آپ کی عمر بمشکل 21 برس ہو اور پہلے ہی انٹرویو میں سننا پڑے: ’آپ ساری زندگی یہ کام نہیں کر سکتے، نکلو اور کوئی دوسرا راستہ پکڑو،‘ تو آپ کیا کریں گے؟
مشہور ولن ’موگیبمو خوش ہوا،‘ ’جا سمرن جی لے اپنی زندگی،‘ اور ایسے ہی کئی مکالموں کو لافانی شہرت عطا کرنے والے امریش پوری کے ساتھ بالکل ایسا ہی ہوا تھا۔ ان کو شہرت بطور ولن ملی لیکن وہ زندگی کی جنگ میں ہیرو کی طرح لڑے اور کامیابی سمیٹی۔
ان کی ہمت اور لگن کی ایک جھلک 22 جون 2019 کو گوگل ڈوڈل کے خراج تحسین پیش سے ملتی ہے، جس کے ساتھ عبارت میں لکھا تھا، ’اگر پہلے آپ کامیاب نہیں ہوئے تو کوشش کریں، دوبارہ کوشش کریں، آپ کا انجام ہندوستانی فلمی اداکار امریش پوری کی طرح ہو سکتا ہے۔‘
1953 میں پہلا سکرین ٹیسٹ دینے کے بعد فلمساز دیویندر گوئل نے ان کے چہرے اور آواز کی وجہ سے انہیں مسترد کر دیا تھا۔ گوئل کے خیال میں نوجوان کی آواز ’کرخت‘ اور چہرہ ’تاثرات سے خالی‘ ہے۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں امریش پوری کو مشورہ دیا: ’کوئی اور کام ڈھونڈ لو، فلموں میں وقت ضائع مت کرو۔‘
بمبئی کے مختلف سٹوڈیوز میں جوتے چٹخانے کے بعد امریش پوری نے ایمپلائز سٹیٹ انشورنس کارپوریشن میں ملازمت کر لی۔ اس کے ساتھ انہوں نے آل انڈیا ریڈیو بھی جوائن کر لیا۔
آل انڈیا ریڈیو کے ڈرامے اور دیگر پروگرام بس مفت میں چل رہا تھا۔ جو تھوڑے بہت پیسے ملتے، وہیں چائے سگریٹ میں خرچ ہو جاتے، لیکن ان دنوں کا حاصل لب و لہجے کی تراش خراش اور اداکاری کی تربیت تھی، جو ساری زندگی ان کے کام آئی۔
1962 میں انہوں نے ابراہیم القاضی کی ڈراما اکیڈمی میں داخلہ لے لیا۔ القاضی کا نام انڈیا میں تھیٹر کے چوٹی کے اساتذہ میں آتا ہے۔ القاضی صاحب کی عظمت کا اندازہ کرنا ہو تو ان کے بہترین شاگردوں میں سے ایک نصیرالدین شاہ کا کوئی بھی انٹرویو سن لیجیے۔
ایک انٹرویو میں امریش پوری بتاتے ہیں: ’تب مجھے لگا کہ اگر میں فلموں میں اداکاری نہیں کر سکتا تو کیا ہوا، تھیٹر تو ہے نا، شوقِ اداکاری ہے، اگر تھیٹر کے ذریعے پورا ہو تب بھی میں خوش ہوں۔‘
القاضی نے انہیں آرتھر ملر کے مشہور ڈرامے ’اے ویو فرام دی برج‘ میں مرکزی کردار دیا۔ 1956 کی فلم ’بھائی بھائی‘ میں ایک انتہائی مختصر کردار ادا کرنے والے امریش پوری کو 14 برس بعد 1970 میں دوبارہ کسی فلم میں کام کرنے کا موقع ملا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ فلم تھی دیو آنند کی ’پریم پُجاری۔‘ تھیٹر میں نام بنانے کے بعد یہ ان کی دوسری اننگز تھی۔ اس کا آغاز سنگل ڈبل سے ہوا۔ انہیں اپنی بھرپور کارکردگی دکھانے کے لیے ابھی مزید کئی برس سنگھرش کاٹنا تھا۔
70 کی دہائی میں انہوں نے 30 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ اگرچہ یہ سب معمولی کردار تھے لیکن اپنی بڑی بڑی آنکھوں اور منفرد آواز کے ذریعے انہوں نے اپنی جگہ بنا لی۔ وہ بالعموم ولن کے دوستوں میں شامل ہوتے یا گاؤں کے کسی زمیندار کے روپ میں۔
اپنی پہلی فلم کی تین دہائیوں بعد امریش پوری کو وہ کردار ملا، جس نے انہیں انڈین سینیما کی تاریخ کے ایک خوفناک اور کامیاب ترین ولن کے روپ میں امر کر دیا۔ یہ 1987 میں ریلیز ہونے والی شیکھر کپور کی فلم ’مسٹر انڈیا‘ تھی۔
شعلے کے گبر سنگھ کے بعد، جس انڈین ولن کا نام سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے وہ موگیمبو کے سوا کوئی اور نہیں۔ دونوں کے خالق سلیم جاوید تھے۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ’موگیمبو‘ کے کردار کے لیے پہلا انتخاب نہیں تھے۔ امریش پوری کے بقول جب ان سے رابطہ کیا گیا تو تب فلم کی 60 فیصد شوٹنگ ہو چکی تھی۔ مجھے اچھا نہیں لگا۔ میں نے سوچا ’انہیں اب جا کر میری یاد آئی؟‘
’موگیمبو‘ کے کردار کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ انہیں ہدایت کار شیکھر کپور نے پوری آزادی دی کہ جس طرح بہتر لگے ویسے اس کردار کو تراشو۔ یہ کردار ایک حملہ آور کا تھا جو ہٹلر کی طرح بےرحم ہوتا ہے۔ ہم نے سوچا اس کی شناخت مبہم رکھی جائے، اس لیے موگیمبو کا نام چنا، جس سے قوم قبیلہ واضح نہیں ہوتا۔
امریش پوری کے بچے کہتے ہیں کہ جب ہمارے دوست گھر آتے تھے تو والد کو دیکھ کر ڈر جاتے تھے۔ انہیں قائل کرنے میں وقت لگتا تھا کہ عام زندگی میں وہ رحمدل اور نفیس انسان ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’راج کپور سٹوڈیو میں بڑا سا سیٹ لگا تھا۔ میں نے پندرہ بیس دن سورج نہ دیکھا کیوں کہ موگیمبو اپنی پناہ گاہ کے اندر ہی رہتا اور وہیں مرتا ہے۔‘
انوپم کھیر اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں: ’مسٹر انڈیا میں امریش پوری سے پہلے موگیمبو کا کردار مجھے دیا گیا تھا، لیکن دو تین ماہ بعد فلمسازوں نے مجھے نکال دیا۔ فلم میں شامل کرنے کے بعد کسی اداکار کو نکال دیا جائے تو بالعموم وہ برا محسوس کرتا ہے لیکن جب میں نے مسٹر انڈیا میں امریش پوری کو بطور موگیمبو دیکھا تو مجھے لگا کہ فلم بنانے والوں نے زبردست فیصلہ کیا تھا۔‘
اپنے کیریئر میں 450 سے زیادہ فلمیں کرنے والے امریش پوری نے ہندی، پنجابی، ملیالم، تامل، تیلگو اور کنڑ کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی کام کیا۔
انہیں اس وقت عالمی شہرت ملی جب 1984 میں انہوں نے ہالی وڈ کے مشہور ہدایت کار سٹیون سپیلبرگ کی فلم ’انڈیانا جونز اینڈ دی ٹیمپل آف ڈوم‘ میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ سپیلبرگ ان کے کام سے بہت متاثر ہوئے۔
ایک عظیم ہیرو کا تصور ایک ولن کے بغیر نامکمل ہوتا ہے۔ بعض اوقات ہم ولن کا کردار اس کی اصل زندگی کی عکاسی سمجھنے لگتے ہیں۔ امریش پوری کے بچوں کے مطابق جب ان کے دوست ان کے گھر آتے تو وہ امریش کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے۔ انہیں قائل کرنے میں وقت لگا کہ عام زندگی میں وہ رحمدل اور نفیس انسان ہیں۔
حقیقی زندگی میں ایک نفیس انسان، فلموں کا ایک گھناؤنا ولن اور کسی ہیرو کی طرح زندگی کی جنگ میں لڑتا اَن تھک جنگجو امریش پوری، جن کی زندگی ایک فلم کی طرح اونچ نیچ سے بھری پڑی ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔