پاکستان کا زیر انتظام کشمیر شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے، جہاں طویل عرصے تک بارشیں نہ ہونے، موسم سے ہٹ کر بارش اور برف باری، زیر زمین پانی کی سطح گر جانا، دریاؤں، ندی نالوں اور چشموں میں پانی کی کمی، جنگلات میں آگ لگنے اور درجہ حرارت بڑھنے جیسے اثرات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔
کشمیر کے اکثر علاقوں میں موجود قدرتی چشمے خشک ہو چکے ہیں اور وہاں کے لوگ پانی کی شدید کمی سے متاثر ہیں۔
ضلع باغ کا گاؤں دھیر کوٹ، ناڑا کوٹ بھی اس سنگین مسئلے کے اثرات سے گزر رہا ہے۔ اس علاقے میں پہلے چار سو ہریالی اور قدرتی چشمے موجود تھے اور برف باری بھی اپنے معمول کے مطابق ہوا کرتی تھی لیکن گذشتہ 20 سالوں سے اس علاقے کا موسم تبدیل ہوچکا ہے۔
عثمان عباسی کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے اور وہ یہیں پلے بڑھے ہیں۔ یہاں موسمیاتی اثرات کی تباہی دیکھ کر انہوں نے اپنے طور پر ایک مہم شروع کرنے کا سوچا، جس میں وہ کشمیر میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے ایسے تالاب بنوانا چاہتے تھے جو خود ہی پانی کو جذب کر لیں، تاکہ زیر زمین پانی کی سطح کو ری چارج کیا جائے۔
عثمان عباسی ضلع باغ کی تحصیل دھیرکوٹ کے نواحی گاؤں ناڑا کوٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پچھلے 15 سال سے شعبہ تعلیم سے منسلک ہیں اور ایک نجی سکول میں بحثیت معلم اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’میرا پراسپیکٹیو گلوبل سٹیزن شپ ہے۔ اس میں ہم اکثر دنیا بھر میں ہونے والی سٹڈیز پڑھتے ہیں اور ماحول کی تباہی کو گہرائی سے جانچتے ہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، اپنے آس پاس سبزہ دیکھا، پانی کے چشمے اور آبشاریں دیکھیں، پانی کی کبھی کمی نہیں تھی۔
’میں نے اپنے علاقے میں پانچ فٹ تک برف پڑتے دیکھی مگر جوں جوں وقت گزرا، جنگلات کی تباہی، پانی کا کم ہونا، برف باری کا نہ ہونا، ماحول کے اندر آلودگی، کچرے جیسے سنگین مسائل اکٹھے ہو کر ہمارے سامنے ہیں، جنہیں کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے۔‘
عثمان عباسی کے مطابق31 دسمبر 2024 کو انہوں نے ایک قدم اٹھایا کہ ’بارش کے پانی کو ہم ذخیرہ کریں، واپس زمین کو دیں تاکہ ہمارے چشمے دوبارہ سے چل سکیں، کشمیر میں 80 فیصد چشمے خشک سالی کی وجہ سے خشک ہو چکے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’الله کا شکر ہے کہ میرے پلیٹ فارم سے ساڑھے پانچ سو سے زائد تالاب بن چکے ہیں، لوگوں نے مجھے ہر طرح سے سپورٹ کیا ہے، ابھی ہماری مہم جاری ہے اور پہلے مرحلے میں ہمارا ہدف کشمیر میں 10 ہزار تالاب بنانے کا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اسی طرح مری میں بھی 10 ہزار تالاب بنانے کا آغاز ہو چکا ہے۔ ان تالابوں کے لیے آغاز میں اپنی جیب سے فنڈنگ کی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس مہم میں پاکستان بھر اور کشمیر سے لوگ رضاکارانہ طور پر مدد بھی کر رہے ہیں۔
’میری یہ مہم آہستہ آہستہ پاکستان کے کونے کونے میں بھی پہنچ رہی ہے۔ یہ وہ واحد حل ہے جس سے ہم اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔‘
عثمان بتاتے ہیں کہ ’بین الاقوامی طور پر تحقیق ہو چکی ہے اور مختلف ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق 2040 تک پاکستان کے 80 فیصد علاقوں میں پانی کی شدید کمی ہوگی، اب ہمارے پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ ہم اس پر سوچیں۔ ہمیں فوری طور پر بارشوں کے پانی کو محفوظ بنانا ہے۔
’ہمیں اپنے جنگلات کو بچانا ہوگا، ہمیں اپنے چشمے محفوظ بنانے ہوں گے، جو زیر زمین پانی ہے اس کو بچانا ہے، اس کو ری چارج کرنا ہے، ہماری آبادی بھی بڑھ رہی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا ایسے علاقوں میں جہاں پانی کی کمی ہو، یا چشمے خشک چکے ہوں، وہاں بارش کے پانی کے لیے تالاب بنانے سے پانی کی سطح کو بلند کرتے ہوئے چشموں کو دوبارہ جاری کیا جا سکتا ہے؟ انڈپینڈنٹ اردو نے یہ سوال ماہر ماحولیات اور حکومت کشمیر کے شعبہ آب پاشی کے ڈی جی خواجہ بشارت سے کیا۔
بشارت درانی کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر جو معلومات آ رہی ہیں یہ بہت خوش آئند ہیں کہ لوگ ازخود اس بارے میں سوچ رہے ہیں کہ زمینی پانی کو کس طرح ری چارج کیا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عثمان صاحب نے واٹر ہارویسٹ سڑکچر کے حوالے سے جو قدم اٹھایا ہے، یہ بہترین ہے، مگر اس میں تجویز ہے کہ کسی بھی علاقے میں ایک یا دو تالابوں سے کام نہیں چلے گا، انہیں بڑی تعداد میں تالاب بنانے ہوں گے۔‘
بشارت درانی کے مطابق: ’آج ہمارے چشمے جو بالکل بند ہو چکے ہیں، وہ سب ری چارج ہو جائیں گے، اس کے علاوہ اردگرد کے پودے اور جانوروں کی نشو و نما ہو گی اور اس سے ماحول پر فرق پڑے گا، اس کے ساتھ ساتھ ہمارے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تالاب بنانے کی اس مہم میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شرکت کرنی چاہیے۔ کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں جہاں پانی کی شدید کمی ہے، وہاں متواتر اور بڑی تعداد میں تالاب بنانے ہوں گے تاکہ پورے علاقے کا گراؤنڈ واٹر بڑھ سکے۔‘
حکومت کشمیر اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے اور بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے کیا کر رہی ہے؟
اس سوال پر بشارت درانی کا کہنا تھا کہ ’محکمہ آب پاشی اس حوالے سے دو بڑے پراجیکٹ چلا رہا ہے، پہلا پراجیکٹ پانی کو محفوظ بنانا، دوسرا بارش کے پانی سے تالاب بنانا اور تیسرا سمال ڈیمز کے حوالے سے ہے۔ وفاقی حکومت کی وزارت آبی وسائل اور وزارت فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ اس پر بہت زیادہ کام کر رہی ہیں۔‘
ان کے مطابق: ’میں لوگوں سے یہ درخواست کروں گا کہ حکومت کی جانب سے اس حوالے سے دی جانے والی سہولیات سے بھی فائدہ اٹھائیں۔ حکومت کے تعاون سے بڑے تالاب اور چھوٹے ڈیمز بھی بنائے جا سکتے ہیں، جن سے نہ صرف پانی کے مسائل سے نمٹنے میں مدد ملے گی بلکہ پودوں، جانوروں اور ماحولیات کے لیے بھی نہایت بہتر فوائد دیکھنے کو ملیں گے۔‘