لیاقت علی خان کے ساتھی ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے؟ 

لیاقت علی خان کا شمار تحریک پاکستان کے سرکردہ رہنماؤں میں ہوتا ہے مگر تاریخی طور پر ایسے شواہد کی بھی کمی نہیں جن میں تحریک پاکستان کے کئی اہم رہنماؤں نے ان کے کردار پر نہایت سنگین قسم کے الزمات بھی لگائے ہیں۔

بظاہر قائد اعظم لیاقت علی خان کو وزیرِ اعظم نہیں بنانا چاہتے تھے مگر مجبوری میں بنا لیا (پبلک ڈومین)

پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں اس وقت قتل کر دیے گئے جب وہ ایک عوامی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ اس سانحے کو 73 برس گزر چکے ہیں مگر آج تک اس کی پراسراریت برقرار ہے۔

جسٹس منیر کے تحقیقاتی کمیشن کو ان کی بیوی بیگم رعنا لیاقت نے مسترد کر دیا تھا جس پر حکومت نے آئی جی پولیس اعتزاز الدین کو تفتیش پر مامور کیا جو 26 اگست 1952 کو طیارے کے ایک حادثے میں مارے گئے اور ان کے ساتھ ہی وہ تمام دستاویزات اور شواہد بھی خاک ہو گئے جن کی مدد سے تفتیش آگے بڑھ سکتی تھی۔

لیاقت علی خان کا شمار تحریک پاکستان کے سرکردہ رہنماؤں میں ہوتا ہے مگر تاریخی طور پر ایسے شواہد کی بھی کمی نہیں جن میں تحریک پاکستان کے کئی اہم رہنماؤں نے ان کے کردار پر نہایت سنگین قسم کے الزمات بھی لگائے ہیں جن میں محترمہ فاطمہ جناح بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیاقت علی خان سے ملاقات کے بعد قائد کا دل ٹوٹ گیا تھا

فاطمہ جناح اپنی کتاب ’میرا بھائی‘ میں لکھتی ہیں کہ ’میں قائد اعظم کے پاس بیٹھی ہوئی تھی جب مجھے معلوم ہوا کہ وزیراعظم اور سیکریٹری جنرل ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس کی اطلاع ان کو دی۔ وہ مسکرائے اور بولے ’فطی، تم جانتی ہو وہ یہاں کیوں آیا ہے؟‘

’میں نے کہا کہ مجھے اس کی آمد کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ وہ بولے، ’وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ میری بیماری کتنی شدید ہے۔ میں کتنا عرصہ اور زندہ رہ سکتا ہوں۔‘

’چند منٹ بعد انہوں نے مجھ سے کہا، ’نیچے جاؤ وزیراعظم سے کہو میں اس سے ابھی ملوں گا۔‘

’لیکن بہت دیر ہو چکی ہے۔ وہ کل صبح آپ سے مل لیں گے۔‘

’نہیں اسے ابھی آنے دو، وہ خود آ کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔‘

فاطمہ لکھتی ہیں کہ ’لیاقت نے نصف گھنٹہ قائد اعظم سے ملاقات کی۔ جونہی لیاقت علی خان نیچے آیا تو میں اوپر اپنے بھائی کے پاس گئی، وہ بری طرح تھکے ہوئے تھے اور ان کا چہرہ اترا ہوا تھا۔

’انہوں نے مجھ سے پھل کا جوس مانگا اور پھر چوہدری محمد علی کو اندر بلا لیا۔ وہ پندرہ منٹ تک ان کے پاس رہا، پھر جب وہ دوبارہ اکیلے ہوئے تو میں ان کے پاس اندر گئی۔

’میں نے پوچھا کہ وہ جوس یا کافی پینا پسند کریں گے۔ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کا ذہن کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ اتنے میں ڈنر کا وقت ہو گیا، انہوں نے مجھ سے کہا، ’بہتر ہے تم نیچے چلی جاؤ اور ان کے ساتھ کھانا کھاؤ۔‘

’نہیں!‘ میں نے زور دے کر کہا میں آپ کے پاس ہی بیٹھوں گی اور یہیں پر کھانا کھاؤں گی۔‘ نہیں یہ مناسب نہیں یہاں وہ ہمارے مہمان ہیں جاؤ اور ان کے ساتھ کھانا کھاؤ۔‘

’کھانے کی میز پر میں نے وزیراعظم کو بہت خوشگوار موڈ میں پایا۔ وہ لطیفے سنا رہا تھا اور ہنسی مذاق کر رہا تھا۔ جبکہ میں قائد اعظم کی صحت کی وجہ سے خوف کے مارے کانپ رہی تھی جو اوپر کی منزل میں تنہا بسترِ علالت پر پڑے تھے۔

’کھانے کے دوران چوہدری محمد علی بھی چپ چاپ کسی سوچ میں گم رہا۔ کھانا ختم ہونے سے پہلے ہی میں اوپر کی منزل پر چلی گئی۔ جب میں کمرے میں داخل ہوئی تو قائد اعظم مجھے دیکھ کر مسکرائے اور بولے۔ ’فطی، تمہیں ہمت سے کام لینا چاہیے۔‘

میں نے اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی کوشش کی جو میری آنکھوں میں امڈ آئے تھے۔‘

محترمہ فاطمہ جناح کے بیان کی صداقت کی گواہی قائد اعظم کے ذاتی معالج ڈاکٹر الہٰی بخش نے بھی دی ہے جو اس ملاقات کے وقت زیارت میں موجود تھے۔

ان کی کتاب ’قائد اعظم کے ساتھ آخری ایام‘ میں اس ملاقات کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ’جب لیاقت علی خان کمرے سے نکلے تو میں فوراً کمرے میں گیا تا کہ قائد اعظم کو دوا کھلا سکوں۔

’میں نے دیکھا کہ قائد اعظم پر سخت افسردگی طاری ہے۔ انہوں نے دوا کھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اب میں مزید زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ اس کے بعد انہوں نے میرے ساتھ تعاون سے انکار کر دیا۔‘

’جب قائد اعظم کا انتقال ہوا تو لیاقت علی خان نے مجھے ملاقات کے لیے بلایا اور پوچھا کہ ’اس روز زیارت میں جب میں کمرے سے باہر آیا اور آپ اندر گئے تو قائد اعظم نے آپ سے کیا بات کی تھی؟‘

’میں نے انہیں بتایا کہ ’انہوں نے سوائے دوا کھانے سے انکار کے مجھے کچھ نہیں بتایا۔‘ مگر لیاقت علی خان کو میری بات سے تسلی نہیں ہوئی۔ اور اس نے مجھے تنبیہ کی کہ اگر میں نے کسی اور ذریعے سے متذکرہ ملاقات کے بارے میں کچھ سنا تو اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔‘

 یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ ڈاکٹر کرنل الہٰی بخش کی موت بھی پراسرار تھی وہ اس وقت مردہ پائے گئے جب وہ راولپنڈی کے فلیش مینز ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ فاطمہ جناح کی اچانک موت پر بھی بہت سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔

قائد اعظم لیاقت علی خان کو وزیراعظم نہیں بنانا چاہتے تھے

معروف تاریخ دان کے کے عزیز نے اپنی کتاب The Murder of History میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے انتہائی کشیدہ تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ لیاقت ڈیسائی معاہدے کے بعد قائد اعظم لیاقت علی خان پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔

مگر وہ انگریزوں اور کانگریس کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ مسلم لیگ میں اندرونی اختلافات ہیں اس لیے وہ ان نازک لمحات میں لیاقت علی خان کو برداشت کرتے رہے۔

قائد اعظم نے جولائی 1947 میں بھوپال کے نواب محمد حمید اللہ خان کو پاکستان آ کر وزارت عظمیٰ کی پیشکش کی مگر ان کی ذاتی مجبوریاں حائل ہو گئیں تب حالات کی عجلت میں مجبوراً نواب زادہ لیاقت علی خان کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔

 محمد ایوب کھوڑو اپنی کتاب The life of Courage in Politics میں لکھتے ہیں کہ ’قائد اعظم اور لیاقت علی خان میں اختلافات نمایاں ہو کر سامنے آ رہے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ 14اپریل 1948 کو نواب بہاولپور ہاؤس میں ایک خصوصی لنچ کے دوران قائد اعظم نے لیاقت علی خان کے بارے میں اچھی رائے کا انتظار نہیں کیا اور مجھ سے سوالیہ انداز میں کہا کہ میرا وزیراعظم معمولی قابلیت کا حامل ہے۔‘

مختار مسعود بھی فاطمہ جناح سے اپنی ایک ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قائد اعظم نے لیاقت ڈیسائی پیکٹ کے بعد کبھی لیاقت علی خان کی سوجھ بوجھ پر بھروسہ نہیں کیا اگر وقت اور واقعات کی رفتار اتنی تیز نہ ہوتی تو وہ ضرور کسی اور شخص کو ان کی جگہ دے دیتے۔

’کھوٹے سکوں‘ میں لیاقت علی خان بھی شامل تھے

تحریِک پاکستان کے ممتاز رہنما اور پنجاب کے وزیراعظم سردار سکندر حیات کے فرزند سردار شوکت حیات نے اپنی خود نوشت ’گم گشتہ قوم‘ میں ان ہزاروں خطوط کو جعلی قرار دیتے ہوئے انہیں لیاقت علی خان کی کارگزاری قرار دیا۔

جن میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ قائد اعظم لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو پاکستان کا عبوری گورنر جنرل قبول نہ کریں جن کا مقصد یہ تھا کہ وہ خود وزیراعظم بننا چاہتے تھے۔

سردار شوکت حیات آگے چل کر لکھتے ہیں کہ جب کشمیر پر حملے کے دوران لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے لاہور آ کر پٹیل کا یہ پیغام پہنچایا کہ پاکستان حیدر آباد دکن کا مطالبہ چھوڑ دے اور اس کے بدلے میں کشمیر لے لے۔

جس پر میں نے جا کر لیاقت علی خان کو سمجھایا کہ پٹیل کی یہ تجویز بڑی اچھی ہے، بطور فوجی اور کشمیر آپریشن کے نگران کی حیثیت سے میرا مشورہ ہے کہ ہم عسکری ذریعے سے کشمیر حاصل نہیں کر سکیں گے اس لیے پٹیل کی تجویز مان لی جائے۔

جس پر لیاقت علی خان نے کہا کہ ’میں پاگل ہوں کیا کہ کشمیر کے پہاڑوں اور ٹیلوں کے بدلے حیدر آباد دکن کو چھوڑ دوں جو پنجاب سے بھی بڑی ریاست ہے؟‘

آگے چل کر سردار شوکت حیات لکھتے ہیں کہ ’قائد اعظم نے مجھے اپریل 1948 میں ملاقات کے لیے بلایا اور کہا کہ وہ جس جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں آگے سے کھوٹے سکے برآمد ہوتے ہیں ان کھوٹے سکوں میں نوابزادہ لیاقت علی خان بھی شامل ہیں۔‘

اسی طرح ایک ملاقات میں قائد اعظم نے ایوب کھوڑو کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ ان کا وزیراعظم ایک اوسط درجے کی شخصیت ہے۔

انہی دنوں یہ خبریں بھی آ نا شروع ہو گئی تھیں کہ قائد اعظم لیاقت علی خان کو وزراتِ عظمیٰ سے ہٹا کر مشرقی پاکستان کا گورنر لگانا چاہتے ہیں۔

سردار شوکت حیات لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان نے پنجاب میں کرائے گئے عام انتخابات میں بھی ممتاز دولتانہ کو جتوانے اور نواب ممدوٹ کو ہرانے کے لیے دھاندلی کروائی تھی۔

لیاقت علی خان نے کراچی سے اپنی سیٹ جیتنے کے لیے نہرو لیاقت معاہدہ توڑا جس سے یوپی اور راجستھان سے لاکھوں مہاجرین کراچی آ گئے۔

اتنے بڑے پیمانے پر مہاجرین کی کراچی آمد نے آگے چل کر ایک لسانی مسئلے کی صورت اختیار کر لی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ