹے امیت کمار نے اس وقت گائی تھی جب وہ پس پردہ گلوکاری میں نام بنانے کی جدوجہد کر رہے تھے۔
اگلے برس جب فلم فیئرایوارڈز کا میلہ سجا تو ’امر اکبر انتھونی‘ کی سات نامزدگیاں ہوئیں، ان میں بہترین ہدایت کار اور بہترین فلم بھی شامل تھی لیکن امیتابھ بچن، لکشمی کانت پیارے لال اور فلم ایڈیٹر کاملیکر کرخانز ایوارڈز حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ امیتابھ بچن کا بطور ہیرو یہ پہلا فلم فیئر ایوارڈ تھا۔
فلم ’امر اکبر انتھونی‘ 1977 کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم تھی جس نے ساڑھے 15 کروڑ روپے کا کاروبار کیا جو اس دور کے اعتبار سے بہت بڑی آمدن تھی۔
من موہن ڈیسائی برملا کہہ کرتے کہ ان کی اس فلم کی کامیابی کا اصل سہرا پریاگ راج شرما کے سر جاتا ہے جنہوں نے اپنی طے شدہ پکنک کی اچانک قربانی دے کر کے اپنے قیمتی دو دن فلم کی کہانی کی نوک پلک سنوارنے کے لیے دیے۔ اگر اس روز وہ پکنک پر جانے کی ضد پکڑ لیتے تو ممکن ہے ایسی میوزیکل فلم ایکشن ڈراما فلم کبھی تخلیق نہ ہو پاتی۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔