نسل پرستی کیسے پروان چڑھی؟

مغربی ممالک نے دوسری قوموں کے استحصال کے لیے نسل پرستی کا نظریہ اپنایا جس کے تحت دوسرے انسان ان سے نسلی اور جسمانی طور پر کمتر تھے۔

17ویں صدی میں امریکی ریاست ورجینیا میں غلام تمباکو پلانٹیشن پر کام کرتے ہوئے (پبلک ڈومین)

نسل پرستی کے نظریے کو یورپ کے سامراجی ملکوں نے اختیار کر کے سفید فام نسل کو اعلیٰ اور برتر ثابت کیا۔ غیر یورپی اقوام ان کے نزدیک غیر مہذب کمتر، کاہل، سست اور جاہل تھیں اور ان کی جسمانی خصوصیات بھی بدشکل اور بھَدی تھیں۔

جب 1492 میں کولمبس نے حادثاتی طور پر امریکہ دریافت کیا تو اہلِ ہسپانیہ کو اس کے باشندے تہذیبی اور جسمانی طور پر مختلف نظر آئے۔ کولمبس ان میں سے کچھ باشندوں کو واپسی پر سپین لایا اور انہیں بطور نمائش ملکہ ازابیلا اور فرنینڈس کے دربار میں پیش کیا۔

سپین والوں کے لیے یہ باشندے ان کے مقابلے میں کم تر تھے اور انسانی درجے سے گِرے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ سے ان میں نسل پرستی کا جذبہ پیدا ہوا۔

اس کی دوسری مثال بیلجیئم کی ہے۔ کانگو اس کی کالونی تھا۔ یہ کانگو کے افریقی باشندوں کو بیلجیئم لے کر آئے اور ان کی نمائش کے لیے بیلجیئم کے صدر مقام برسلز میں ایک انسانی چڑیا گھر قائم کیا، جہاں ان افریقیوں کو نمائش کے لیے رکھا گیا۔

بیلجیئم کے باشندے ان کو ایسے ہی دیکھنے آتے تھے جیسا کہ وہ چڑیا گھر میں جانوروں کو دیکھتے تھے۔

جب اہلِ ہسپانیہ نے لاطینی امریکہ کو فتح کیا تو یہ اپنے ساتھ نسلی تعصب اور نفرت کو لے کر گئے اور مقامی آبائی باشندوں کے ساتھ تحقیر آمیز سلوک کیا۔ اس کا پسِ منظر یہ تھا کہ 1492 میں سپین نے یہودیوں کو ملک بدر کر دیا تھا۔

جو یہودی اور مسلمان یہاں رہنے پر مجبور تھے، انہیں مسیحی بنا دیا اور ان کی نگرانی کی گئی کہ وہ اپنے سابقہ مذاہب پر خفیہ طور پر عمل نہ کریں۔

اس ذہنیت کے ساتھ جب اہلِ سپین لاطینی امریکہ میں آئے تو مقامی آبائی باشندے ان کے لیے نامکمل انسان تھے کیوں کہ وہ ان کے مذہب کو ماننے والے نہیں تھے۔

ان کو گمراہی سے بچانے کے لیے پوپ نے یہ فرمان جاری کیا کہ مشنریز انہیں مسیحی بنائیں تاکہ آخرت میں ان کی نجات ہو سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سپین کے باشندے جو وہاں آباد ہو گئے تھے۔ ان کے دو مقَاصد تھے۔ ایک تو مقامی باشندوں سے ان کی زمینیں چھین کر سفید فام نوآباد کاروں کو دے دیں کیونکہ یہ سفید فام طبقہ فوجی لحاظ سے طاقتور تھا، اس کے پاس مہلک ہتھیار تھے جبکہ مقامی باشندے نہ صرف کمزور تھے اور جدید اسلحہ نہ ہونے کی وجہ سے اہلِ سپین کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔

لہٰذا ہسپانیوں نے اپنا اقتدار مضبوط کر کے مقامی باشندوں سے زبردستی محنت و مشقت کروائی۔ انہی سے چھینی ہوئی زمینوں پر انہیں کھیتی باڑی کرنے پر مجبور کیا۔ زمین کی آمدنی سپین کے فیوڈل لارڈز کے پاس جاتی تھی۔

دوسرے انہیں چاندی اور سونے کی کانوں پر کام کے لیے مجبور کیا، کیونکہ مقامی باشندے اس کے عادی نہ تھے، اس لیے محنت و مشقت اور یورپی بیماریوں کی وجہ سے وہ بڑی تعداد میں مرنے لگے۔

اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اہلِ سپین نے افریقہ سے غلاموں کو درآمد کیا اور انہیں کان کنی کی مزدوری پر لگایا۔ سیاہ فاموں کے آنے پر نسل پرستی کی ایک اور شکل ابھری، جس کی بنیاد رنگ پر تھی۔ اپنے کالے رنگ کی وجہ سے افریقی غلاموں کو کمتر سمجھا جانے لگا۔

مقامی باشندوں اور افریقی غلاموں کے درمیان فرق یہ تھا کہ مقامی باشندوں کے اپنے قبائل تھے، ان کے دیہات اور زمینیں تھیں، قبائلی شناخت تھی۔ ان کے مقابلے میں سیاہ فاموں کے پاس زمین تھی نہ جائیداد، نہ قبائلی شناخت۔

اس لیے ان کا استحصال کرنا آسان تھا۔ یہ اس قابل بھی نہیں تھے کہ اپنے حقوق کے لیے کوئی تحریک چلا سکیں۔

لاطینی امریکہ کی سیاسی صورت حال اس وقت بدلی جب انیسویں صدی میں یہاں سفید فام نسل کے لوگوں نے سپین کے خلاف بغاوتیں کر کے نئے ملک قائم کیے۔ کہنے کو تو یہ قومی ریاستیں تھیں مگر ان میں اقتدار سفید فام ہسپانویوں کے پاس تھا۔ یہ طبقہ کریول کہلاتا تھا۔

مقامی باشندوں اور سیاہ فاموں کو نئی تشکیل شدہ قوم میں مساوی مقام نہیں دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مقامی باشندوں میں آہستہ آہستہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے انقلابی تحریکیں اٹھنا شروع ہوئیں۔

ان کی وجہ سے لاطینی امریکہ میں ان دو نسلوں کے درمیان تصادم ہوا۔ مقامی باشندوں کی تحریکوں کو کچلا تو گیا مگر ان میں جو آزادی کا شعور پیدا ہوا تھا وہ ختم نہیں ہو سکا اور انقلابی تحریکیں برابر مضبوط ہوتیں رہیں۔

اگرچہ مقامی باشندوں نے ہسپانوی زبان بھی سیکھ لی تھی اور ان کے کلچر کو بھی ضرورت کے تحت اختیار کر لیا تھا مگر انہوں نے اپنی روایات اور کلچر پر اپنی شناخت کی بنیاد رکھی۔

ان میں سے جو مسیحی ہو گئے تھے، انہوں نے بھی اپنے عقائد کو ختم نہیں کیا، جس کی وجہ سے لاطینی امریکہ میں مسیحیت کی ایک نئی شکل ابھری۔

وقت کے ساتھ مقامی باشندوں کو اس بات کا بھی احساس ہوا کہ سفید فام اقلیت میں ہیں اور وہ اکثریت میں، اس لیے ان کی جو انقلابی تحریکیں ابھریں اس پر سوشل ازم کے نظریے کا بہت اثر تھا۔

اس کے ساتھ ہی سفید فام اقلیت میں ایسے افراد بھی آگے آئے، جو نسلی تعصبات کو ختم کر کے ہسپانوی اور مقامی آبائی باشندوں کو ایک قوم بنانا چاہتے تھے۔

اس سلسلے میں مزید تبدیلیاں اس وقت آئیں جب جمہوری نظام کا قیام عمل میں آیا اور انتخابات کی ابتدا ہوئی۔ اگرچہ اس عمل میں اس وقت رکاوٹ پیدا ہو جاتی تھی جب کسی ملک میں فوجی آمریت آ جاتی تھی، لیکن مقامی باشندوں کی تحریکوں نے ان رکاوٹوں کو توڑا۔

اپنی کمزوری کو اتحاد کی شکل میں طاقت میں تبدیل کیا اور بالآخر اپنا مساوی مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

لاطینی امریکہ میں نسل پرستی کے نظریے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی قوم کو طاقت اور بااختیار ہو کر زیادہ عرصے غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ آزادی کا جذبہ ابھرتا ہے تو اس کی خاطر لوگ اپنی جانیں قربان کر کے اپنی قوم کو حقوق دِلاتے ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ