پنجاب میں سموگ کا راج، وزیر اعلیٰ اور وزیر ماحولیات دونوں غائب

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز، سینیئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب اور چیف سیکریٹری پنجاب تینوں اس وقت جنیوا میں ہیں۔

پنجاب اس وقت سموگ کے ساتھ ایک باقاعدہ جنگ لڑ رہا ہے لیکن اس وقت صوبے کا کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہے یہ واضح نہیں کیونکہ صوبے کی وزیر اعلیٰ مریم نواز، محکمہ ماحولیات کی انچارج اور سینیئر صوبائی وزیرمریم اورنگزیب، صوبے کی بیوروکریسی کے سربراہ چیف سیکرٹری اور وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری سبھی ملک سے باہر ہیں۔

اطلاعات کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز، سینئیر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب اور چیف سیکرٹری پنجاب تینوں اس وقت جنیوا میں ہیں۔ وزیر اعلی یہ دورہ اپنی سرکاری مصروفیات سے چھٹی لے کر کر رہی ہیں یا نہیں یہ بھی واضح نہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے جنیوا جانے کی اطلاع سینئیر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے گذشتہ ہفتے بدھ کو اپنی ایک پریس کانفرنس میں بھی دی تھی اور بتایا تھا کہ وزیر اعلیٰ علاج کے سلسلے میں اپنے تھائرائڈ گلینڈ کے چیک اپ کے لیے جنیوا، سویٹزر لینڈ گئی ہیں۔

مریم اورنگزیب نے پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا تھا کہ مریم نواز نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو گلینڈ مسئلہ خراب ہونے کی وجہ سے پیر کو شریف میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال میں داخل ہونا پڑا جہاں ان کے ٹیسٹ ٹھیک نہیں تھے لہذا ان کے سرجن نے انہیں جنیوا بلایا تھا۔

سینیئر صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ مریم نے گذشتہ سال اپنے والد اور مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی پاکستان آمد سے قبل گلٹی کی سرجری کروائی تھی لیکن چھ ماہ بعد ہی اس معاملے نے دوبارہ سر اٹھا لیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ مریم نواز 12 نومبر کو واپس وطن پہنچیں گی اور اپنی ڈیوٹیاں پھر سے سنبھال لیں گی۔

سرکاری ذرائع نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ مریم اورنگزیب، مریم نوازاور چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان تینوں اس وقت جنیوا میں ہیں جبکہ ممکنہ طور پر منگل یعنی 12 نومبر کو یہ سب جنیوا سے لندن کے لیے روانہ ہوں گے اور نومبر کے وسط میں ان کی وطن واپسی ہوگی۔

اطلاعات کے مطابق مریم نواز ایک خصوصی چارٹرڈ طیارے میں جنیوا گئیں تھیں۔

اگرچہ وزیر اعلی کی چھٹی تو واضح نہیں لیکن وہ لاہور میں غیرموجودگی کے باوجود اپنے فرائض جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس کی ایک مثال صوبائی حکومت کا یہ 11 نومبر 2024 کا یہ اعلامیہ ظاہر کرتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے سرگودھا میں جائیداد کے تنازع پر تین خواتین پر تشدد کا نوٹس لے لیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے آر پی او سرگودھا سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری طرف صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کے حوالے سے معلوم ہوا کہ وہ اپنی والدہ کے ہمراہ عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئی ہوئی ہیں۔

انڈپینڈںٹ اردو نے مزید تفصیلات جاننے کے لیے سینئیر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب اور صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری سے بھی رابطے کی کوشش کی اور ان کے فونز پر پیغام بھی چھوڑے لیکن ان کی طرف سے فی الحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ اور مریم کے والد نواز شریف بھی ان کے ساتھ جنیوا میں موجود ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے بیرون ملک دورے کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیریسٹر سیف نے بھی اعتراض اٹھایا اور اپنے ایک بیان میں کہا کہ پنجاب کے لوگ سموگ کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری کا شکار ہیں، اس کے باوجود باپ بیٹی جنیوا کی تازہ ہوا سے لطف اندوز ہونے کے لیے سفر پر نکلے ہیں۔

سینیئر صحافی و تجزیہ کار سلمان غنی نے اس دورے کے حوالے سے انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے بیرون ملک دورے کی وجہ تو ان کا طبی معائنہ ہی بتایا گیا تھا ان کے ساتھ سینئیر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب اور پھر چیف سیکریٹری کی موجودگی کا بظاہر کوئی جواز نہیں بنتا۔‘

سلمان غنی کے خیال میں: 'سموگ کی خطرناک صورت حال میں وزیر ماحولیات کی یہاں موجودگی لازم تھی کیونکہ یہاں کروڑوں عوام کی صحت کا مسئلہ درپیش ہے البتٰہ چیف سیکرٹری کا ملک سے باہر جانے کا جواز نہیں تھا۔ اگر کوئی کانفرنس تھی تو کہا جا سکتا تھا کہ چیف سیکرٹری کی کسی تکنیکی معاونت کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔'

ان کا کہنا تھا: ’میرے علم میں ایسی کوئی معلومات نہیں کہ ان کا وہاں ہونا ضروری تھا البتہ حکومتی معاملات کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ وہاں سے روز مرہ کی بنیادوں پر ہدایات کا سلسلہ جاری ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ویسے بھی فیصلے حکومت کو کرنا ہوتے ہیں اور عمل درآمد افسر شاہی کے ذمے ہوتی ہے۔

’اب اگر حکومت اور بیوروکریسی دونوں کی قیادت ملک سے باہر ہوگی تو سوالات تو ہوں گے۔‘

صوبائی حکومت کی سموگ کے خلاف اکثر تدابیر عام لوگوں کو کوئی زیادہ فرق ڈالتے دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔

وزیر اعلی کی چھٹی یا غیرملک سے خدمات سرانجام دینے کے قوانین تو واضح نہیں لیکن ایک بیوروکریٹ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’سول سروس میں ملک سے باہر جانے کے لیے اپ کو ایکس پاکستان لیو منظور کروانی پڑتی ہے۔

’صوبے میں جو افسر پوسٹڈ ہوگا اسے اپنی چھٹی کی اجازت وزیر اعلی سے لینا ہوتی ہے اور اس چھٹی کے ساتھ ایک این او سی بھی جاری ہوتا ہے کہ یہ افسر ملک سے باہر جا رہا ہے جس کی اجازت اسے دی گئی ہے۔ اور وہ این او سی ایف آئی اے امیگریشن والے اپنے پاس رکھتے ہیں کہ یہ سرکاری افسر ہے اور اس کے پاس ملک سے باہر جانے کا اجازت نامہ ہے۔

’اس دوران ان کی غیرحاضری میں کوئی ایڈیشنل چیف سیکرٹری یا کسی اور سینئیر سیکرٹری کو یہ چارج دیا جاتا ہے اور وہ چیف سیکرٹری کے فرائض انجام دیتا ہے۔‘

اس افسر نے مزید بتایا: ’چھٹی پر جانے والا افسر اس وقت کے دوران بیرون ملک سے اپنے ماتحت کے ساتھ وٹس ایپ پر رابطے میں رہتے ہیں اور یہاں کے افسر ان کی غیر موجودگی میں بھی ان سے ہدایات لیتے رہتے ہیں۔ لیکن روزمرہ کے کاموں کے لیے کوئی نہ کوئی ان کی جگہ پر ہوتا ہے جو ان کی جگہ پر دستخط وغیرہ کر سکے کیونکہ انتظامات اور حکومت تو چلنی ہے اس نے تو نہیں رکنا۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہاں تک وزیر اعلی، وزیر اعظم یا صدر بھی کہیں جائیں تو ان کی جگہ کوئی دوسرا شخص ان کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ کوئی سینئیر منسٹر وزیر اعلی کے فرائض انجام دیتا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ وزیر اعلی نہیں ہے تو پوری حکومت کو ڈس فنکشنل کر دیں۔

'طریقہ کار یہ ہے کہ جب بھی وزیر اعظم یا وزیر اعلی ملک سے باہر جائے گا تو سپیکر اسمبلی یا کوئی اور سینئیر وزیر ان کی جگہ آجائے گا۔ یہاں تک کہ وزرا بھی جب باہر جاتے ہیں تو ان کی جگہ کوئی اور وزیر ان کی ذمہ داریاں سنبھال لیتے ہیں کہ اگر کوئی سمری جانی ہے تو اس پر دستخط وہی وزیر کرے گا جسے ان کی جگہ ذمے داری سونپی گئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعلی چونکہ صوبے کا چیف ایگزیکٹو افسر ہے اس لیے اسے ملک سے باہر جانے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن وہ اپنا پورا پروگرام نوٹیفائی کرتا ہے وہ اپنے چیف سیکرٹری، انسپکٹر جنرل و دیگر کو بتاتا ہے کہ میں اتنے دن ملک میں نہیں ہونا اور میرے ایڈمنسٹریٹو اشو میری جگہ کون دیکھے گا۔ طریقہ کار یہ ہی ہے۔‘

جنیوا سے لندن منگل کو پہنچنے پر میڈيا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ سموگ کے مسئلے کو چند سال میں چل کر دیں گے، ماضی میں سموگ کے مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔

دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ سموگ پر انتظامیہ، نوکر شاہی اور ایگزیکٹو نے سب کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے، شور مچایا جاتا ہے کہ چاول کی فصل کی باقیات جلانے سے سموگ ہوتی ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سموگ بھارت سے آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فصلوں کی باقیات تو موہن جو داڑو کے دور سے جلائی جا رہی ہیں، لاہور میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ٹرانسپورٹ سے ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات