عام سپاہی، جن کا تاریخ میں ذکر نہیں ہوتا

تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ عام فوجی جو جنگ کے اصل ہیرو ہوتے ہیں یا شکست کی صورت میں قیدی اور غلام بنا لیے جاتے ہیں، ان کے کردار کو تاریخ کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔

روسی مصور واسیلی ویریسشاگن کی 1871 میں بنائی گئی تصویر میں جنگ کا منظر (پبلک ڈومین)

تاریخ میں جنگیں ہوتی رہی ہیں لیکن ان میں عام فوجی اپنی جانوں کی قربانی دے کر حکمراں طبقے کو فتوحات اور مال غنیمت سے مالا مال کرتے تھے۔

تاریخ میں حکمراں اپنی سلطنت کو وسعت دینے کی خاطر مسلسل جنگوں میں مصروف رہتے تھے۔ فوج میں افسروں کے ساتھ ساتھ عام فوجیوں کی بھی بڑی تعداد میں ضرورت ہوتی تھی۔ جن کو کبھی مذہب، کبھی وطن اور کبھی بادشاہ کی وفاداری کے نام پر جنگ میں لڑایا جاتا تھا۔ مورخ تاریخ میں بادشاہوں اور جنرلوں کو فاتح قرار دیتے تھے اور عام فوجیوں کی قربانی کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

قدیم یونان اور روم میں جنگ اشرافیہ کا پیشہ تھا۔ خاص طور سے یونان میں ہر شہری کے لیے جنگ میں حصہ لینا لازمی تھا۔ شہریت کے علاوہ یہ بھی لازم تھا کہ وہ صاحب جائیداد ہو تاکہ وہ اپنے وطن اور جائیداد کا تحفظ کرے۔ نچلے طبقے کے لوگوں کو صفائی اور فوجی خدمات کے کام دیتے ہوتے تھے۔

چونکہ یونان زرعی ملک نہیں تھا اس لیے کسانوں کی تعداد کم تھی اور یہ بڑی تعداد میں فوجی اکٹھے نہیں کر سکتے تھے۔ جب یہ یونان کے باہر جنگ کے لیے جاتے تھے تو سالوں فوجیوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملتی تھی۔

رومی سلطنت میں جیسے جیسے فتوحات ہوئیں تو فوج کا کردار بھی بدلتا گیا۔ رومن رپبلک کے زمانے میں صرف رومن شہری فوج میں ہوتے تھے، لیکن جب فتوحات کا سلسلہ بڑھا تو مفتوحہ اقوام کو بھی فوج میں شامل کر لیا گیا۔

رومی فوجیوں کے لیے سخت تربیت اور انتظامات ہوتے تھے۔ فوجی کو 25 سال تک ملازم رکھا جاتا تھا۔ اس کی ماہانہ تنخواہ مقرر تھی، جس میں سے کیمپ کے اخراجات کاٹ لیے جاتے تھے۔

سروس کے دوران سپاہی کو شادی کی اجازت نہیں تھی۔ ریٹائرمنٹ پر اسے بونس کے علاوہ زرعی زمینیں بھی دی جاتی تھی۔ فوجی سول سوسائٹی سے دور رہتے تھے۔ جب جنگ نہیں ہوتی تھی تو ان سے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کا کام لیا جاتا تھا۔ ریٹائرڈ فوجیوں کی زمین کی آمدنی کی وجہ سے زندگی خوشحالی میں گزرتی تھی، لیکن جب رومی سلطنت کو زوال ہوا تو اس کے نتیجے میں فوج طاقتور ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ شہنشاہ کے امیدوار فوج کو رشوت دے کر اس کی مدد حاصل کرتے تھے اور سینٹ بھی اس کی منظوری دے دیتی تھی۔ جب فوج کا اقتدار بڑھا تو سلطنت کے دوسرے ادارے کمزور ہوتے چلے گئے اور یہی وجہ تھی کہ رومی سلطنت کا زوال ہوا۔

جب رومی سلطنت کا خاتمہ ہوا تو چھوٹی چھوٹی سلطنتیں وجود میں آئیں۔ ان کے حکمراں جب جنگیں کرتے تھے تو کسانوں کو زبردستی فوج میں شامل کر کے ان کو اپنے مفادات کی خاطر قربان کر دیتے تھے۔

ہندوستان میں سپاہیوں کے کیا حالات تھے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیونکہ جب بھی کوئی بغاوت ہوتی تھی یا بادشاہ کسی علاقے پر حملہ کرتا تھا تو اس کو بڑی تعداد میں فوجی مل جاتے تھے۔ جن کی تنخواہ تو مقرر کی جاتی تھی مگر سالوں اس کی ادائیگی نہیں ہوتی تھی۔ جو فوجی جنگ میں مارے جاتے تھے ان کی لاشیں بے گور و کفن میدان جنگ میں پڑی رہتی تھیں۔

ایک شخص نے اپنے مشاہدے میں لکھا ہے کہ جب جنگ کے بعد وہ میدان جنگ میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ کتے اور گدھے لاشوں کو کھا رہے ہیں۔ کبھی جنگ کے بعد دونوں جانب سے لوگ اپنے فوجیوں کو وہیں دفن کر دیتے تھے۔ مرنے والے فوجی خاندان کے لیے کوئی مالی امداد نہیں ہوتی تھی۔ زخمی ہونے والے فوجی معذوری کی حالت میں باقی زندگی گزار دیتے تھے۔

فوجی کیمپ میں زخمیوں کی دیکھ بھال کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا۔ ذات پات کی وجہ سے ہر فوجی اپنا کھانا خود پکاتا تھا۔ زخمی ہونے کی صورت میں اسے کھانے کا مسئلہ ہوتا تھا۔

جنگ کے بعد جب اشوک نے میدان جنگ کو دیکھا تو اسے سخت صدمہ ہوا کہ اس جنگ کی وجہ سے کتنی عورتیں بیوہ ہو گئیں اور کتنے بچے یتیم ہو گئے۔ اس منظر سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے کبھی جنگ نہیں کی اور بدھ مذہب اختیار کر کے امن کی تبلیغ کی۔

ہندوستان میں چونکہ آبادی بہت ہوتی تھی، بےروزگاری عام تھی، اس لیے اپنی روزی کی خاطر یہ نادار لوگ اپنی جانیں دے دیتے تھے۔ اس کا صلہ اشرافیہ کو ملتا تھا اور یہ خود تاریخ میں گم ہو جاتے تھے۔

جب شہزادہ خسرو نے جہانگیر کے خلاف بغاوت کی تو غریب اور بےروزگار لوگ جوق دَر جوق اس کی فوج میں شامل ہوتے چلے گئے۔ جہانگیر نے بغاوت کے خاتمے کے بعد لاہور کے ٹیکسالی گیٹ کے باہر ان غریب فوجیوں کو پھانسیاں دیں۔

آخری مغل عہد میں ہندوستان کی دولت کو لوٹنے کے لیے حملہ آور آتے رہے خاص طور سے احمد شاہ ابدالی جس کا مقابلہ مغل فوج سے 1748 میں مانی پور میں ہوا۔

اس میں مغل فوج کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی جس میں عام فوجی شامل تھے۔ انہی لوگوں نے توپوں کو گھسیٹ کر محاذ پر پہنچایا، بھوکے پیاسے رہ کر جنگ میں حصہ لیا جس کی وجہ سے احمد شاہ ابدالی کو شکست ہوئی اور اس نے راہ فرار اختیار کی۔

تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ عام فوجی جو جنگ کے اصل ہیرو ہوتے ہیں یا شکست کی صورت میں قیدی اور غلام بنا لیے جاتے ہیں، ان کے کردار کو تاریخ کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔

یہ وہ ادھوری تاریخ ہے جو اب تک لکھی جاتی رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ