آج قائداعظم محمد علی جناح کی سالگرہ کا دن ہے۔ محمد علی جناح کی سیاسی بصیرت اور جدوجہد کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔
برصغیر کا نقشہ مکمل طور پر تبدیل کرنے والے ہمارے قائد کا سیاسی سفر کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔
اس تحریر میں قائد اعظم محمد علی جناح بحثیت گورنر جنرل، ان کے کیے گئے فیصلوں اور اقدامات کو جاننے کی کوشش کریں گے جنہوں نے پاکستان کی معاشی، سیاسی اور بین الاقوامی تعلقات کی ابتدائی راہیں متعین کیں۔
سات اگست 1947 کو قائد اعظم نے دہلی کے پالم ہوائی اڈے سے ڈکوٹہ جہاز کے ذریعے کراچی کا سفر شروع کیا۔
ان کے ساتھ جہاز میں فاطمہ جناح، ان کے نیول اے ڈی سی ایس ایم احسن اور ایئر اے ڈی سی عطا ربانی ہمراہ تھے۔
قیوم نظامی اپنی کتاب قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل میں لکھتے ہیں کہ جب قائد اور فاطمہ جناح کراچی ایئرپورٹ پر اتر رہے تھے تو فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’جناح لُک‘ قائد نے نیچے نظر ڈالی اور کہا ’A lot of people‘ یعنی ایک جم غفیر اپنے قائد کو لینے کے یہاں موجود تھا۔
ایئرپورٹ پر قائد کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ یہاں سے قائد سرکاری رہائش گاہ پہنچے تو انہوں نے اپنے اے ڈی سی سے کہا کہ ’میں نے کبھی اپنی زندگی میں پاکستان کے قیام کی توقع نہیں کی تھی۔‘
11 اگست1947: پاکستان کے ارکان اسمبلی سے خطاب
اس خطاب کو پاکستان کا پہلا منشور کہا جاتا ہے۔ اس خطاب میں آپ نے ارکان اسمبلی سے کہا کہ حکومت کا بنیادی کام امن و امان قائم کرنا ہے۔ عوام کے جان و مال اور ان کے مذہبی عقائد کی مکمل حفاطت بھی حکومت ہی کام ہے۔
رشوت، بدعنوانی اور چور بازاری ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ ماضی اور باہمی تنازعات کو نظر انداز کر تے ہوئے باہمی تعاون کریں تو لازمی کامیابی ملے گی۔
آپ میں سے ہر شخص خواہ وہ اس ملک کا پہلا شہری ہو یا آخری سب کے حقوق و مراعات اور فرائض مساوی ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ اس کا کس فرقہ سے تعلق ہے اس کا رنگ، نسل اور عقیدہ کیا ہے۔
ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں کہ 11 اگست کی تاریخی تقریر میں قائداعظم نے فرقہ پرستی سے پاک ایک ایسے روشن خیال پاکستان کی بشارت دی تھی، جس کے شہری اپنے مذہبی، سیاسی اور مسلکی اختلاف کے باجود قانون کی نظر میں برابر ہیں۔
14 اگست 1947 کا تاریخی دن
یہ دن ہم سب کے لیے اہم ترین دن ہے آئیں دیکھتے ہیں اس دن قائد نے کیا اہم اہم کام کیے۔
اس دن یعنی 14 اگست بروز جمعرات کوصبح نو بجے دستور ساز اسمبلی میں قائد نے انڈیا کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے پاکستان کی آزادی اور اقتدار کی منتقلی کا اعلان سنا۔
پاکستان کرونیکل میں عقیل عباس جعفری لکھتے ہیں کہ اس دن ’قائد اعظم محمد علی جناح اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن ایک مخصوص بگھی پر سوار ہو کر اسمبلی پہنچے۔
عوام نے پرجوش تالیوں میں ان کا استقبال کیا۔ گیلری میں ممتاز شہریوں، سیاستدانوں اور ملکی اور غیر ملکی اخباری نمائندوں کی بھاری تعداد موجود تھی۔
اسمبلی کی کارروائی کے بعد قائد اعظم اور ماؤنٹ بیٹن واپس گورنر ہاؤس آئے اور دو بجے ماؤنٹ بیٹن واپس دہلی کے لیے روانہ ہو گئے۔ جہاں انہوں نے رات 12 بجے انڈیا کی آزادی کا اعلان اور بحیثیت گورنر جنرل منصب سنبھالنا تھا۔
15 اگست: قائد کا پاکستان کی پہلی کابینہ کا انتخاب اور دیگر اداروں کے سربراہوں کی حلف برداری
اگلے دن یعنی 15 اگست کو قائد اعظم نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عبد الرشید سے حلف لیا۔
اس کے بعد قائد نے لیاقت علی خان سے بطور وزیر اعظم حلف اٹھوایا۔ ساتھ ہی پاکستان کی چھ رکنی کابینہ نے بھی حلف اٹھا لیا جس میں سردار عبدالرب نشتر، راجہ غضنفر علی خان، فضل الرحمن، اسماعیل ابراہیم چندریگر، ملک غلام محمد اور جو گندر ناتھ منڈل تھے۔
آج ہی کے دن سر فریڈک بورن نے مشرقی بنگال۔ سر فرانس موڈی نے مغربی پنجاب، شیخ حسین ہدایت اللہ نے سندھ، سر جارج کنکھم نے سرحد اورجیو فرے پرائرے نے کمشنر بلوچستان کی حثیت سے اپنے اپنے عہدوں کا حلف لیا۔
15 کو ہی جنرل فرینک میسروی نے بری، ایئرمارشل پیری کین نے پاکستان فضائیہ اور پاکستان بحریہ کے کمانڈر انچیف ایڈمرل جیمزولفریڈ نے بھی حلف اٹھایا۔
17 اگست: ریڈ کلف ایوارڈ جس نے پاکستان کا نقشہ ہی بدل دیا
’Raiders in Kashmir‘ کے مصنف میجر جنرل اکبر خان لکھتے ہیں کہ سب وثوق سے کہہ سکتے تھے کہ کشمیر کے عوام اور اس کا جغرافیہ دونوں پاکستان کے حق میں تھے۔
لیکن اس وثوق کو پہلا جھٹکا ریڈ کلف ایواڈ کے اعلان سے ہوا۔ اس کے تحت پاکستان سے ملحقہ کچھ ایسا علاقہ انڈیا کو دے دیا گیا جس سے وہ کشمیر اور انڈیا کے درمیان سڑک بنا سکتا تھا۔
اس وقت کشمیر کا دنیا سے رابطہ دو سڑکوں کے ذریعے تھا اور دونوں پاکستان سے گزرتی تھیں۔ لیکن اس ایوارڈ کی تحت انڈیا جموں سے کھٹوعہ تک جانے کے لیے سڑک بنا سکتا تھا۔ اس طرح کشمیر کی انڈیا کے ساتھ الحاق میں دشواری کو دور کر دیا گیا۔
کتاب گرد راہ میں اختر حسین رائے پوری لکھتے ہیں کہ اس امر کے بین ثبوت موجود ہیں کہ ریڈ کلف نے ماؤنٹ بیٹن کے مہمان خانے میں نو سے 13 اگست کے درمیان اپنا کام کیا اور گرداس پور کا مسلم اکثریتی ضلع اور کئی تحصیلیں انڈیا کے حوالے کر دیں۔ اس طرح سے انڈیا کی سرحد کشمیر سے مل گئی۔
18 اگست: قیام پاکستان کی پہلی عید
18 گست 1947 کو پاکستان کی پہلی الفطر منائی گئی۔ قائد نے عید کی نماز بند روڈ پر واقع مولوی مسافر خانہ کے نزدیک مسجد قصابان میں مولانا ظہور الحسن درس کی سربراہی میں ادا کی۔
قائد نے اپنے پیغام میں کہا کہ بلا شبہ ہم نے پاکستان حاصل کر لیا ہے۔ لیکن یہ صرف منزل کی طرف ہمارے سفر کا آغاز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے ان بھائیوں کو جو اب انڈیا میں اقلیت میں رہ گئے ہیں، نظرانداز کریں گے اور نہ ہی فراموش۔
12 ستمبر: قائد اعظم امدادی فنڈ کا قیام
قائد نے قوم سے اپیل میں کہا کہ ’مشرقی پنجاب، دہلی اور انڈین مملکت کے دیگر حصوں میں ہمارے لوگوں پر جو ظلم توڑا جا رہا ہے اس کی شاید ہی کوئی نظیر ہو۔
’ہم کئی سنگین مسائل میں گھیرے ہوئے ہیں لیکن ہمیں اپنے ان بھائیوں کے لیے سوچنا چاہیے۔ اس گمبھیر قومی بحران سے نکلنے کے لیے ہمیں ریاست کے وسائل کے ساتھ ساتھ لوگوں کے نجی عطیات بھی درکار ہیں۔
’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک فنڈ قائم کیا جائے جسے قائد اعظم امدادی فنڈ کا نام دیاجائے۔ اس فنڈ کا انتظام چھ ارکان اور مجھ پر مشتمل ایک مرکزی کمیٹی کرے گی۔‘
28 اگست سے 28 اکتوبر: کشمیر کی جدوجہد کا آغاز
23 اگست 1947 کو کشمیر کے سرکردہ افراد نے ضلع باغ میں منعقد ہونے والے اجتماع میں کشمیر کو ڈوگرہ راج سے آزاد کروانے کے لیے مسلح جدوجہد کا فیصلہ کیا۔
عقیل عباس جعفری پاکستان کرونیکل میں لکھتے ہیں کہ 28 اگست 1947 کو ایک نوجوان سردار عبدالقیوم خان نے اپنے آبائی گاوں غازی آباد، دھیر کوٹ سے پانچ میل دور پڑاؤ ڈالے ہوئے ڈوگرہ سپاہیوں پر حملہ کر کے تین سپاہیوں کو ہلاک کر دیا۔
یہ کشمیر کی آزادی کی پہلی گولی تھی۔ سردار عبد القیوم مجاہد اول کہلائے اور آزاد کشمیر کی مسند صدارت پر بھی بیٹھے۔
لیکن حکومت آزاد کشمیر کا باقاعدہ قیام 24 اکتوبر 1947 کو ہزاروں مسلح افراد کے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف اعلان جنگ کے بعد ہوا اور مظفر آباد کو آزاد کرا کر وہاں آزاد کشمیر کی حکومت کا اعلان کر دیا گیا۔
دو دن بعد ہی مہاراجہ رنجیت سنگھ نے حکومت ہند سے مسلح امداد اور مداخلت کی درخواست کی جس پر فوری عمل کرتے ہوئے انڈیا نے ہوائی جہاز کے ذریعے افواج کشمیرمیں اتار دیں۔
عقیل عباس جعفری لکھتے ہیں کہ ’اس تخریب کاری کی اطلاع شام تک لاہور میں جنرل گریسی کو مل چکی تھی لیکن انہوں نے خاموشی اختیار کیے رکھی یہاں تک کہ قائد لاہور میں ہی تھے لیکن ان سے بھی یہ بات چھپائی گئی۔
’27 اکتوبر کی شام قائد کو اس خبر سے آگاہ کیا گیا۔ تو انہوں نے جنرل گریسی کو کشمیر میں فوج بھیجنے کا حکم دیا۔ قائد نے جموں کشمیر پر حملے کا حکم دیا۔
’جنرل اکبر خان کشمیر کے حملہ آور اور پنڈی سازش کیس میں لکھتے ہیں کہ یہ حکم ملٹری سیکرٹری کی معرفت جنرل گریسی کو ملا تھا لیکن جنرل گریسی نے جواب دیا کہ وہ دلی میں مقیم سپریم کمانڈ آگن کیک کی منظوری کے بغیر افواج کو ایسا حکم نہیں دے سکتے۔‘
اس نے اگلے دن قائد سے ملاقات کی اور پاکستان کرونیکل کے مطابق اس نے قائد کو راضی کر لیا تھا کہ مہاراجہ کے انڈیا سے رجوع کرنے کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور جنگ کو روکنے کے لیے ایک گول میز کانفرنس بلا لی۔ لیکن جنرل اکبر اس بات سے اختلاف کرتے ہیں کہ ’قائد کشمیر پر بھارتی اجارہ داری کو تسلیم کرتے ہیں۔‘
26 ستمبر: ولیکا ٹیکسٹائل ملز کا سنگ بنیاد
اس ٹیکسٹائل مل کا سنگ بنیاد قائد نے اپنے ہاتھوں سے رکھا۔ یہ پاکستان کی پہلی کپڑے کی صنعت تھی۔ قائد نے فرمایا تھا کہ’ قدرت نے ہمیں صعنت و حرفت میں کام آنے والے بہت سے خام مال سے نوازا ہے۔ اب یہ ہمارا کام تھا کہ ہم اسے ملک و عوام کے بہتر مفاد کے لیے استعمال کریں۔ مجھے امید ہے کہ یہ منصوبہ بہت سے نئے کاموں کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے مزدوروں کی رہائش گاہ کے انتظام کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مطمئن کارکنوں کے بغیر کوئی صنعت ترقی نہیں کر سکتی۔
اکتوبر: ریاستوں کا پاکستان سے الحاق
پاکستان کے نقشے میں شامل ہونے والی رہاستوں کی کل تعداد گیارہ تھی۔ ان ریاستوں کے نام قلات، مکران، بہاولپور، خاران، لسبیلہ، چترال، خیر پور، دیر، امب، سوات اور جوناگڑھ ہیں۔
ان میں سے پہلے سات اکتوبر کو بھاولپور ریاست پھر 11 اکتوبر کو خیرپور نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا۔ جبکہ پانچ نومبر کو گلگت اور بلتستان پاکستان کا حصہ بنا۔ سب سے آخر میں 17 مارچ 1948 میں قلات پاکستان میں شامل ہوا۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت
30 ستمبر کو پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بنا۔ اس دن پاکستان اور یمن نے اقوام متحدہ کی رکینت حاصل کی۔
پاکستان 26 واں ملک تھا۔ برطانوی مندوب نے پاکستان کی رکنیت کی تجویز دی اور دیگر ممالک نے پاکستان کے حق میں تقاریر کیں۔
رائے شماری میں پاکستان کے حق میں 53 ممالک نے ووٹ اور ایک ملک نے مخالفت کی اور یہ ملک افغانستان تھا۔
25 دسمبر 1947: قائد کی سالگرہ کا دن
بیگم شائستہ اکرام اللہ لکھتی ہیں کہ کرسمس کا وقت بھی قریب تھا جو قائد کی سالگرہ کا دن بھی تھا۔ گزشتہ چند سالوں سے مسلم لیگ اس تقریب کو نمایاں طور پر منایا کرتی تھی۔
اب کیونکہ پاکستان بن چکا ہے لہذا اب اور بھی شان و شوکت سے یہ دن منائیں۔ علی الصباح پہلی چیز پریڈ تھی۔ جب ہماری بری، بحری اور فضائی فوج کے نمائندے اپنی شاندار وردیوں میں قائد کے سامنے سلامی دیتے ہوئے گزرے تو میرے دل میں فخر و جوش کا جذبہ موجزن ہو گیا۔
وزیر اعظم کے گھر عصرانہ تھا اور شام کو سر غلام حسین ہدایت اللہ اور لیڈی ہدایت اللہ کے یہاں کھانے کی دعوت تھی۔ یہ دونوں اپنی مہمان نوازی کے لیے مشہور تھے۔ سارا علاقہ بقعہ نور بنا ہوا تھا۔
تقریب کے خاتمے کے قریب ہم سب نے قائد کا جام صحت پینے کے لیے ہال میں جمع ہوئے۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ قائد درمیان میں صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ نہایت خوش اور مطمئن نظر آرہے تھے۔ ان کے ساتھ لیڈی ہارون بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہم سب ایک نیم حلقہ بنائے سامنے کھڑے تھے۔
6 جنوری 1948: کراچی میں ہندو مسلم فسادات اور قائد
چھ جنوری کوصوبہ سرحد سے کراچی پہنچنے والے سکھوں کے ایک قافلے پر حملہ کر دیا گیا۔ سکھوں کے کرپانوں اور مذہبی نعروں سے مقامی آبادی مشتعل ہو گئی۔ شہر میں کرفیو لگا دیا گیا۔
سر ظفر اللہ خان کے مطابق قائد اعظم ان فسادات سے بہت رنجیدہ ہوئے۔ انہوں نے فوراً وزارت دفاع کے سیکرٹری اسکندر مرزا کو طلب کیا اور کہا کہ مجھے شہر میں مکمل امن چاہیے، یہ نہ ہو کہ مجھے کسی اور کو سیکرٹری دفاع مقرر کرنا پڑے۔ اگلے دن تک شہر کراچی میں امن قائم ہو چکا تھا۔
31 جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی کے قتل کے سوگ میں پاکستان کے تمام سرکاری دفاتر بند رہے اور قومی پرچم سرنگوں رہا۔ قائد نے اپنے تعزیتی بیان میں کیا کہ وہ ان عظیم ترین افراد میں سے ایک تھے جو ہندو قوم نے پیدا کیے۔
21 مارچ 1948: قائد کا ڈھاکہ میں جلسہ عام سے خطاب اور اردو زبان کا مسئلہ
21 مارچ کو قائد نے ڈھاکہ کے ریس کورس میدان میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔ انہوں نے پاکستان کی ترقی کے لیے تعصب کو زیر قاتل قرار دیا۔
اردو زبان کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا۔ 24 مارچ کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے قومی زبان کی بات پھر سے دہرائی اور مزید کہا کہ ’ہر صوبے کی سرکاری زبان اس کی مقامی زبان ہو گی لیکن اردو رابطے کی زبان ہے۔‘
اس پر انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اے کے فضل حق نے کہا یہ گورنر جنرل کا کام نہیں، اس کے لیے باقاعدہ ریفرنڈم کرانے کی ضرورت ہے۔
10 مئی1948: سٹیٹ بینک کے قیام کا حکم نامہ
طےشدہ معاہدے کے تحت دسمبر 1948 تک پاکستان کو کرنسی مہیا کرنے کی ذمہ داری ریزرو بینک آف انڈیا کے سپرد تھی لیکن قائد اعظم نے10 مئی 1948 کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کا حکم نامہ جاری کیا۔ اس کے بعد کوئٹہ اور زیارت میں قیام کے لیے چلے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی صحت کے پیش نظر قائد سے کہا گیا کہ افتتاحی تقریب کے موقع پر ان کا بیان پڑھ کر سنا دیا جائے لیکن قائد نے اس بات کو پسند نہیں کیا۔
یکم جولائی کو گورنر ہاؤس سے بگھی پر بیٹھ کر قائد اعظم سٹیٹ بینک کی عمارت پہنچے۔
یکم ستمبر: قائد کا آخری خط
یکم ستمبر کو جنرل ڈگلس کو زیارت سے قائد نے اپنا آخری خط لکھا جو کمانڈر انچیف افواج پاکستان تھے۔
انہوں نے اس خط میں کہا کہ انہوں نے اس کی ایک نقل قائد اعظم ریلیف فنڈ کے صدر کو بھی بھیج دی ہے۔ ’میں نے اس فنڈ سے تین لاکھ روپے کی امداد کی منظوری دے دی ہے جو تھل پروجیکٹ کے مہاجر فوجیوں کی بہبود کے لے مخصوص ہے۔‘
11 ستمبر: قائد کی وفات 12 ستمبر کو تدفین
11ستمبر 1948 کو قائد اعظم کا انتقال ہوگیا۔ پاکستان کرونیکل کے مطابق 12 ستمبر کو نماز فجر سے پہلے حاجی ہدایت حسین عظیم اللہ عرف حاجی کلو نے میت کو غسل دیا۔
مولانا انیس الحسین نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ جس میں ہاشم رضا، سید کاظم رضا، یوسف ہارون شامل تھے۔
شام تین بجے قائد کا جسد خاکی گورنر ہاؤس سے کراچی نمائش کے میدان میں لایا گیا۔ یہاں مولانا شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم کی نماز جنازہ پڑھائی اور شام چھ بج کر 24 منٹ پر میت قبر میں اتار دی گئی۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔