10 نومبر 2024 کو امریکی خلائی ادارے ناسا نے ایک تصویر جاری کی، جس میں دکھایا گیا کہ پاکستان کا صوبہ پنجاب سموگ کے گہرے بادلوں کی لپیٹ میں ہے، جنہیں خلا سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اس تصویر کو دنیا بھر کے میڈیا نے دکھایا ہے۔ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں نمبر ون کا مقابلہ لاہور اور نئی دہلی میں چل رہا ہے۔ کبھی ایک آگے ہوتا ہے تو کبھی دوسرا، لیکن اگر سال بھر کا ڈیٹا دیکھا جائے تو لاہور دنیا کا پانچواں، فیصل آباد 12واں اور پشاور 34واں آلودہ ترین شہر ہے۔
دنیا کے 50 آلودہ ترین شہروں میں سے 42 انڈیا میں اور تین پاکستان میں واقع ہیں۔ گویا پوری دنیا میں آلودگی میں نمبر ون یہی خطہ ہے، جس میں ہم رہ رہے ہیں۔
سموگ کا لفظ پہلی بار دنیا میں 1905 میں اس وقت استعمال ہوا جب برطانیہ کے بہت سے شہر اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ 1909 میں صرف گلاسکو اور ایڈنبرا میں سموگ سے ایک ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں، لیکن آج یورپ، چین یا امریکہ جیسے صنعتی ممالک کی بجائے دنیا کے آلودہ ترین ملکوں میں بنگلہ دیش پہلے، پاکستان دوسرے اور انڈیا تیسرے نمبر پر ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 70 لاکھ لوگ ایسی بیماریوں سے مرتے ہیں، جن کی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہوتی ہے۔ پاکستان گذشتہ 10 سالوں سے سموگ سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے مگر اس سال سموگ کا موسم اکتوبر کے آخری ہفتے میں ہی شروع ہو گیا اور نومبر کے پہلے ہفتے میں لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس نے ایک ہزار کے ہندسوں کو چھوتے ہوئے دنیا کے آلودہ ترین شہر ہونے کا اعزاز اپنے نام کر لیا تھا۔
شکاگو یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب فضائی آلودگی اس حد تک پہنچ جائے تو وہاں رہنے والے انسانوں کی اوسط زندگی پونے چار سال کم ہو جاتی ہے۔
کیا سموگ میں اضافے کی وجہ چاولوں کی فصل کو آگ لگانا ہے؟
فضائی آلودگی میں سب سے بڑا حصہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔ پرانی اور خراب گاڑیوں سے جو دھواں نکلتا ہے، اس میں نائٹروجن آکسائیڈز، پی ایم 10 اور پی ایم 2.5 نامی زہریلے ذرات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ صنعتوں کے چھوڑے ہوئے دھوئیں سے سلفر، اوزون وی او سی، کاربن مونو آکسائیڈ اور میتھین فضا میں شامل ہو رہے ہیں۔
جلائی جانے والی فصلوں کا دھواں اس صورت حال کو مزید بگاڑ دیتا ہے۔ پنجاب میں سموگ بڑھنے کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لیے حکومتِ پنجاب کی درخواست پر فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن نے 2019 میں ایک رپورٹ مرتب کی تھی، جس کے مطابق پنجاب کی سموگ میں ٹرانسپورٹ کا حصہ سب سے زیادہ یعنی 43 فیصد ہے۔
دوسرے نمبر پر صنعتی شعبہ ہے جس کا حصہ 25 فیصد، زراعت کا 20 فیصد، کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں اور جنریٹروں سے نکلنے والے دھوئیں کا حصہ 12 فیصد ہے۔ اگر صرف لاہور کی سموگ کا جائزہ لیا جائے تو اس کی 83 فیصد ذمہ داری گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کی ہے۔ لاہور میں چلنے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد 73 لاکھ ہے۔ حالیہ سالوں میں بائیکیا اور آن لائن ڈیلیوری سسٹم کا بڑھتا ہوا استعمال بھی سموگ میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔
ٹو سٹروک موٹر سائیکلوں کا آلودگی میں مجموعی حصہ 69 فیصد بنتا ہے۔ کاروں اور جیپوں کا 23 فیصد ہے۔ پاکستان میں یورو 2 معیار کا پیٹرول 1992 سے استعمال ہو رہا ہے، جس کا حصہ 70 فیصد ہے۔
2019 میں فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے یورو 5 کو رواج دیا گیا مگر اس کا مارکیٹ شیئر ابھی تک صرف 10 فیصد ہے۔ یورو 2 کے مقابلے میں یورو 5 کے استعمال سے گاڑیوں سے نکلنے والے خطرناک ذرات اور دھوئیں کی مقدار 60 فیصد تک کم ہو جاتی ہے۔
عموماً سموگ میں اضافے کو چاول کی فصل کی باقیات یعنی منجی جلانے سے تعبیر کیا جاتا ہے، مگر یہ سموگ کی پہلی یا دوسری نہیں بلکہ تیسری وجہ ہے۔ تاہم حکومت پنجاب اب کسانوں کو ایسی مشینری خریدنے پر سبسڈی دے رہی ہے، جس سے انہیں چاول کی فصل کی باقیات جلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
(بحوالہ: پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس)
فضائی آلودگی سے کتنا نقصان ہوتا ہے؟
سموگ سے بچے اور حاملہ خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ بچوں میں سانس، ناک اور گلے کے ساتھ دل کے امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ایک حالیہ طبی تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی سے آپ کو اینگزائٹی اور ڈیمنشیا کی بیماری ہو جاتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد آبادی ایسی جگہوں پر رہائش پذیر ہے، جہاں شدید آلودگی ہے اور سال میں کم از کم سات بار اسے زہریلی ترین فضا میں سانس لینا پڑتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر ایک لاکھ اموات میں سے 200 اموات کی وجہ فضائی آلودگی بنتی ہے۔ ہر سال 22,000 بچے قبل از وقت پیدا ہو جاتے ہیں اور چار کروڑ افراد کو ناک کا انفیکشن ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ہر سال 28 ہزار لوگ آلودگی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا ہے کہ آج کل ہر دوسرا فرد گلے، سانس اور آنکھوں کی بیماریوں کی شکایت کر رہا ہے۔ مالی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ موٹر ویز بند ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں پر حادثات کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ دفاتر، فیکٹریوں اور سکولوں میں حاضریاں محدود ہو جاتی ہیں حتیٰ کہ کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور بھی بیمار پڑ جاتے ہیں۔ سرکاری اور نجی ترقیاتی منصوبوں کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔
اسی طرح عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف پی ایم 2.5 نامی زہریلے مادے سے عالمی معیشت کو سالانہ 81 کھرب ڈالر نقصان ہو رہا ہے جبکہ پاکستانی معیشت کو سالانہ پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ 20 ارب ڈالر ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک حالیہ رپورٹ بعنوان ’Unveiling the Smog Crisis Solutions Ahead ‘ کے مطابق سموگ سے فصلوں اور ایکو سسٹم کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
پودوں کی افزائش کے ساتھ جنگلی حیات بھی متاثر ہو رہی ہے۔ صرف چاول اور گندم کی پیداوار پانچ سے 20 فیصد کم ہو چکی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی ایک تحقیق کے مطابق سموگ پودوں کی افزائش کو 10 سے 40 فیصد تک متاثر کرتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2030 تک فضائی آلودگی میں 50 فیصد مزید اضافہ ہو جائے گا۔
مسئلہ قانون میں ہے یا حکمتِ عملی میں؟
پاکستان انوائرمینٹل پرفارمنس انڈیکس میں دنیا کے 180 ممالک میں 179 ویں نمبر پر ہے۔ آخری ملک سے ایک درجے اوپر کا مقام، کیا یہ تقاضا نہیں کرتا کہ ہمیں بحیثیت قوم کیا کچھ کرنا ہے؟
اس مسئلے کے حل میں سب سے اہم سیاسی عزم اور دیرپا پالیسیاں ہیں۔ سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) سے وابستہ ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر شفقت منیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’سموگ کا کنٹرول اس لیے نہیں ہوتا کہ اس پر سال کے آٹھ ہفتے فوکس ہوتا ہے اور جب سموگ ختم ہوجاتی ہے تو سب بھول بھال جاتے ہیں، اس کے لیے طویل المدتی اور دیرپا منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ سماجی سطح پر بھی اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ‘
ناسا کی جانب سے فراہم کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق فصلوں کو جلانے کے 80 فیصد واقعات انڈین علاقے میں ہو رہے ہیں۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے گذشتہ دنوں ایک بیان دیا تھا کہ وہ اس مسئلے کو انڈیا کے ساتھ اٹھانا چاہتی ہیں کیونکہ آلودگی کو سرحد پار کرنے کے لیے کسی ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تو سرحد پار کا معاملہ ہے، سرحد کے اندر صوبوں اور وفاق میں کوئی باہمی حکمتِ عملی نظر نہیں آتی۔ پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کا دائرہ کار صرف اسلام آباد تک محدود کیوں ہے؟
جب اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کی ڈائریکٹر جنرل فرزانہ الطاف شاہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’ہمارا دائرہ کار اسلام آباد تک محدود ہے، جہاں فضائی آلودگی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ صوبے اپنے اپنے طور پر کام کر رہے ہیں۔‘
کیا اگلے چند سالوں میں اسلام آباد میں بھی لاہور والی صورت حال ہو سکتی ہے اور اس کے تدارک کے لیے وفاق کا کیا لائحہ عمل ہو گا؟
انہوں نے اس سوال کا جواب دینے کی بجائے کہا کہ وہ فی الوقت مصروف ہیں اور ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دے سکتیں۔
پاکستان میں فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے 1983 کے ایک انوائرمینٹل پروٹیکشن آرڈیننس کے تحت 1993 میں نیشنل انوائرمینٹل کوالٹی سٹینڈرز کی تشکیل کی گئی اور 1999 میں پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن کونسل بنائی گئی۔
تاہم پاکستان میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے چھ دسمبر 1997 کو پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ پاس کیا گیا، جو ماحولیاتی تحفظ کی وسیع البنیاد حکمتِ عملی فراہم کرتا ہے۔ اسی کے تحت یکم جنوری 2012 کو پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی بنائی گئی۔
یہی کام بعد میں 2016 میں پنجاب انوائرمینٹل پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کو سونپ دیا گیا، جس نے 2017 میں ایک اینٹی سموگ پالیسی دی۔ گذشتہ 21 سالوں میں پاکستان میں ماحول بد سے بدتر ہوتا رہا ہے۔ دوسری جانب مسئلے کے حل کے نام پر درجنوں قوانین اور ادارے بنا دیے جاتے ہیں، جن کی عملی کارکردگی کہیں نظر نہیں آتی۔ اس کے ثبوت کے طور پر نیچے والا جدول ہی دیکھ لیں:
سال | حکمتِ عملی، پیش رفت |
1993 | نیشنل انوائرمینٹل کوالٹی سٹینڈرڈز |
1997 | انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ |
1997 | پنجاب انوائرمینٹل ایکٹ |
2000 | نیشنل انوائرمینٹل کوالٹی سٹینڈرڈز میں تبدیلی |
2017 | پنجاب سموگ پالیسی اینڈ ایکشن پلان |
2018 | پنجاب کلین ایئر ایکشن پروگرام |
2018 | پنجاب گرین ڈویلپمنٹ پروگرام |
2021 | پنجاب سموگ کنٹرول آرڈیننس |
2022 | پنجاب انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ میں ترمیم |
2023 | نیشنل کلین ایئر پالیسی |
(بحوالہ: پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس)
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40 لاکھ سے زائد کاریں اور دو کروڑ 40 لاکھ سے زائد موٹر سائیکل ہیں۔ پاکستان میں استعمال ہونے والے کُل ایندھن میں سے 40 فیصد صرف موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں پاکستان نے 73ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پانچ سالوں میں 15 ارب ڈالر کا تیل ان موٹر سائیکلوں میں استعمال ہوا، جن کا ٹرانسپورٹ سے ہونے والی آلودگی میں حصہ 69 فیصد ہے۔
اتنی رقم اگر ہم شہروں میں ماحول دوست پبلک ٹرانسپورٹ پر لگاتے تو آج اس صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔