تحریک پاکستان کے کارکن محمد اصغر مخدومی زمانہ طالب علمی میں ہی قیام پاکستان کی جدوجہد کا حصہ بن گئے تھے۔
انہیں بچپن سے ڈاک ٹکٹ، سکے اور کرنسی نوٹ جمع کرنے کا شوق تھا جس کی وجہ سے ان کے پاس پاکستان بننے سے پہلے اور قیام پاکستان سے لے کر ابتک جاری ہونے والے تقریباً تمام ڈاک ٹکٹ، سکے اور کرنسی نوٹ موجود ہیں ۔
اس وقت ان کی عمر 90 سال سے زائد ہو چکی ہے لیکن تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں کی باتیں انہیں اب بھی ایسے ہی یاد ہیں جیسے یہ کل کا واقعہ ہو۔
11 فروری 1932 کو امرتسر میں پیدا ہونے والے محمد اصغر مخدومی قیام پاکستان کے بعد اپنے گھر والوں کے ہمراہ لاہور آ گئے تھے اور 1959 سے فیصل آباد میں رہائش پذیر ہیں۔
انہیں زندگی میں پہلی مرتبہ قائد اعظم محمد علی جناح کو دیکھنے کا موقع 1942 میں اس وقت ملا جب وہ مسلم لیگ کو منظم کرنے کے لیے امرتسر کے دورے پر آئے تھے۔
’قائد اعظم امرتسر سے گزرے ہیں اپنے جلسے میں جانے کے لیے تو ہمیں ہیڈ ماسٹر نے کہا کہ ہمارا پہلا مسلمان لیڈر آ رہا ہے اس کو ویلکم کرنا ہے۔ ہم نے 1942 میں انہیں ویلکم کیا تھا۔‘
بعد ازاں وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا حصہ بن گئے اور 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کر دیا۔
اصغر مخدومی کے مطابق پاکستان بننے کی خبر انہیں اپنے والد کی زبانی پتہ چلی تھی لیکن اس وقت حالات اتنے خراب تھے کہ وہ قیام پاکستان کی جدوجہد کامیاب ہونے کی خوشی بھی نہ منا سکے۔
’پاکستان بننے کا جب اعلان ہوا تھا تو اس وقت امرتسر پاکستان میں ہی تھا مگر جب ریڈکلف ایوارڈ ہوا ہے تو اس میں استادی کی گئی۔ جب یہ حالات ہوئے ہیں تو والد صاحب نے کہا کہ ہم تو ادھر ہی رہیں گے تم ایسے کرو کہ تایا رہتے ہیں لاہور میں تم سب وہاں چلے جاو ابھی حالات کا پتہ نہیں ہے کیا ہوں۔‘
اصغر مخدومی کے مطابق 14 اگست کو جو ٹرین امرتسر سے لاہور گئی اس میں سوار تمام مسافر راستے میں ہی قتل کر دیے گئے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں چشم دید گواہ ہوں اس لیے کہ 15 اگست کو جو ٹرین امرتسر سے باہر آئی اس میں ہم نے لاشیں دیکھییں۔ ہماری گاڑی پر فائرنگ کی گئی سکھوں کے جتھے نے، جب فائرنگ ہوئی ہمارے ساتھ اس وقت پہلا یونٹ تھا فوج کا، جب انہوں نے فائرنگ کی ہے تو حملہ آور زخمی ہو گئے اور بھاگ گئے۔ اس لیے 15 اگست کو لاہور ہماری ٹرین صحیح حالت میں آئی ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ان مصائب سے گزرنے کے باوجود مسلمان خوش تھے کہ قائد اعظم نے جو کہا تھا وہ کر دکھایا ہے اور انہیں اپنا ملک مل گیا ہے لیکن انہیں اس بات کا افسوس بھی ہے کہ تقسیم کے باعث کئی صدیوں سے اکٹھے رہنے والے ہندو ، سکھ اور مسلمان ایک دوسرے کے دشمن بن گئے تھے۔‘
’ہم پہلے اکٹھے ہی رہتے تھے مگر جب پاکستان بننے کا اعلان ہوا ہے تو وہی ہندو اور سکھ جو ہمارے ساتھ رہتے تھے انہوں نے ہمارا گھر جلا دیا تھا 17 یا 18 اگست 1947 کو اور ہمارے والد صاحب کیمپ میں چلے گئے تھے۔‘
اصغر مخدومی کے مطابق پاکستان آنے کے بعد وہ مسلم ماڈرن ہائی سکول لاہور میں داخل ہو گئے تھے جہاں طلبہ کو بطور سیکنڈ ڈیفنس لائن فوجی تربیت بھی دی جاتی تھی۔
’چھ ماہ ہوئے تھے پاکستان بنے ہوئے کہ جو فوجی ہمیں ٹریننگ دیتا تھا اس نے20 اپریل کو کہا کہ 21 اپریل کو علامہ اقبال کی پہلی برسی آ رہی ہے پاکستان بننے کے بعد کیوں نہ ہم انہیں سلامی دیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’اس دن جب سکول کے تمام طلبہ کندھوں پر بندوقیں اٹھائے سکول سے نکلے ہیں اور داتا دربار کے سامنے سے گزرے ہیں تو لاہور کے لوگ پریشان ہو کر اکٹھے ہو گئے تھے کہ کہیں جنگ تو نہیں چھڑ گئی ہے۔‘
’ہم علامہ اقبال کے مزار پر گئے ہیں تو وہاں تالہ لگا ہوا تھا اور صرف ایک چوکیدار تھا۔ جب چوکیدار نے دروازہ کھولا ہے تو ہم نے پہلی سلامی دی علامہ اقبال کو جہاں سے پھر حکومت کو خیال آیا۔‘
اصغر مخدومی کے مطابق 1949 میں جب فوج نے بی آر بی نہر کو تھرڈ ڈیفنس لائن بنانے کا منصوبہ بنایا تواس میں ان کے دیال سنگھ کالج اور اسلامیہ کالج کے لڑکوں نے رضاکارانہ طور پر کام کیا تھا۔
’جب کدالیں مارتے تھے اور مٹی اٹھاتے تھے نہر گہری کرنے کے لیے، تو جذبہ پیدا کرنے کے لیے نعرہ لگاتے تھے بلے بھئی بلے، دھیلہ نئیں پلے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’بلے بھئی بلے کا مطلب تھا کہ اتنا بڑا پراجیکٹ ہم بنا رہے ہیں اور دھیلہ نئیں پلے کا مطلب تھا کہ ہمارے خزانے میں ایک ٹیڈی پیسہ نہیں ہے لیکن یہ کروڑوں روپے کا پراجیکٹ ہم مفت بنا رہے ہیں۔‘
ایک دہائی تک لاہور میں رہنے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہیں امپیریل بینک آف انڈیا کے شعبہ فارن ایکسچینج میں ملازمت مل گئی اور 1959 میں وہ اپنے بیوی بچوں سمیت مستقل طور پر فیصل آباد آ گئے۔
اس دوران یکم ستمبر 1977 کو جب لائلپور کا نام تبدیل کر کے فیصل آباد رکھا گیا تو انہیں یہاں قیام پذیر ہوئے 18 سال بیت چکے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ شہر کے نام کی تبدیلی کو مقامی لوگوں کی اکثریت نے خوشدلی سے قبول کیا تھااور یہ ان کا مطالبہ تھا کہ ’شاہ فیصل نے زیادہ کام کیا ہے مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے لہذا لائل پور کا نام تبدیل کرکے فیصل آباد کر دیا جائے۔ ہمیں کسی نے نہیں کہا کہ ٹھیک ہے پہلا نام تو ہونا چاہیے اس کا مگر شاہ فیصل ہمیں اس سے زیادہ عزیز ہے ۔ لہذا پہلے رکھا تھا شاہ فیصل آباد لیکن پھر فیصل آباد نام رکھا گیا اس کا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ فیصل آباد کا نام اچھا ہے اور یہاں کے لوگوں کو پسند بھی ہے اس لیے وہ اسے تبدیل کرکے دوبارہ لائل پور کرنے کے حامی نہیں ہیں۔
’ذہنی طور پر زیادہ تر مذہبی قسم کے لوگ ہیں ہمارے یہاں پر، اگرچہ اس نام کو یاد کرتے ہیں، ہمارا میوزیم جو ہے لائلپور میوزیم کے نام سے ہے۔ نام لائلپور رکھتے ہیں مگر شہر کا نام ہم تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔‘
’اس لیے کہ اس نے جو صلہ ہمیں دیا ہے شاہ فیصل نے، اس کو بھولنا نہیں چاہتے ہم، تاکہ ہماری اگلی نسلیں بھی انہیں یاد رکھیں۔‘