عمران ہاشمی سے ہمارا پہلا تعارف سپر ہٹ گانے ’وہ لمحے‘ سے ہوا۔ ’زہر‘ (2005) فلم کا یہ گیت اپنی کمپوزیشن اور عاطف اسلم کی آواز سے زیادہ اپنی عکس بندی سے مشہور ہوا۔
یہیں سے عمران ہاشمی ایک مخصوص رومانوی کردار میں بریکٹ ہو گیا جسے ’عاشق بنایا،‘ ’آوارہ پن‘ اور ’جنت‘ جیسی فلموں نے مزید پختہ کیا۔ ہمارے لیے یہ تفریح تھی لیکن عمران ہاشمی کے لیے ایک ایسی قید تھی جس سے انہیں نکلنے میں 15 برس لگ گئے۔
بالی وڈ میں کسی نووارد کی فلم کامیاب ہو گئی تو سمجھیں فارمولا تیار ہے۔ اسی طرح کی فلموں کا سیلاب آ جاتا ہے، خصوصاً اگر اداکار اچانک کلک کر گیا ہو۔
راجیش کھنہ کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے 1969 سے 1972 تک لگاتار 15 ہٹ فلمیں دیں۔ ان میں ’آنند‘ اور ’امر پریم‘ کو چھوڑ کر باقی سب ایک جیسی ہیں۔ یہاں تک کہ اداکار کو منت ترلے سے مختلف قسم کے کردار لینا پڑتے ہیں یا لوگ اکتانے لگتے ہیں۔ پھر وہی ہوتا ہے جو راجیش کھنہ کے ساتھ ہوا۔
عمران ہاشمی نے کوئی لمبی چوڑی جدوجہد نہیں کی۔ بس سمجھیے آتے ہی چھا گئے۔ ان کی جد و جہد اس کے بعد شروع ہوئی۔ انہیں مخصوص رومانوی کرداروں کی چھاپ سے آزاد ہونا تھا۔ وہ ایک ہی طرح کے کردار نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اپنے ایک انٹرویو میں وہ کہتے ہیں، ’بہت سارے لوگوں کے نزدیک بالی وڈ ایک بری یا غیر منصفانہ جگہ ہے، یہ محض ایک نقطہ نظر ہے۔ اگر آپ لڑ سکتے ہیں، آپ ضدی اور اَن تھک ہیں، سختیاں برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو یہ انڈسٹری آپ کے لیے گنجائش پیدا کرتی ہے۔‘
عمران ہاشمی کے لیے انڈسٹری نے ’ونس اپان اے ٹائم ان ممبئی‘ (2010) کی شکل میں مختلف کردار ادا کرنے کی گنجائش پیدا کی۔ بمبئی مافیا پر مبنی اس فلم میں اجے نے حاجی مستان اور عمران ہاشمی نے داؤد ابرہیم کا کردار نبھایا۔ فلم کامیاب ہوئی اور یہاں سے ایک نئے عمران ہاشمی نے جنم لیا۔ 2023 میں ریلیز ہونے والی ’سیلفی‘ اور ’ٹائیگر تھری‘ اسی طرح کی فلموں کا تسلسل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آج کل وہ ٹی وی سیریز ’شو ٹائم‘ کی پرموشن کر رہے ہیں جس میں بالی وڈ کی زندگی سکرین پر پیش کی جائے گی۔ فلم کیسے بنتی ہے، اس انڈسٹری میں عورت ہونا کیا ہے، فلم بنتے وقت پروڈیوسر کے دفتر میں کیا گفتگو ہوتی ہے، سیٹ کیسے لگتے ہیں؟ فلم ریلیز ہونے سے ایک رات قبل کیا پروڈیوسر، ہدایت کار اور اداکاروں کو نیند آتی ہے؟ جمعے کی صبح کیسے ہوتی جب فلم لگنے میں محض چند گھنٹے باقی ہوتے ہیں؟ اس سیریز میں یہ سب پیش کیا جائے گا۔
یہ شو ڈزنی اور ہاٹ سٹار پر آٹھ مارچ سے نشر ہو گا۔ اسے کرن جوہر کی دھرمیٹک انٹرٹینمنٹ نے پروڈیوس کیا ہے۔
فلموں میں مختلف کردار نبھانے سے عمران ہاشمی کی سینما، بالی وڈ انڈسٹری اور زندگی کے بارے میں رائے بھی تبدیل ہوئی ہے۔
وہ کہتے ہیں، ’پہلے ولن کے بارے میں میرا خیال تھا کہ یہ انتہائی مکروہ شخص ہوتا ہے جس کی زندگی میں کچھ بھی قابل تحسین نہیں ہوتا۔ لیکن ’ٹائیگر 3‘ کرنے کے بعد میں اب مختلف سوچتا ہوں۔ مجھے پتہ چلا کہ اینٹی ہیرو کا کردار کیا ہوتا ہے۔ ’ٹائیگر 3‘ میں میرا کردار محض برا نہیں ہے، وہ اپنی کہانی کا ہیرو ہے۔ میں کسی فلم میں ایک ہی طرح کے سطحی ولن کا کردار ادا نہیں کرنا چاہوں گا۔ میں فلم سازوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ولن کے کردار کو تہہ در تہہ تیار کیا۔‘
’شو ٹائم‘ میں بھی انہوں نے ولن کا کردار ادا کیا ہے۔ اب انہیں خدشہ ہے کہ ایسا نہ ہو ولن کا کردار ہی ادا کرتا رہ جاؤں۔
وہ کہتے ہیں ’میں ولن کے کردار میں پھنس کر نہیں رہ جانا چاہتا۔ میں نے چند اینٹی ہیرو کردار کیے ہیں۔ اب میں آگے بڑھ کر مزید تجربہ کرنا چاہتا ہوں۔ اب لوگ فلموں میں بڑے تجربات پسند کر رہے ہیں۔ اس لیے یہ دلچسپ وقت ہے کہ تجربات کیے جائیں۔‘
وہ سمجھتے ہیں پہلے لوگ سینیما آنے سے قبل اپنے پسندیدہ فنکار کے بارے میں مخصوص تاثر لے کر آتے تھے۔ ’میرے ساتھ بھی ایسا تھا۔ مجھے اس حقیقت سے نفرت ہے کہ تقریباً 15 برس تک مخصوص قسم کے کرداروں کی بھٹی میں جھونکا گیا۔ میں نے اس سے باہر نکلنے اور کچھ مختلف کرنے کی شعوری کوشش کی کیونکہ بطور اداکار میرا سفر آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔
’تب میں نے ’شنگھائی‘ اور ’ونس اپان اے ٹائم ان ممبئی‘ جیسی فلمیں شروع کیں۔ یہ دراصل ایک بہت بڑا جال ہے۔ مغرب کے بہت سارے اداکار بھی شاید 'بانڈ‘ جیسے کردار کرنے سے اکتا جاتے ہوں۔ یہ آپ کے کیریئر کے لیے نقصان دہ ہے۔‘
عمران ہاشمی آج کل ساؤتھ انڈین فلم ’او جی‘ میں کام کر رہے ہیں جو رواں برس ستمبر میں سینیما گھروں کی زینت بنے گی۔ یہ ان کا ساؤتھ انڈین فلموں میں ڈیبیو ہے جسے وہ غیر معمولی کامیابی سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’بطور اداکار میں نے جتنے سنگ میل طے کیے ان میں یہ سب سے بڑا ہے۔ میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایک ساؤتھ انڈین فلم میں کام کرنے کا موقع ملے گا۔لیکن یہ ایک لاجواب سکرپٹ اور ایک بہترین کردار تھا۔ سجیت ایک بہترین ہدایت کار ہیں جو اس فلم کو بہت بڑے کینوس پر بنا رہے ہیں۔‘
انہیں لگتا ہے کہ ساؤتھ والے بالی وڈ سے کہیں آگے ہیں جن سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ ’میرے خیال میں ساؤتھ کے فلمساز ہم سے کہیں زیادہ نظم و ضبط کے حامل ہیں۔ ایک ایک پیسہ جو وہ اپنی فلم پر خرچ کرتے ہیں اس کا سکرین پر پتہ چلتا ہے۔ ہم ہندی فلموں میں اکثر غلط جگہوں پر پیسہ لگا دیتے ہیں جس کا سکرین پر کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
’جہاں تک سپیشل ایفیکٹس کی بات ہے تو یہ ان کی فلموں کی منفرد کہانیوں کا اثر بڑھانے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ ہمیں ان سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔