یہاں فلیٹس میں نیچے شام کو بچے اکٹھے ہو کر کھیلتے ہیں۔ ایک بچہ اپنی بہن کو روز آواز دیتا ہے؛
’عائشہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ‘
مجھے دیوداس فلم کا وہ سین یاد آ جاتا ہے جب فلیش بیک میں شاہ رخ خان کو آواز پڑتی تھی ’دیواااااا۔‘
اس بچے کی آواز گونجتی ہے چونکہ فلیٹ چاروں طرف ہیں اور بیچ میں وہ کمپاؤنڈ ہے۔ چڑیاں، کوے، مینا، کچھ گمنام پرندے اور وہ سارے بچے جو نیچے کھیل رہے ہوتے ہیں، عصر کے بعد سے اس بات کو یقینی بنانے میں لگ جاتے ہیں کہ اندھیرا پڑنے تک ایک بھی لمحہ ضائع نہ ہو۔
مغرب کے آس پاس شاید ان کے کھیل کا وقت ختم ہوتا ہے یا وہ لوگ چھپن چھپائی ٹائپ کچھ کھیلتے ہیں کیونکہ وہ آوازیں زیادہ تر اُسی وقت آتی ہیں۔
یہ بڑا عجیب سا وقت ہے، اندھیرا پوری طرح ہوا نہیں ہوتا، روشنی جا رہی ہوتی ہے، صبح جب سورج نکلتا ہے تب بھی تھوڑی دیر کو ایسا وقت آتا ہے لیکن یہ شام ڈھلنے والا سین زیادہ سخت ہوتا ہے۔ اس ٹائم اگر آپ گاڑی چلا رہے ہیں تو ہیڈ لائٹس جلانے بجھانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ کوئی مخصوص قسم کا اندھیرا ہوتا ہے، روشنی پروف، تھوڑے وقت کے لیے ہوتا ہے لیکن اگر آپ ہائی وے پہ ہوں تو اتنی دیر میں بھی آنکھیں تھکنے لگ جاتی ہیں۔
شام کو اگر خدا نے درختوں کا جھنڈ کہیں آس پاس نصیب کیا ہوا ہے تو وہاں جا کے دیکھیں، اندھیرا پھیلنے سے عین پہلے چڑیاں وہ سارے درخت سر پہ اٹھا لیتی ہیں اور اندھیرا مکمل ہوتے ہی ایسی گم جیسے کوئی اس نام کا پرندہ ہی نہیں تھا۔
اس وقت واک کرنا مجھے زیادہ پسند ہے، بلکہ مجھ سے پوچھیں تو بھری دوپہر میں بھی نکل سکتا ہوں باغ میں، صرف اس لیے کہ شام کو لوگ زیادہ ہوں گے، بار بار کراسنگ پڑے گی، ایویں کوفت ہو گی، لیکن صبح؟ اس وقت میں تب واک کروں گا جب مولا مجھے بوڑھا کر دے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صبح سویرے کی آکسیجن پہ میرے خیال میں بزرگوں کا حق زیادہ ہے یا ان لوگوں کا جنہیں ڈاکٹر نسخے پہ لکھ کر دیتا ہے کہ روزانہ صبح ایک گھنٹہ آپ نے چلنا ہے ورنہ آپ نے چلے جانا ہے۔ علی الصبح ویسے بھی ٹریک پہ مجبور اور اداس چہرے زیادہ ہوتے ہیں، دن کا آغاز ہی ایک دوسرے کے ڈپریشن بھرے منہ کو دیکھ کے ہو، کیا فائدہ؟
اس بچی عائشہ کو اگر دن میں کوئی آواز پڑ جائے تو میں باقاعدہ گھڑی دیکھ کے تسلی کرتا ہوں کہ یار کہیں شام تو نہیں ہو گئی۔ کبھی کبھار میں چھت پہ چلا جاتا ہوں، نیچے دیکھتا رہتا ہوں لیکن وہاں جاتا نہیں کبھی بھی، بچے، چڑیاں، دانہ کھاتے کبوتر، نظریں جھکا کے سڑک پہ گزرتی لڑکیاں، کسی وجہ سے شرمندہ کوئی بھی انسان، ان سب کو بس دور سے نظر پڑ جائے تو ٹھیک، قریب سے دیکھنا شاید انہیں پریشان کرتا ہو۔
میری شام ایسے ہی شروع ہوا کرتی تھی۔ گھر کے اندر شاید ہی کوئی شام پڑی ہو، باہر گلی میں کھیل رہا ہوتا تھا، دادی کی آواز آتی دروازے سے، چنداااااااا، دوسری تیسری آواز پہ واپس چلا جایا کرتا، اس وقت مغرب میرا سنڈریلا ٹائم ہوا کرتا تھا۔ مغرب پہ واپسی نہ ہونے کی صورت میں ابو جب دفتر سے آتے تو بس ایک ہی آواز آتی ۔۔۔ حسنین ۔۔۔ اس میں حے اور سین پہ کوئی زور نہ ہوتا، آخری یے اور نون پہ جھٹکے والا زور ہوتا تھا۔ حسنے ین، یہ آواز گردن ایڑھیاں سب کچھ گھما دیتی۔
اب آزادی ہے، کوئی آواز نہیں دیتا لیکن شام کے بعد اب باہر نکلنے کا دل بھی نہیں چاہتا۔ کیا کرنا ہے؟
دیواااااا، چنداااااا، عائشہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ شام اب کان پڑتی آوازوں کی ایک گونج ہے۔.
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔