پاکستان کے مرکزی بینک ’سٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کے کراچی میں واقع میوزیم میں موجود نوادرات جن میں پاکستان کی پہلی اے ٹی ایم مشین، کرنسی نوٹ چھاپنے والی پہلی پرنٹنگ مشین سمیت مختلف اشیا رکھی گئی ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے روزانہ بڑی تعداد میں طلبہ اور شہری آتے ہیں۔
سٹیٹ بینک کا یہ مالیاتی میوزیم کراچی کے ابراہیم اسماعیل (آئی آئی) چندریگر (سابق میکلوڈ) روڈ پر واقع ہے۔
عجائب گھر کی نچلی منزل کی اونچی چھت والے وسیع ہال میں چھ مختلف گیلریز بنی ہوئی ہیں۔ مرکزی ہال میں قدیم دور میں آڑہت یا بارٹر (اشیا کے عوض اشیا دینے) کے لیے استعمال ہونے والی اشیا، دنیا میں لین دین کے مختلف طریقوں، کرنسی، سکوں کی ڈھلائی اور نوٹوں کی چھپائی کی مشینیں اور سٹیٹ بینک کی تصویری تاریخ بھی نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔
سکِوں کی دو علیحدہ علیحدہ گیلریاں قائم کی گئی ہیں جن میں سے ایک گیلری میں 600 سال قبل از مسیح کے دور کے سکے، اوائلی ادوار میں استعمال ہونے والے تانبے اور چاندی کے سکے، غیر معمولی کانسی کے سکوں کے علاوہ سکندر اعظم، کشان، گپتا اور ہندو شاہی کے ادوار میں استعمال ہونے والے سکے بھی رکھے گئے ہیں۔
میوزیم میں 1988 میں نصب کی جانے والی پاکستان کی پہلی اے ٹی ایم مشین، کرنسی نوٹ چھاپنے والی سٹیٹ بینک کی پہلی پرنٹنگ مشین، سکے ڈھالنے کی مشین اور نوٹوں کی چھپائی کے لیے استعمال ہونے والی نِکل کی پلیٹیں بھی نمائش کے لیے موجود ہیں۔
اس میوزیم کی تاریخ اور تعمیر کے حوالے سے سٹیٹ بینک مالیاتی میوزیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر تنویر افضل کہتے ہیں کہ میوزیم جس عمارت میں واقع ہے اسے 1920 کی دہائی میں برطانوی دور حکومت کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔
تنویر افضل بتاتے ہیں کہ میوزیم کی عمارت جودھ پوری ریڈ سینڈ سٹون سے تعمیر کی گئی تھی جبکہ عمارت کے دروازے اور کھڑکیاں برما ٹیک کی لکڑی سے بنائے گئے ہیں جو ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باجود بہتر حالت میں ہیں۔
’اس عمارت کا آرکیٹکٹ گریکو رومن ہے اور برطانوی دور میں اس طرز کی عمارتیں تعمیر کرنے کا رجحان تھا جبکہ ابتدا میں اس عمارت میں امپیریل بینک آف انڈیا قائم تھی۔‘
سٹیٹ بینک مالیاتی میوزیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر تنویر افضل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ قیام پاکستان کے بعد اس عمارت میں مختلف سرکاری دفاتر قائم کیے گئے اور بعد میں اس عمارت میں سٹیٹ بینک کی لائبریری قائم کر دی گئی تھی۔ تاہم 2004 میں فیصلہ کیا گیا کہ اس عمارت میں میوزیم بنایا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق میوزیم کی تعمیر کا کام 2007 میں شروع ہوا اور 2011 میں میوزیم کا افتتاح کر دیا گیا تھا۔
تنویر افضل کے مطابق عجائب گھر میں داخلے کے لیے کوئی ٹکٹ نہیں ہے اور روزانہ سیکڑوں لوگ خاص طور سکول کے بچے عجائب گھر دیکھنے آتے ہیں۔
اس مالیاتی عجائب گھر میں موجود دیگر اشیا کے ساتھ ساتھ سٹیٹ بینک کے کھاتے داروں کے لیے بنایا جانے والا پہلا کھاتہ رجسٹر، قائداعظم محمد علی جناح کے دستخط شدہ پہلا چیک اور اکاؤنٹ اوپننگ فارم بھی موجود ہے۔
سٹیٹ بینک کے سابق گورنروں کے نام سے منسوب ’گورنرز گیلری‘ میں سٹیٹ بینک کے 1948 سے اب تک رہنے والے گورنرز کی تصاویر، ان کا مکمل تعارف اور ان کی تصاویر آویزاں ہیں۔ یہ گیلری جس ہال میں بنی ہے وہ کمرہ پہلے گورنر زاہد حسین کے آفس کے طور پر استعمال ہوا تھا۔ اس لیے اس کمرے میں پہلے گورنر کے زیر استعمال میز، کرسی، ٹیلی فون، صوفے اور دیگر اشیا نمائش کے لیے رکھی ہوئی ہیں۔
عمارت کے اوپری منزل کی ایک گیلری کو ملک کے معروف مصور اور خطاط صادقین کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ صادقین گیلری میں ان کے وہ انتہائی چار نایاب فن پارے موجود ہیں، جن کو صادقین نے 1960 کی دہائی میں سٹیٹ بینک میں آویزاں کرنے کے لیے بنایا تھا۔
صادقین کے فن پاروں میں ان کا شہرہ آفاق ’ٹریژرز آف ٹائم‘ نامی 60 فٹ طویل اور آٹھ فٹ بلند فن پارہ (میورل) بھی موجود ہے، جس پر مختلف فلسفیوں، سائنس دانوں اور دیگر اہم شخصیات کی تصاویر ہیں۔
اس حوالے سے تنویر افضل کہتے ہیں کہ ’اتنے بڑے سائیز میں صادقین کے فن پارے پاکستان میں کہیں اور نہیں ہیں۔‘