فیض حمید کے بعد تین سابق افسران بھی تحویل میں: پاکستان فوج

آئی ایس پی آر کے مطابق بعض ریٹائرڈ افسران اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مذموم سیاسی مفادات کے اکسانے کے الزام میں مزید تحقیقات جاری ہیں۔

23 جون 2021 کو اس وقت کے انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید آئی ایس آئی ہیڈکواٹر اسلام آباد میں (پی آئی ڈی)

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے جمعرات کو کہا ہے کہ خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سرابرہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کے سلسلے میں مزید تین ریٹائرڈ فوجی افسران کو بھی فوج کی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ ’لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی ایف جی سی ایم (فیلڈ جنرل کورٹ مارشل) کارروائی سے منسلک تین مزید ریٹائرڈ افسران بھی فوجی نظم و ضبط کو نقصان پہنچانے والے اقدامات پر فوجی تحویل میں ہیں۔‘

مزید کہا گیا: ’بعض ریٹائرڈ افسران اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مذموم سیاسی مفادات کے اکسانے پر اور ملی بھگت سے عدم استحکام پیدا کرنے کے الزام میں مزید تحقیقات جاری ہیں۔‘

تاہم جن افسران کو تحویل میں لیا گیا ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔

’خود احتسابی قابل تعریف ہے‘

بعد ازاں وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اس پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک قومی ادارے نے خود احتسابی کو ترجیح دی اور اسی سلسلے میں تحقیقات کا آغاز کیا جو مثبت اقدام ہے۔

اسلام آباد میں جمعرات کی شام ایک پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے عطا تارڑ نے کہا: ’خود احتسابی کا یہ ایک ایسا قدم ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ہر ادارے میں خود احتسابی کا عمل ہونا چاہیے اور یہ بہت اچھی بات ہے کہ فوج نے یہ عمل شروع کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایس پی آر کے آج کے بیان سے ثابت ہوا کہ تینوں افسران کو لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید سے تفتیش کے نتیجے میں گرفتار کیا گیا ہے۔

عطا تارڑ نے اس معاملے میں بانی پی ٹی آئی پر انگلی اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ فیض حمید کے اقدامات میں عمران خان کی خواہش بھی شامل تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان جیل میں بیٹھ کر ان سب کی قیادت کر رہے تھے۔

وفاقی وزیر کے بقول: ’یہ تمام وہ لوگ ہیں جنہوں نے انتشاری ٹولے کے ساتھ ملک کو نقصان پہنچایا اور اس حوالے سے شواہد سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے جس سے توقع ہے کہ ابھی مزید گرفتاریاں عمل میں آئیں گی۔‘

اس سے قبل 12 اگست کو فوج نے ایک بیان میں تصدیق کی تھی کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے کر ان کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئی ایس پی آر کی طرف سے کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں کی گئی شکایات کی درستگی کا پتہ لگانے کے لیے ایک تفصیلی کورٹ آف انکوائری کا آغاز کیا گیا ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ فیض حمید کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے ہیں، تاہم اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ وہ خلاف ورزیاں کیا ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے آٹھ نومبر 2023 کو ’ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سکیم‘ کے مالک معز احمد خان کی دائر درخواست نمٹاتے ہوئے کہا تھا کہ ’سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور ان کے معاونین کے خلاف شکایات کے ازالے کے لیے وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورمز سے رجوع کیا جائے۔‘

نجی ہاؤسنگ سکیم کے مالک معیز احمد خان کی جانب سے دائر درخواست میں الزام لگایا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا اور ان کے حکم پر ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا۔

درخواست گزار کے مطابق سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے ایک مبینہ مقدمے کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور معز خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر سونے اور ہیروں کے زیورات اور رقم سمیت قیمتی سامان مبینہ طور پر لوٹ لیا تھا۔

فیض حمید فوج کا اندرونی معاملہ ہیں: عمر ایوب

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما عمر ایوب نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پاکستان فوج کا اندرونی معاملہ ہیں۔

میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ فوج میں آئی ایس آئی کا سربراہ حتیٰ کہ کوئی جنرل بھی آرمی چیف کے ہوتے کچھ نہیں کر سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آرمی چیف اس وقت جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ تھے اور ان سمیت جو جو ملوث ہیں ان کو سامنے لانا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان