ایک اندازے کے مطابق آئندہ صدی کے آغاز تک دنیا کے 54 فیصد بچے براعظم افریقہ میں پیدا ہوں گے، جب کہ اگلے سو برس میں یہ براعظم ایشیا کو آبادی کے معاملے میں پیچھے چھوڑ دے گا۔ سوال ہے کہ کیا تب بھی ہالی وڈ انہیں اسی طرح پیش کرے گا جیسی ٹارزن جیسی فلموں میں دکھاتا چلا آیا ہے؟
سیاہ اور گندمی رنگت والوں کے خلاف سفید چمڑی والوں کی ایک مخصوص ذہنیت ہے، وہی جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلوں اور ہالی وڈ کی فلموں میں نظر آتی ہے۔
جنوبی افریقہ میں سفید چمڑی والے محض سات سے آٹھ فیصد ہیں، لیکن 70 فیصد سے زائد تجارتی اور زرعی زمینوں پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ جنوبی افریقہ پرانا حساب برابر کرنے کے لیے لینڈ ریفارمز کی کوشش کر رہا ہے جس کی ایک مثال حالیہ لینڈ ریفارمز بل ہے جسے رواں برس جنوری میں نافذ کیا گیا۔
یہ قانون حکومت کو عوامی مقاصد یا عوامی مفاد کے لیے جائیداد ضبط کرنے کا فریم ورک فراہم کرتا ہے، یہاں تک کہ بغیر معاوضے بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ اس بل کا مقصد ماضی کے نسلی امتیازی قوانین اور پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی زمین کی ملکیت کی تاریخی ناہمواریوں کو دور کرنا ہے۔
یہ بات سفید فاموں کے ایک بڑے حصے کے لیے ناقابل قبول ہے اور ان کی نمائندگی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کر رہے ہیں۔ چند روز قبل ٹرمپ نے افریقہ کی امداد روکتے ہوئے اسے لینڈ ریفارمز بل واپس لینے سے مشروط کر دیا۔
دوسری طرف دیگر خطوں میں کم ہوتی شرح پیدائش کے باعث افریقہ دنیا کا آبادیاتی مرکز بننے جا رہا ہے۔
2001 سے 2010 کے دوران، افریقہ کے چھ ممالک دنیا کی دس تیز ترین ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل تھے۔ معاملہ صرف معاشی اثر و رسوخ کا نہیں بلکہ ثقافتی غلبے کا بھی ہے۔ ممکنہ طور پر 2050 تک دنیا کے 85 فی صد فرانسیسی بولنے والے یورپین نہیں بلکہ افریقہ کے باسی ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ اور سفید فام نسل کے سیاسی فیصلے ہوں یا امریکی فلمیں اور ناول، تعصب چھلک چھلک پڑتا ہے۔ ہالی وڈ طویل عرصے سے سیاہ فام افریقیوں کی غیرمنصفانہ تصویر کشی کرتا آیا ہے جس کی ایک بہترین مثال ٹارزن کے کردار پر مبنی فلمیں ہیں۔
اس کی کہانی سب کو معلوم ہو گی۔ ان فلموں میں ایک سفید فام شخص کو زبردست ہیرو دکھایا گیا ہے جو طاقت، ذہانت اور قائدانہ صلاحیتوں میں مقامیوں سے کہیں برتر سطح پر ہے، جب کہ سیاہ فام افریقی بندروں کی سطح پر اس انتظار میں زندگی گزارتے ہیں کہ کوئی سفید فام نجات دہندہ آئے گا اور آ کر ان پر حکمرانی کرے گا۔
ایک اور مثال 2006 کی فلم ’بلڈ ڈائمنڈ‘ ہے۔ یہ ڈینی آرچر (لیونارڈو ڈی کیپریو) نامی ایک سفید فام ہیرے کے سمگلر اور سولومن وینڈی (جمن ہونسو) نامی ایک افریقی ماہی گیر پر مبنی ہے جس کا بیٹا باغیوں کے ہاتھوں اغوا ہو جاتا ہے۔ اگرچہ سولومن کی کہانی جذباتی اور طاقتور ہے، لیکن فلم زیادہ تر آرچر کے کردار پر مرکوز رہتی ہے، جو ایک لالچی سمگلر سے بدل کر ایک ہمدرد اور قربانی دینے والے انسان بن جاتا ہے۔
یہ صرف دو مثالیں ہیں ورنہ ہالی وڈ میں ’سفید فام نجات دہندہ‘ کا تصور عام ہے جہاں کالوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک سفید فام ہیرو میدان میں قدم رکھتا ہے اور ڈوبتی نیا پار لگا دیتا ہے۔
’بلڈ ڈائمنڈ‘ میں اگرچہ سولومن اپنے خاندان کو بچانے کے لیے پرعزم ہے، لیکن فلم کا اختتام آرچر کی قربانی کے ساتھ ہوتا ہے، گویا افریقیوں کی کامیابی تبھی ممکن ہے جب کوئی مغربی شخص ان کی مدد کرے۔
’بلڈ ڈائمنڈ‘ میں سیاہ فام افریقیوں کو یا تو مظلوم دکھایا گیا ہے یا تشدد پسند۔ یعنی جیسے زندگی کا نارمل رویہ مفقود ہو۔
ان فلموں سے تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ افریقہ محض ایک جنگ زدہ، غیر مہذب خطہ ہے، جہاں یا تو لوگ مظلوم ہیں یا مجرم۔
ایسی ہی فلموں کی چند اور مثالیں ’دا لاسٹ کنگ آف سکاٹ لینڈ‘ (2006) اور ’ٹیرز آف دی سن‘ (2003) ہیں جہاں سفید فام کردار کو ہر معاملے کے مرکز میں رکھا گیا جبکہ مقامی سیاہ فام افراد کہانی کے پس منظر میں رہتے ہیں۔
یہاں تک کہ ’ہوٹل روانڈا‘ (2004) جیسی فلم، جو روانڈا کے ایک ہوٹل مینیجر کی سچی کہانی پر مبنی ہے، میں بھی مغربی صحافیوں اور سفارت کاروں کو اہم کردار دے کر کہانی کو مغربی زاویے سے پیش کیا گیا ہے۔
مگر ہالی وڈ میں ان دقیانوسی رجحانات کی وجوہات کیا ہیں؟
کیوں کہ ہالی وڈ کا بنیادی ہدف مغربی ناظرین ہوتے ہیں، اس لیے کہانیوں کو ان کی دلچسپی کے مطابق ڈھالا جاتا ہے۔ ’سفید نجات دہندہ‘ جیسا تصور مغربی سامعین کو اپنی برتری محسوس کرانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
ہالی وڈ میں کم ہی افریقی فلم سازوں کو بڑے پروجیکٹس پر کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں اکثر کہانیاں مغربی نقطہ نظر سے بیان کی جاتی ہیں۔
ماضی میں نوآبادیاتی طاقتوں نے افریقہ کو ایک غیر مہذب اور پسماندہ خطہ سمجھا جسے مہذب بنانے کی ضرورت ہے۔ یہی تصور ہالی وڈ کی متعدد فلموں میں نظر آتا ہے، جہاں سفید فام کردار انصاف اور ترقی لاتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں۔
ٹرمپ کی ذہنیت اور ہالی وڈ کی فلمیں اپنی تمام تر طاقت کے باوجود افریقہ کو کب تک اپنی مرضی سے نچاتے رہیں گے؟
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔