گلگت بلتستان میں مصنوعی گلیشیئرز کے ذریعے پانی کی قلت کا حل

موسمیاتی تبدیلیوں کے  گلگت بلتستان پر بھی گہرے اثرات پڑے ہیں جس کے باعث موسم سرما میں یہاں برف باری کم اور موسم گرما میں برف پگھلنے میں کمی ہوئی ہے۔ 

سارا سال برف کی سفید چادر اوڑھے پاکستان کے دشوار گزار  اور بلند پہاڑوں کے دامن کھیتی باڑی کرنے والے کسانوں نے پانی کی کمی پورا کرنے کا انوکھا طریقہ اپنایا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے  گلگت بلتستان پر بھی گہرے اثرات پڑے ہیں جس کے باعث موسم سرما میں یہاں برف باری کم اور موسم گرما میں برف پگھلنے میں کمی ہوئی ہے۔ 

گلگت بلتستان، جہاں دنیا کی دوسری سب سے بلند چوٹی کے ٹو موجود ہے، کی خوبصورت وادیوں میں پانی کی دستیابی فصلوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔

وادی سکردو کے کسانوں نے قراقرم کے پہاڑی سلسلے کے سائے میں 2600 میٹر تک کی بلندی پر، اپنے سیب اور خوبانی کے باغات کو سیراب کرنے کے لیے آن لائن ایک طریقہ تلاش کیا۔

غلام حیدر ہاشمی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم نے یوٹیوب پر مصنوعی گلیشیئر (بنانے کا) دریافت کیے ہیں۔‘

انہوں نے پاکستان انڈیا سرحد کے اس پار 200 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر لداخ کے انڈین علاقے میں ماحولیاتی کارکن اور انجنیئر سونم وانگچک کی ویڈیوز دیکھی، جنہوں نے تقریباً 10 سال قبل یہ تکنیک اپنائی تھی۔

پانی کو ندیوں سے گاؤں تک پہنچایا جاتا ہے اور سردیوں کے منجمد درجہ حرارت کے دوران ہوا میں چھڑکایا جاتا ہے۔

یونیورسٹی آف بلتستان کے پروفیسر ذاکر حسین ذاکر نے کہا، ’پانی کو آگے بڑھانا چاہیے تاکہ جب درجہ حرارت صفر سے نیچے آجائے تو یہ ہوا میں جم جائے، جس سے برف کے ٹاور بنتے ہیں۔‘

ایسے بننے والے برف کے ڈھیر کی شکل برف بدھسٹ سٹوپا سے ملتی جلتی ہے اور یہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے نظام کے طور کام کرتی ہے۔ موسم بہار میں جب درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ سٹوپا پکھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ 

آئس سٹوپا

گلگت بلتستان میں 13000 گلیشیئرز ہیں، جو قطبی خطوں سے باہر زمین پر موجود کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔

ان کی خوبصورتی نے اس خطے کو ملک کے اعلیٰ سیاحتی مقامات میں سے ایک بنا دیا ہے۔ پرانی شاہراہ ریشم پر اونچی چوٹیاں اب بھی ایک شاہراہ سے دکھائی دیتی ہیں جو سیاحوں کو چیری کے باغات، گلیشیئرز اور برف کی نیلی جھیلوں کے درمیان لے جاتی ہیں۔

افغانستان سے میانمار تک پھیلا ہوا ہندوکش ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے ماہر شیر محمد نے تاہم کہا کہ زیادہ تر خطے کی پانی کی فراہمی موسم بہار میں برف کے پگھلنے سے ہوتی ہے۔

انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ  کے ایک محقق محمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اکتوبر کے آخر سے اپریل کے شروع تک، ہم پر شدید برف باری ہو رہی تھی۔ لیکن گذشتہ کچھ سال کافی خشک رہے۔‘

گلگت بلتستان میں پہلا آئس اسٹوپا 2018 میں بنایا گیا تھا۔

اب 20 سے زیادہ دیہات ہر موسم سرما میں انہیں بناتے ہیں، اور16000 سے زیادہ باشندوں کو آبی ذخائر کے بغیر پانی تک رسائی حاصل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہم آہنگ ہونے کا منصوبہ گلوف 2 شروع کیا گیا ہے۔

کسان محمد رضا نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس موسم سرما میں ان کے گاؤں حسین آباد میں آٹھ سٹوپا بنائے گئے تھے، جن میں تقریباً 20 ملین لیٹر پانی برف میں موجود ہے۔  

انہوں نے کہا، ’ہارے پاس اب پودے لگانے کے دوران پانی کی کمی نہیں ہے۔‘

وادی کے ایک کسان علی کاظم نے کہا، ’اس سے پہلے، ہمیں پانی حاصل کرنے کے لیے جون میں گلیشیئرز کے پگھلنے کا انتظار کرنا پڑتا تھا، لیکن سٹوپوں نے ہمارے کھیتوں کو بچا لیا۔

 قریبی پاری گاؤں میں آلو، گندم اور جو کی فصلوں کے لیے یہ طریقی اپنانے والے 26 سالہ بشیر احمد کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس صرف ایک موسم تھا، جبکہ اب ہم سال میں دو یا تین بار پودے لگا سکتے ہیں۔‘

پاکستان میں درجہ حرارت 1981 اور 2005 کے درمیان عالمی اوسط کے مقابلے میں دو گنا تیزی سے بڑھا، جس نے ملک کو آب و ہوا کی تبدیلیوں کے اثرات، بشمول پانی کی کمی کے فرنٹ لائن پر ڈال دیا۔

اس کی 24 کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی ایک ایسے علاقے میں رہتی ہے جو 80 فیصد بنجر یا نیم خشک ہے اور اس کے پانی کے تین چوتھائی سے زیادہ کے لیے پڑوسی ممالک میں نکلنے والے دریاؤں اور ندیوں پر منحصر ہے۔

پاکستان اور دنیا بھر میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جن میں قراقرم پہاڑی سلسلے سمیت چند مستثنیات شامل ہیں، سیلاب کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور طویل مدت میں پانی کی فراہمی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

24 سالہ یاسر پروی نے کہا، ’موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے، یہاں نہ امیر ہے نہ غریب، نہ شہری اور نہ ہی دیہی۔ پوری دنیا غیر محفوظ ہو گئی ہے۔

’ہمارے گاؤں میں ہم نے برف کے سٹوپا کو استمال کرتے ہوئے ایک چانس لینے کا فیصلہ کیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات