1906 سے 2024: مسلم لیگ کے دھڑوں کی کہانی

آل انڈیا مسلم لیگ کا پاکستان کی تخلیق میں کلیدی کردار تھا، مگر آزادی کے بعد سے یہ جماعت متعدد دھڑوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی۔

1940 کی دہائی میں مسلم لیگ کے اجلاس کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان دیگر رہنماؤں کے ہمراہ(پبلک ڈومین)

28 دسمبر 1885 کو جب متحدہ ہندوستان بمبئی کے گوکلداس تیجپال سنسکرت کالج میں انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی گئی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ برطانوی راج کے تحت بنیادی اصلاحات کے لیے ہونے والا یہ اجلاس آگے چل کہ ہندوستان کی تقسیم کا باعث بنے گا۔

کانگریس کے نام پر وجود پانے والی اس سیاسی جماعت نے بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں برطانوی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا جس کے باعث اسے ہندوستانی معاشرے میں بڑے پیمانے پر مقبولیت اور سیاسی حمایت ملی۔

یوں تو گانگریس ہندوستان کے ہر طبقے کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی تھی لیکن 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں میں یہ سوچ پنپ رہی تھی کہ برطانوی راج کے تحت انہیں خاص طور پر ان کے حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ جبکہ یہ خیال بھی عام تھا کہ کانگریس صرف ہندو اکثریت کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہے۔

سر سید احمد خان نے مسلمانوں میں اس سوچ کو فروغ دیا کہ وہ ایک الگ قوم ہیں جو ایک الگ شناخت رکھتی ہے۔

آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام

اسی سوچ کی بنیاد پر 30 دسمبر 1906 کو ڈھاکہ میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس سے ہندوستان بھر سے تقریباً تین ہزار افراد نے شرکت کی جس میں مسلمانوں پر سے سیاست میں شمولیت پر پابندی کو ہٹاتے ہوئے ایک سیاسی جماعت رکھنے کی تحریک پیش کی گئی۔

اسی کانفرنس کے دوران نواب خواجہ سلیم اللہ بہادر نے اس جماعت کا نام ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ رکھنے کی تجویز پیش کی۔

اس جماعت کے بانی اراکین میں خواجہ سلیم اللہ، وقار الملک، سید امیر علی، سید نبی اللہ، خان بہادر اور مصطفیٰ چوہدری شامل تھے۔

سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم کو آل انڈیا مسلم لیگ کا پہلا اعزازی صدر چنا گیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا پہلا اجلاس کراچی میں 29 دسمبر 1907 کو آدم جی پیر بھائی کی زیر صدارت منعقد کیا گیا۔

اسی جماعت کی برطانوی شاخ کی بنیاد لندن میں چھ مئی 1908 کے اجلاس میں رکھی گئی۔

آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی پہلی نمائندہ جماعت تھی اور اس کے قیام کا مقصد برطانوی راج کے تحت مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سیاسی اور شہری حقوق حاصل کرنا تھا۔

 

محمد علی جناح کی مسلم لیگ میں شمولیت

ہندوستان کے نوجوان وکیل محمد علی جناح نے 1913 میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور پھر ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کی آزادی تک وہ اسی جماعت کا حصہ رہے۔

محمد علی جناح 1906 سے انڈین نیشنل کانگریس کا حصہ تھے۔ وہ 1920 تک کانگریس کا حصہ رہے اور کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان لکھنو پیکٹ کے نام سے 1916 میں ہونے والے معاہدے میں ان کا کردار کلیدی تھا۔

انہی کی کاوشوں کی بدولت مسلم لیگ اور کانگرس نے اپنے سالانہ اجلاس مشترکہ طور پر منعقد کرنا شروع کیے۔

1915 میں دونوں جماعتوں نے بمبئی اور پھر 1916 میں لکھنو میں مشترکہ اجلاس کا انعقاد کیا جس دوران لکھنو پیکٹ پر دسخط کیے گئے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں جماعتوں نے مشترکہ طور پر برطانوی حکومت سے آئینی اصلاحات کا مطالبہ کیا۔

1920 تک کانگریس کا حصہ رہنے کے بعد محمد علی جناح نے محسوس کیا کہ موہن داس گاندھی اور ان کے درمیان اختلافات کے باعث ان کا کانگریس میں رہنا ممکن نہیں رہا تو انہوں نے گانگریس چھوڑے کا فیصلہ کیا۔

تاہم ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے وہ 1930 کی دہائی تک کوشش کرتے رہے لیکن انہی برسوں کے دوران کانگریس اور مسلم لیگ میں بڑھتے فاصلوں کے باعث دونوں جماعتوں کے حامیوں کے درمیان پرتشدد واقعات بھی پیش آتے رہے۔

1940 کی دہائی میں دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات بڑھتے ہوئے تقسیم ہند تک پہنچ گئے اور محمد علی جناح کو پاکستان کا پہلا گورنر جنرل تعینات کیا گیا اور باضابطہ طور پر انہیں ’قائد اعظم‘ کا خطاب دیا گیا۔

14 اگست 1947 کو کراچی کے خالق دینا ہال میں آل انڈیا مسلم لیگ کو تحلیل کرتے ہوئے اس کا نام آل پاکستان مسلم لیگ رکھا گیا۔

مسلم لیگ میں تقسیم در تقسیم

ستمبر 1948 میں قائداعظم کی وفات کے فوری بعد ہی مسلم لیگ میں اندرونی اختلافات کی خبریں منظر عام پر آنے لگیں اور مسلم لیگ کے سینیئر رہنما حسین شہید سہروردی نے آل پاکستان عوامی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔

یہ مسلم لیگ میں پہلی تقسیم تھی جس کے پاکستان میں مسلم لیگ کے نام سے درجنوں جماعتیں بن چکی ہیں۔

اسی سال پنجاب کے وزیراعلیٰ افتخار ممدوٹ نے جناح مسلم لیگ کے نام سے نئی جماعت بنانے کا اعلان کیا۔ یہ آل انڈیا مسلم لیگ میں پڑنے والی پہلی دراڑ تھی۔

1949 میں مسلم لیگ میں بائیں بازو کے رہنما میاں افتخارالدین نے آزاد پاکستان پارٹی کی بنیاد رکھی، جب کہ 1950 میں افتخار ممدوٹ اور حسین شہید سہروردی نے اپنی جماعتوں کو ضم کرتے ہوئے جناح عوامی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔

1953 میں حسین شہید سہروردی نے اپنی جماعت کے نام سے مسلم ہٹاتے ہوئے اسے جناح عوامی لیگ کا نام دیا۔ 1954 میں مشرقی پاکستان میں انتخابات میں فتح کے بعد جناح عوامی لیگ نے 1956 میں اپنا نام ’عوامی لیگ‘ رکھ لیا۔ یہی جماعت بعد میں بنگلہ دیش کی بانی جماعت بنی۔

سال 1954 میں سندھ کے پہلے وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو نے ’سندھ مسلم لیگ‘ کے نام سے نئی جماعت کی بنیاد رکھی۔

1955 میں مسلم لیگ کے ایک اور سینیئر رہنما اسکندر مرزا نے ری پبلکن پارٹی کے نام سے ایک نئی جماعت کی داغ بیل ڈالی جس میں جلد ہی مسلم لیگ کے چند اور سینیئر رہنما بھی شامل ہو گئے۔

سال 1958 میں جب اسکندر مرزا اور فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا جس کی زد میں مسلم لیگ اور اس کی تمام ذیلی جماعتیں بھی آ گئیں۔

مسلم لیگ کنونشن کی بنیاد

1962 میں جب سیاسی جماعتوں سے پابندی اٹھائی گئی تو ایوب خان نے مسلم لیگ کو دوبارہ فعال کرنے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے مسلم لیگ اور ری پبلکن پارٹی کے کلیدی رہنماؤں کی مدد سے ایک کنونشن کے دوران ایک نئی مسلم لیگ پاکستان مسلم لیگ بنانے کا فیصلہ کیا۔

 لیکن ان میں سے چند رہنماؤں نے اس جماعت کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے ’پاکستان مسلم لیگ کنونشن‘ کے نام سے ایک نئی جماعت کا ڈول ڈال دیا۔ صدر ایوب خان کو اس جماعت کا سربراہ اور ذوالفقار علی بھٹو کو اس کا پہلا سیکرٹری جنرل چنا گیا۔

صدر ایوب کی مسلم لیگ کے اعلان کے بعد مسلم لیگ کے دو سینیئر رہنماؤں سردار عبدالقیوم خان اور ممتاز دولتانہ نے پاکستان مسلم لیگ کونسل کے نام سے ایک نئی جماعت قائم کی۔

1965 میں پاکستان میں صدراتی انتخابات ہوئے تو محترمہ فاطمہ جناح نے کونسل مسلم لیگ کے رہنماؤں کی درخواست پر اسی جماعت کی جانب سے بطور صدارتی امیدوار انتخابات میں حصہ لیا۔

1967 میں ایوب خان سے اختلافات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی نامی ایک نئی جماعت کے ساتھ میدان سیاست میں اترے۔

کچھ عرصے بعد مسلم لیگ کونسل کے رہنما سردار قیوم خان نے ’قیوم مسلم لیگ‘ کی بنیاد رکھی۔

1970 کے انتخابات کے بعد 1971 میں بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا تو عوامی لیگ سابقہ مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی مغربی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئیں۔

1973 میں سندھ کی بڑی سیاسی شخصیت پیر پگاڑا نے مسلم لیگ کے دونوں بڑے دھڑوں کنونشن اور کونسل کو متحد کرتے ہوئے ’پاکستان مسلم لیگ فنکشنل‘ کی بنیاد رکھی جو آج بھی فعال ہے۔

1977 میں جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں مارشل لا نافذ کیا تو فنکشنل لیگ نے اس کا خیرمقدم کیا جس کے بعد جماعت کے جنرل سیکرٹری ملک قاسم نے ’پاکستان مسلم لیگ قاسم‘ کے نام سے نئی جماعت قائم کرنے کا اعلان کیا۔

پیپلز پارٹی مخالف اتحاد کا قیام

1985 میں جنرل ضیاء الحق نے ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کروائے تو اپوزیشن کی جماعتوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔

ان انتخابات کے بعد مسلم لیگ فنکشنل کے ایک رہنما محمد خان جونیجو نے ’پاکستان مسلم لیگ‘ کے نام سے ایک سیاسی اتحاد قائم کیا جسے پارلیمان میں اکثریت حاصل ہو گئی۔ اس اتحاد نے انہیں وزیراعظم پاکستان منتخب کیا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما میاں نواز شریف بھی 1985 میں پاکستان مسلم لیگ کا حصہ تھے۔

1988 میں انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھی۔ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کو فتح ملی لیکن دو سال بعد ہی ملک میں نئے انتخابات ہوئے تو اسلامی جمہوری اتحاد حکومت میں آ گیا۔

مسلم لیگ ن کا قیام

1993 تک پاکستان مسلم لیگ قائم رہی جس کے بعد محمد خان جونیجو کے حامیوں نے ایک نیا دھڑا بنایا جس کا نام پاکستان مسلم لیگ جونیجو رکھا گیا۔ اس دھڑے کے سربراہ حامد ناصر چھٹہ تھے۔

جب کہ باقی ماندہ جماعت کا نام تبدیل کر کے ’مسلم لیگ ن‘ رکھا گیا جس کے سربراہ میاں نواز شریف تھے۔ اس جماعت کے سرکردہ رہنماؤں میں نواز شریف کے علاوہ راجہ ظفر الحق، چوہدری نثار علی خان، شہباز شریف سمیت کئی اور شخصیات شامل تھیں۔

جونیجو لیگ نے 1993 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حمایت کی اور انتخابات کے بعد اسی جماعت کے رہنما منظور وٹو کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا گیا۔

1995 میں جونیجو لیگ میں اندرونی اختلافات کے بعد منظور احمد وٹو نے ’پاکستان مسلم لیگ جناح‘ کے نام سے نئی جماعت بنائی۔

1999 میں جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو تین سال تک وہ ملک میں بلا شرکت غیر حکمران رہے اور پھر سال 2002 میں جب پاکستان میں انتخابات ہوئے تو قرعہ فال ایک نئی مسلم لیگ ’مسلم لیگ قائداعظم‘ (ق لیگ) کے نام نکلا۔

مسلم لیگ ن کے اہم رہنماؤں میاں محمد اظہر، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الہی، مشاہد حسین سید اور شیخ رشید احمد نے ان انتخابات کے بعد جنرل مشرف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2002 میں مسلم لیگ ن کے سابق رہنما اور جنرل ضیاء الحق کے بیٹے اعجازالحق نے ’مسلم لیگ ضیا‘ کے نام سے ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھی۔

2008 میں مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے سابق رہنما شیخ رشید احمد نے ’عوامی مسلم لیگ‘ کے نام سے ایک نئی جماعت قائم کی۔

مسلم لیگ کے نام پر ہی بننے والی ایک اور جماعت ’آل پاکستان مسلم لیگ‘ جس کی بنیاد سابق فوجی سربراہ جنرل مشرف نے 2010 میں رکھی۔

قیام پاکستان سے 2024 تک بننے والی درجنوں لیگز میں سے کئی اب بھی کسی حد تک فعال ہیں۔ 

عام انتخابات 2024 کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جاری کردہ فہرست کے مطابق اس وقت پاکستان میں 175 جماعتیں فعال ہیں۔ اس فہرست کے مطابق اب بھی 21 جماعتیں ہیں جو اپنے نام کے ساتھ لیگ کا صیغہ استعمال کرتی ہیں جب کہ 19 جماعتیں اپنے نام میں مسلم یا اسی سے ملتا جلتا صیغہ استعمال کر رہی ہیں۔

 پاکستان مسلم لیگ ن ان میں سب سے بڑی جماعت نظر آتی ہے جو ایک بار اسلامی جمہوری اتحاد کے ساتھ 1990 اور پی ڈی ایم اتحاد کے ساتھ 2022 میں پاکستان میں حکومت بنا چکی ہے۔  جبکہ 1997 اور 2013 کے انتخابات میں اس جماعت نے اپنی اکثریت کی بنیاد پر بھی پاکستان پر حکومت کی ہے۔

اس وقت مسلم لیگ ن کے سربراہ سابق وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف ہیں جبکہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ احسن اقبال کے پاس ہے۔

شہباز شریف سے قبل نواز شریف، ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز اور مخدوم جاوید ہاشمی مسلم لیگ ن کی صدارت کر چکے ہیں۔

اس رپورٹ کی تیاری میں الیکشن کمیشن آف پاکستان، انسائیکلو پیڈیا بریٹنیکا، انڈین نیشنل کانگریس، مصنف ندیم فاروق پراچہ کے روزنامہ ڈان میں چھپنے والے کالم : دی مسلم لیگ اے فیکشنل ہسٹری، پاکستان مسلم لیگ ن کی ویب سائٹس اور تاریخ دان عقیل عباس جعفری کی کتاب پاکستان کرونیکل سے مدد لی گئی ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ