گلوکار اور موسیقار جگجیت سنگھ نے جب 1988 میں نوجوان گلوکار سانو بھٹا چاریہ کی گلوکاری کو سنا تو وہ خاصے متاثر ہوئے۔
موسیقار کلیان جی آنند جی گہرے دوست تھے۔ تبھی اس نوجوان کو لے کر ان تک پہنچے اور سفارش کی یہ بہت زیادہ باصلاحیت گلوکار ہے موقع دیں۔ ان دنوں موسیقار کلیان جی آنند جی ہدایت کار پرکاش مہرہ کی فلم ’جادوگر‘ کے گانے ترتیب دے رہے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب امیتابھ بچن کے لیے پس پردہ آواز کی تلاش جاری تھی۔ محمد رفیع اور کشور کمار کے چل بسنے کے بعد امیتابھ بچن کے لیے کبھی شبیر کمار تو کبھی محمد عزیز کی آواز کا استعمال کیا جاتا تھا۔
اب کلیان جی آنند جی کے لیے یہ مشکل تھی یہ دونوں گلوکار ’جادوگر‘ کے لیے تاریخیں نہیں دے پا رہے تھے۔ 31 برس کے نوجوان سانو بھٹا چاریہ کی جب گلوکاری سنی گئی تو موسیقار جوڑی کو محسوس ہوا کہ جیسے انہیں دوسرا کشور کمار مل گیا ہو۔
نوجوان کا تعلق کولکتہ سے تھا لیکن گلوکاری میں ایسی مہارت تھی کہ انداز گلوکاری سے معلوم ہی نہیں لگتا کہ وہ بمبئی سے تعلق نہیں رکھتے۔ کلیان جی آنند جی تو اس نوجوان گلوکار سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہیں مشورہ دیا کہ سب سے پہلے اپنا نام مختصر کرو۔ نوجوان گلوکار چونکہ کشور کمار کے عاشق تھے اسی لیے ان کے نام کے آغاز میں کمار کا اضافہ کیا، جو مل کر کمار سانو بنا۔
پرکاش مہرہ کو بتایا گیا کہ ایک ایسی آواز ملی ہے جو کشور کمار کی کمی دور کر دے گی۔ لیکن یہاں سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ کیا امیتابھ بچن اپنے لیے اس آواز کو قبول کریں گے؟
فیصلہ ہوا کہ کمار سانو سے ایک گیت ریکارڈ کرا کے امیتابھ بچن کو سنایا جائے۔ لیکن مسئلہ یہ درپیش ہو گیا کہ امیتابھ بچن ایک فلم کی عکس بندی کے لیے امریکہ میں تھے۔ اب جب تک امیتابھ بچن منظوری نہ دیتے تو کیسے پرکاش مہرہ اور کلیان جی آنند جی پھر کمار سانو سے گلوکاری کراتے۔
اس ساری صورت حال سے کمار سانو انجان تھے۔ انہیں ایک دن سٹوڈیو طلب کیا گیا اور ان کی آواز میں گانا ریکارڈ ہوا۔ امیتابھ بچن کے لیے خاص طور پر ایک کیسٹ میں یہ گیت منتقل کیا گیا اور سنجے دت جو امریکہ روانہ ہونے والے تھے ان کے ہاتھوں میں یہ کیسٹ تھمائی گئی اس تاکید کے ساتھ کہ اسے امیتابھ بچن کو پہنچا دیا جائے۔
بمبئی میں کلیان جی آنند جی انتظار میں تھے کہ دیکھتے ہیں کہ امیتابھ بچن کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایک روز امیتابھ بچن کا امریکہ سے فون آیا جنہوں نے وقت ضائع کیے بغیر دریافت کیا، ’یہ گانا کس نے گایا ہے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کلیان جی کا تو دل ڈوبنے لگا۔ ذہن میں یہ بات گردش کرنے لگی کہ امیتابھ بچن کو گلوکاری پسند نہیں آئی۔ اب نئے سرے سے پھر کسی دوسرے گلوکار کی تلاش کرنا پڑے گی۔ بہرحال انہوں نے امیتابھ کو بتایا کہ ایک نیا نوجوان گلوکار کمار سانو ہے۔
امیتابھ بچن نے پرجوش آواز میں کہا، ’اب ’جادوگر‘ کے سارے گانے یہی نوجوان گائے گا۔‘
کمار سانو کو خوش خبری سنائی گئی کہ ان کی آواز میں فلم کے تینوں گیت ریکارڈ کیے جائیں گے۔ کمار سانو اب تک یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی آواز بالی وڈ کے شہنشاہ امیتابھ بچن کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ ’جادوگر‘ کے دو گانے ریکارڈ کرنے کے بعد ایک گیت ’جادوگر‘ کچھ دنوں بعد ریکارڈ کرنے کا فیصلہ ہوا۔
چند ہفتوں بعد کمار سانو طے شدہ وقت پر سٹوڈیو میں مائیک کے سامنے ’جادوگر‘ کا ٹائیٹل سونگ ’میں جادوگر ہے میرا نام گوگا‘ ریکارڈ کرانے کے لیے موجود تھے ۔ تب کلیان جی آئے اور کمار سانو سے کہا، ’تمام تر جوش، توانائی اور جذبے سے گانا، کیونکہ یہ فلم کا خاص گیت ہے۔‘
کلیان جی نے تبھی کمار سانو پر یہ انکشاف کیا کہ ان کی آواز امیتابھ بچن کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ یہ سننا تھا کہ کمار سانو کے تو ہاتھ پیر پھول گئے۔ امیتابھ بچن اس وقت بھی ڈھلتی عمر کے باوجود سپر سٹار ہی تھے۔ اب ان کے لیے پس پردہ گلوکاری کرنے کے خیال نے کمار سانو کو تھوڑا بہت پریشان ضرور کیا لیکن اب انہوں نے سوچ لیا کہ یہی وہ موقع ہے جو ان کی قسمت بدل سکتا ہے۔
کمار سانو نے اس قدر دل کی گہرائیوں سے یہ گیت گایا کہ ریکارڈنگ سٹوڈیو میں اس وقت موجود امیتابھ بچن بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہے۔
لیکن اتفاق یہ رہا کہ یکم دسمبر 1989 کو ’جادوگر‘ سنیما گھروں میں سجی تو کامیابی اس سے روٹھی رہی۔ فلم بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی لیکن کمار سانو کے گائے گیت سب کے کانوں میں رس گھولنے لگے۔ درحقیقت کمارسانو نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
امیتابھ بچن کی ’جادوگر‘ کی ناکامی سے کمار سانو کو کوئی نقصان نہیں ہوا، بلکہ اس فلم کی نمائش کے سال ہی ٹی سیریز کے مالک گلشن کمار کی جوہر شناس نگاہوں نے بھانپ لیا کہ کمار سانو مستقبل کے بڑے گلوکار بن سکتے ہیں۔
جبھی انہوں نے کمار سانو کو لے کر موسیقار ندیم شرون کے ساتھ مل کر دو درجن سے زیادہ گیت ریکارڈ کرائے۔ گلشن کمار مختلف گلوکاروں سے پیشگی گیت ریکارڈ کر کے اپنا ’میوزک پورٹ فولیو‘ بنا رہے تھے۔ اور یہی وہ وقت تھا جب فلم ’عاشقی‘ کا آغاز ہوا تو کمار سانو کے گائے گیتوں نے چاروں طرف دھوم مچا دی جس کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوا جسے فلم بین کمار سانو کی گلوکاری کی وجہ سے یاد رکھتے ہیں۔
یہ بھی کمار سانو کو ہی اعزاز حاصل ہے کہ ’جادوگر‘ کے دو سال بعد جو بھی فلم فیئر ایوارڈز ہوئے ان میں مسلسل پانچ سال تک جب بھی سٹیج سے بہترین گلوکار کا نام پکارا گیا تو وہ کسی اور کا نہیں کمار سانو کا نام تھا۔
کمار سانو نے ہر موسیقار اور اداکار کے لیے نغمہ سرائی کی اور بھارت کی ہر زبان میں گلوکاری بھی کی۔ شہرت اور مقبولیت کا وہ بلند مقام پایا جس کا صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
کمار سانو کئی بار اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ اگرچہ جگجیت سنگھ اور کلیان جی آنند جی نے ان کی گلوکارانہ صلاحیتوں کو شناخت کرتے ہوئے موقع دیا لیکن اگر امیتابھ بچن امریکہ میں ان کی آڈیو کیسٹ سننے کے بعد انہیں مسترد کر دیتے تو عین ممکن ہے کہ وہ آج تک بڑا نام حاصل کرنے کے لیے بھٹک ہی رہے ہوتے۔