16 اکتوبر 1951، راولپنڈی کا کمپنی باغ
نواب زادہ لیاقت علی خان ٹھیک چار بجے شام راولپنڈی کے کمپنی باغ (حالیہ لیاقت باغ) پہنچ گئے جہاں درجنوں ہزار مداح وزیرِ اعظم کی تقریر سننے کے لیے جمع تھے۔
سٹیج خاص طور پر لیاقت علی خان کی خواہش پر بنایا گیا تھا، جس میں ان کے لیے قالین سے سجے اونچے پلیٹ فارم پر واحد کرسی رکھی گئی تھی۔ سر پر مخصوص قراقلی ٹوپی اور بدن پر شیروانی پہنے ہوئے 56 سالہ ’قائدِ ملت‘ جب پنڈال میں داخل ہوئے تو فضا پاکستان زندہ باد، مسلم لیگ زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد اور لیاقت علی خان زندہ باد کے نعروں سے گونج اُٹھی۔
لیاقت علی خان کو جب پھولوں کے ہار پہنائے گئے تو چند پتیاں ان کی قراقلی ٹوپی پر اٹک گئیں۔ وزیرِ اعظم کے پولیٹیکل سیکریٹری نواب صدیق علی خان آگے بڑھے اور پتیاں ہٹا دیں۔
سب سے پہلے مولانا عارف اللہ نے تلاوتِ قرآن کی، پھر بلدیہ کے صدر شیخ مسعود صادق ایم ایل اے نے اہلِ راولپنڈی کی جانب سے سپاس نامہ پیش کیا۔ اس کے بعد لیاقت علی خان اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ’عظمت و وقار اور سنجیدگی، عزم اور تفکر کا پیکر‘ بنے مائیکرو فون کے سٹینڈ کی طرف بڑھے۔ لوگوں نے ایک بار پھر نعرے لگائے۔ لیاقت علی خان مائیک کے سامنے پہنچے اور لوگوں کے بڑے مجمعے پر ایک نظر دوڑا کر تقریر کا آغاز کیا۔
ریڈیو پاکستان کی آرکائیوز میں اس تقریر کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ اس کھرکھراتی ہوئی ریکارڈنگ میں پہلے لوگوں کی تالیوں کا شور تھمتا ہے، پھر قائدِ ملت کی تھمی ہوئی، ٹھہری ہوئی آواز سنائی دیتی ہے: ’برادرانِ ملت۔۔۔‘ اس کے بعد ’ٹھائیں ٹھائیں‘ کی دو پے در پے آوازیں، پھر لوگوں کا شور، پھر سات سیکنڈ بعد ایک اور ’ٹھائیں۔‘
پھر جیسے کسی کے گرنے اور مائیک کے ساتھ ٹکرانے کی آواز آتی ہے، پھر ساری آوازیں ہجوم کے شور شرابے اور ہڑبونگ کے نیچے کچل کر رہ جاتی ہیں۔ دس سیکنڈ کے بعد فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو لگاتار ریکارڈنگ کے آخر تک جاری رہتا ہے۔
پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم کو کیوں قتل کیا گیا؟ اس واقعے کو ٹھیک 68 برس گزر گئے ہیں، اس دوران تین نسلیں جوان ہو چکی ہیں لیکن یہ معمہ ویسے کا ویسے حل طلب ہے جیسے اس واقعے کے بعد ابتدائی ہڑبونگ کے وقت تھا۔
البتہ اس سوال کے جواب میں کوئی شک نہیں کہ یہ قتل کس نے کیا۔
سید اکبر خان ببرک
لیاقت علی خان کو قریب ہی واقع کمبائینڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) پہنچایا گیا لیکن وہ 50 منٹ بعد قائدِ ملت سے ’شہیدِ ملت‘ ہو گئے۔
پہلے تو انسپکٹر شاہ محمد نے پولیس سپرنٹنڈنٹ خان نجف خان کے حکم پر اکبر خان پر قریب سے پانچ گولیاں چلائیں، پھر مشتعل ہجوم ان پر پل پڑا اور لاتیں، گھونسے، برچھیاں اور گملے مار کر انہیں ہلاک کر دیا۔ کچھ دیر بعد ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان نے میڈیا کو بیان جاری کیا کہ قاتل کا تعلق خاکسار تحریک سے تھا، تاہم بعد میں یہ بیان واپس لے لیا گیا لیکن اس کے باوجود ملک بھر میں خاکسار تحریک کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ چند گھنٹے بعد حکومت نے تصدیق کی کہ قاتل کا تعلق افغانستان کے صوبہ خوست کے زادران قبیلے سے تھا اور اس کا نام سید اکبر خان ببرک تھا۔
آنے والے دنوں میں اکبر خان کے بارے میں تفصیلات سامنے آنے لگیں۔ وہ افغانستان کے بادشاہ امان اللہ خان کی فوج میں بریگیڈیئر تھے، لیکن جب افغانستان میں خانہ جنگی کے نتیجے میں امان اللہ کو ملک سے فرار ہونا پڑا اور اقتدار ظاہر شاہ کے پاس آ گیا تو 1947 میں آزادیِ ہند سے سات ماہ قبل اکبر خان بھی ملک چھوڑ کر ہندوستان آ گئے جہاں انگریزوں نے انہیں سیاسی پناہ دے دی اور وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ایبٹ آباد میں مقیم ہو گئے۔
اکبر خان کو انگریز حکومت کی طرف سے گزر بسر کے لیے وظیفہ ملتا تھا، جب پاکستان بنا تب بھی وظیفہ جاری رکھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اقبال اور مولانا رومی کے بڑے مداح تھے اور ان کا نشانہ بےخطا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی چلائی ہوئی پہلی گولی لیاقت علی خان کے دل کے پار ہو گئی۔
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے
اکبر خان کے محرکات کیا تھے؟ یہ کام انہوں نے تنہا کیا یا وہ کسی بڑی سازش کا حصہ تھے؟ بجائے اس کے کہ قاتل کو پکڑ کر اس سے تفتیش کی جاتی، اسے فوراً ہی کیوں ہلاک کر دیا گیا اور وہ بھی خود پولیس کی جانب سے؟ کیا اکبر خان کو اس لیے قتل کیا گیا کہ اس کے آقاؤں تک پہنچنے کا ثبوت مٹا دیا جائے؟
کیا اسے محض اتفاق کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم کے قتل کے 56 برس بعد اسی لیاقت باغ میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ بجائے اس کے کہ تفتیشی ٹیمیں محدب عدسے لے کر تمام علاقے کے انچ انچ کا جائزہ لیتیں، اس واقعے کے دو گھنٹوں کے اندر اندر جائے وقوعہ کو پانی کے موٹے پائپ لگا دھو دیا جاتا ہے۔
انفرادی فعل یا گہری سازش؟
قائدِ ملت کے قتل کے دو ہفتے بعد یکم نومبر 1951 کو جسٹس محمد منیر کی قیادت میں ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا گیا جس نے آنے والے مہینوں میں 38 سماعتوں کے دوران 89 گواہوں سے پوچھ تاچھ کی۔ اس تمام سوچ بچار اور بحث و تمحیص کے بعد آخر کار کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا: ’یہ قتل سید اکبر کا انفرادی عمل نہیں تھا اور حکومت کی تبدیلی سے متعلق کسی سازش کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔‘
لیکن یہ سازش کس نے تیار کی، اور اس کا فائدہ کس کو ملا، اس معاملے پر کمیشن کے لب بند ہی رہے۔ نئے وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین نے انسپکٹر جنرل پولیس اعتزاز الدین کو از سرِ نو قتل کی تفتیش پر مامور کیا۔ لیکن 26 اگست 1952 کو وہ پراسرار طریقے سے جہاز کے حادثے میں ہلاک ہو گئے اور ان کے ہمراہ مقدمے سے متعلق تمام شواہد اور دستاویزات بھی جل کر راکھ ہو گئیں۔
حتیٰ کہ بعد میں اس مقدمے کی فائل بھی گم ہو گئی اور لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود عدالت میں پیش نہیں کی جا سکی۔ یہی نہیں بلکہ سکاٹ لینڈ یارڈ سے بھی اس واقعے کی تحقیقات کروائی گئیں لیکن اس کی رپورٹ بھی آج تک منظرِ عام پر نہیں آ سکی۔
البتہ بعد میں آنے والے برسوں میں مختلف سمتوں میں انگلیاں اٹھتی رہیں۔ ان میں سے چند نظریات یہ ہیں:
- اس وقت کے وزیرِ خزانہ غلام محمد، وزیرِ کشمیر مشتاق احمد گورمانی اور سیکریٹری دفاع سکندر مرزا نے یہ سازش تیار کی تھی کیوں کہ لیاقت علی خان ان سب سے خوش نہیں تھے اور انہیں برطرف کرنا چاہتے تھے
- لیاقت علی خان نے چند ماہ قبل ہی بھارت کو مکہ دکھایا تھا اور وہ کشمیر پر حملہ کرنا چاہتے تھے، اس لیے بھارت نے انہیں راستے سے ہٹا کر پاکستان میں انتشار پیدا کر دیا
- اس وقت ملک میں افغانستان کی پشت پناہی سے پشتونستان کی تحریک چل رہی تھی، اس لیے افغانستان نے یہ کام کیا۔ اور ویسے بھی اکبر خان افغانی تھے
- سوویت یونین کا کیا دھرا ہے کیوں کہ لیاقت علی خان نے دو سال قبل روس کا دورہ کرنے کی بجائے امریکہ جانے کو ترجیح دی اور یوں پاکستان کو امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا
- لیاقت علی خان کو امریکی صدر ہیری ٹرومین نے قتل کروایا کیوں کہ امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران کو راضی کرے کہ وہ اپنے تیل کے ذرائع کا کنٹرول امریکہ کو منتقل کر دے، لیکن لیاقت علی خان نے انکار کر دیا، بلکہ الٹا امریکہ کو پاکستان میں موجود فوجی اڈے خالی کرنے کا حکم دے دیا
بالآخر امریکہ نے ’اعترافِ جرم‘ کر ہی لیا
اوپر دیا گیا پانچواں نظریہ حالیہ برسوں میں پر لگا کر اڑا ہے۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ امریکی سی آئی اے نے ایسی دستاویزات افشا کی ہیں جن میں اعتراف کیا گیا ہے کہ لیاقت علی خان کو امریکہ نے قتل کروایا تھا۔
اس دوران پاکستان کے مین سٹریم کے اردو اخباروں میں اس قسم کی سرخیاں چھپیں:
- قائد ملت لیاقت علی خان کو امریکا نے قتل کروایا، امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ (روزنامہ ایکسپریس)
- لیاقت علی خان کو امریکہ نے قتل کروایا: امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جاری کردہ دستاویزات میں برملا اعتراف (روزنامہ دنیا)
- لیاقت علی خان کے قتل کا معمہ حل ہو گیا، سابق امریکی صدر ٹرومین نے قتل کرایا تھا، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دستاویزات سامنے آ گئیں (روزنامہ پاکستان)
تاہم ان میں سے کسی اخبار نے یہ زحمت نہیں کی کہ ان افشا شدہ دستاویزات کا لنک یا کوئی عکس دے دیا جاتا، یا یہ ممکن نہیں تھا تو دستاویزات کے کسی حصے کا ترجمہ ہی پیش کر دیا جاتا۔ تھوڑا کریدنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان تمام ’انکشافات‘ کا منبع 2006 میں ’عرب نیوز‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ ہے جسے سید راشد حسین نے تحریر کیا تھا۔ اس رپورٹ کی سرخی ہے:
Declassified Papers Shed Light On US Role In Liaquat’s Murder
رپورٹ میں کہا گیا ہے: ’حال ہی میں امریکی محکمۂ خارجہ کی جانب سے ڈی کلاسیفائی ہونے والی ایک رپورٹ میں چند دلچسپ حقائق پر روشنی پڑتی ہے۔ اس دستاویز کے مطابق نئی دہلی میں قائم امریکی سفارت خانے نے 30 اکتوبر 1951 کو ایک تار بھیجی تھی۔‘
آگے چل کر رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس تار میں بھوپال سے 24 اکتوبر 1951 کو شائع ہونے والے ایک اردو اخبار ’ندیم‘ کی خبر کا خلاصہ پیش کیا گیا تھا۔ اس اخبار نے سوال اٹھایا تھا کہ ’کیا لیاقت علی خان کا قتل گہری امریکی سازش کا نتیجہ ہے؟‘
یہ افشا شدہ دستاویز انٹرنیٹ پر کہیں بھی موجود نہیں ہے، اور نہ ہی امریکی محکمۂ خارجہ کی آرکائیوز میں اس کا اتا پتہ ملتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو بھی، تب بھی سوال یہ ہے کہ اسے امریکہ کا اعتراف کہنا کس حد تک بجا ہے کیوں کہ اس میں صرف ایک اخبار کی خبر کا خلاصہ وزارتِ خارجہ کو بھیجا گیا ہے اور دنیا بھر کے سفارت خانوں کا معمول ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک سے متعلق خبریں، اور خاص طور پر منفی خبروں کی رپورٹیں اپنے ملک کو بھیجتے رہتے ہیں۔ اس کو اعترافِ جرم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
البتہ اس ضمن امریکی سی آئی اے کی جانب سے افشا کردہ چند دستاویزات آرکائیوز میں ضرور موجود ہیں جن میں لیاقت علی خان کے قتل کا ذکر ہے، لیکن ان میں بھی کسی امریکی سازش کا سراغ نہیں ملتا۔ 16 اکتوبر کو شائع ہونے والے ایک انٹیلی جنس بریف میں خاکسار تحریک کو ممکنہ قاتل بتایا گیا ہے، جب کہ 22 اکتوبر کی ایک اور دستاویز میں افغان شہری کے ملوث ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔
ایک اور جہت
سابق آرمی افسر صادق نسیم نے اپنی کتاب ’روشنی چراغوں کی‘ میں اس گنجلک معاملے کی ایک اور جہت پر چند کرنیں ڈالی ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان افغانستان کی جانب سے پشتونستان کے معاملے کو ہوا دینے پر بہت فکرمند تھے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ افغانستان میں ظاہر شاہ کی حکومت کو الجھانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہاں کے پشتونوں اور دری بولنے والوں کے درمیان کشیدگی پیدا کی جائے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے سید اکبر خان کا انتخاب کیا جو پہلے ہی حکومتِ پاکستان کے وظیفہ خوار تھے۔
لیکن جب اکبر خان مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے تو لیاقت علی خان نے کوئی وجہ بتائے بغیر ان کا وظیفہ گھٹا کر نصف کر دیا۔ اکبر خان نے وزیرِ اعظم سے ملنے کی بارہا کوشش کی لیکن ہر بار ناکامی ہوئی۔ اکبر خان پوچھنا چاہتے تھے کہ ’مجھ سے کیا خطا ہوئی ہے، میں تو اپنی قوم بیچ کر آپ کے پاس آیا ہوں۔‘
آخر انہوں نے ٹھان لیا کہ وہ اپنی بےعزتی کا بدلہ لیاقت علی خان کی جان لے کر کریں گے۔ صادق نسیم کے مطابق اکبر خان اپنے گھر میں پستول سے نشانہ لگانے کی مشق کیا کرتے تھے اور ایبٹ آباد میں ان کے کئی ہمسائیوں نے گواہی دی کہ وہ ہر وقت لیاقت علی خان کو گالیاں دیتے رہتے تھے اور کہتے ہیں کہ ان کی بیوی بےپردہ رہتی ہیں۔
لیاقت علی خان مری گئے تو سید اکبر نے ان کا پیچھا کیا لیکن غالباً وہاں انہیں موقع نہ مل سکا، آخر یہ موقع پنڈی میں ہاتھ آیا جسے سید اکبر نے استعمال کر لیا۔
اور یوں پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل مدت تک عہدے پر فائز رہنے والے وزیرِ اعظم کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا۔