آپ 10 سیکنڈ میں قدیم دنیا سے تعلق رکھنے والے کتنے لوگوں کا نام لے سکتے ہیں؟ شاید جولیس سیزر؟ سکندر اعظم، شہنشاہ کلاڈیوس، شاید نیرو؟ ہومر، افلاطون، پیریکلیس یا سیسرو؟ اضافی پوائنٹس اگر آپ نے قلوپطرہ اور بوڈیکا کے نام لیے۔ ان کے علاوہ کسی اور عورت کا نام؟
میں نے کئی سالوں سے قدیم تاریخ کا مطالعہ کیا ہے لیکن کچھ عرصہ پہلے تک میں بھی کسی دوسرے شخص کی طرح اوپر دی گئی فہرست سے تیزی سے گزر جاتی۔ درحقیقت خواتین کے ذریعے لکھی جانے والی قدیم دنیا کی پہلی تاریخ کی اپنی تازہ ترین کتاب پر تحقیق کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ قدیم زمانے کی کتنی کم خواتین کے نام لوگوں کی زبانوں پر آتے ہیں۔
مزید دس سیکنڈ دیے جانے پر میں نے لیزبوس کی عظیم شاعرہ سیفو کو شامل کیا ہوتا اور رابرٹ گریوز کے ناول ’آئی کلاڈیس‘ کے کسی بھی پرستار کی طرح لیویا، وسپانا اور اگرپینا کو بھی۔ پھر ٹرائے کی ہیلن، کلیٹیمنیسٹرا، پانڈورا اور پنیلوپی کا نام لینے کی خواہش ہو گی، لیکن یہ دھوکہ دہی ہو گی، کیونکہ یہ نام اساطیری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جدید ناول نگاروں اور ہدایت کاروں کی توجہ کے سبب افسانوی خواتین کی کہانیاں بار بار بیان کی جاتی ہیں اور ان کا نام زندہ رکھا جا رہا ہے، لیکن قدیم دنیا کی زیادہ تر اصل خواتین اب تک گوشۂ گمنامی میں پڑی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں نے اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور مزید تاریخی خواتین کو گھریلو نام بنانا چاہتی ہوں، جس کا آغاز میں قدیم دور سے کروں گی۔
قدیم دنیا اب بھی سکندر اور سیزر کی مترادف کیوں ہے، لیکن سکندر کی ماں ملکہ اولمپیاس اور ملکہ اور بحری کمانڈر آرٹیمیشیا کی کیوں نہیں، جنہوں نے جنگیں لڑیں، عسکری مشورے دیے اور ہر طرح سے اپنے اردگرد پائے جانے والے ’عظیم آدمیوں‘ کی طرح غیر معمولی تھیں؟
جب ہم قدیم دنیا کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ہم اس کے بہت سے غیر معمولی شہریوں کی قیمت پر وہی گنے چنے چہروں کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ آج لیکچر روم سے باہر کس نے ٹیلیسیلا کے بارے میں سنا ہے، جو یونان کے آرگوس کی ایک شاعرہ تھی، جس نے اپنے شہر کا دفاع کیا؟
یا سنیکا کی، جو تقریباً 50 سال کی عمر میں (مرد) اولمپک کھیلوں میں پہلی خاتون فاتح بنیں؟ یا رومن عدالت میں زہر پھیلانے والے لوکستا، جس پر نیرو اپنے زہروں کے بےمثال علم کے لیے انحصار کرتا تھا؟
جب ہم تھرماپلی کی جنگ کی بات کرتے ہیں، جو زیک سنائیڈر کی باکس آفس ہٹ فلم ’300‘ کا موضوع ہے، تو گورگو کا نام لیونڈاس کے نام کے ساتھ ایک ہی سانس میں لیا جانا چاہیے۔ جب کہ مؤخر الذکر نے اپنے 300 سپارٹن فوجیوں کے ایک ہراول دستے کو ایرانی شہنشاہ خشایارخشا کی ایرانی فوج کے خلاف قیادت کر کے شہرت حاصل کی، اس کی بیوی گورگو نے ایک پیغام کو بوجھ لیا جس نے انہیں سر پر منڈلانے والے ایرانی حملے سے خبردار کیا۔
ہمیں گورگو کو آج ایک ابتدائی کوڈ بریکر کے طور پر یاد رکھنا چاہیے، نہ کہ صرف لیونڈاس کی بیوہ کے طور پر۔
ہم قدیم زمانے کے مردوں کو ایسی خواتین کی کامیابیوں کو کم کرنے کا الزام دے سکتے ہیں۔ بہت سے تاریخی بیانات خواتین کو مکمل طور پر داستان سے خارج کر دیتے ہیں، یا پھر ان کی بہادری اور سیاسی سوجھ بوجھ کی بجائے ان کی جرات، بدنامی یا بدتمیزی کو اجاگر کرتے ہیں۔
جدید مورخین نے بھی ان تاریخوں کو برقرار رکھنے اور انہیں روایت کا حصہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ ہمارے وقت کی ایک بڑی ناکامی ہے کہ جب ہم جدید معاشرے میں خواتین کی حمایت کرنے کی کوشش کرتے ہیں (جس کے نتائج ملے جلے نکلے ہیں)، ماضی کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر بنیادی طور پر مردوں کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم تاریخ کی خواتین کو گمنامی سے نکالیں اور ان پر گہرائی سے غور کریں، اور اس کام کے آغاز کے لیے قدیم دنیا بہترین جگہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس موسم گرما میں آپ کے کھانے کے کمرے سے گورگو، ٹیلیسیلا، کارنیلیا اور کلوڈیا کے نام گونجیں۔
سیزر، سکندر اور ہنی بال کو اب تھوڑا آرام کرنا چاہیے۔
ڈیزی ڈن کلاسیکی دور کی ایوارڈ یافتہ مصنفہ ہیں اور انہوں نے سات کتابیں لکھ رکھی ہیں۔ ان کی تازہ ترین کتاب ’دی مسنگ تھریڈ‘ (The Missing Thread: A New History of the Ancient World Through the Women Who Shaped It) ویڈن فیلڈ اور نکولسن نے شائع کی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent