راجہ تسلیم احمد کیانی کا تعلق ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ سے ہے۔ انہوں نے اپنے زرعی فارم میں 12 ایکڑ پر گندم کاشت کر رکھی ہے۔ گذشتہ تین ماہ سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے ان کی 50 فیصد فصل تباہ ہو چکی ہے اور جو بچ گئی ہے وہ بھی اگر آئندہ چند روز میں بارشیں نہ ہوئیں تو بری طرح متاثر ہو گی۔
راجہ تسلیم احمد کیانی نے بتایا: ’میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنی خشک سالی نہیں دیکھی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ گندم کی فصل سبز سے پیلی اور پھر چھوٹے چھوٹے سٹے نکالنے کے بعد خشک ہوتی جا رہی ہے۔‘
ماہرین کہتے ہیں کہ یہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں لیکن کسانوں کو نہ اس کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے اور نہ ہی تیار کیا گیا ہے کہ اگر وقت پر بارشیں نہیں ہوتیں تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔
راجہ تسلیم احمد کیانی نے بتایا کہ اس علاقے میں وہ شاید واحد کاشت کار ہیں جنہوں نے ازخود ہی ایک چھوٹا سا ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کیا ہوا ہے، جس سے ان کی پانچ ایکڑ پر لگائی گئی فصل کی بچت ہو گئی، وگرنہ ساری فصل ہی برباد ہو جاتی۔
انہوں نے کہا کہ ’حکومت بارانی علاقوں میں اگر کسانوں کو چھوٹے ڈیم بنانے میں سہولتیں فراہم کرے تو اس طرح سے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے فصلوں پر ہونے والے منفی اثرات کم کیے جا سکتے ہیں۔‘
گندم کی پیداوار میں آٹھواں بڑا ملک، مگر فی ہیکٹر پیداوار میں 56 ویں نمبر پر
پاکستان دنیا میں گندم کی پیداوار کے حوالے سے دنیا میں آٹھواں بڑا ملک ہے لیکن اگر بات کی جائے فی ہیکٹر پیداوار کی تو اس حوالے سے پاکستان کا دنیا میں 56 واں نمبر ہے۔ پاکستان نے پچھلے 30 سالوں میں گندم کی پیداوار میں نمایاں بہتری حاصل کی ہے۔ 1990 میں پاکستان میں گندم کی پیداوار 1.44کروڑ ٹن تھی، جو 2011 میں ڈھائی کروڑ ٹن ہو گئی۔
اس طرح صرف 20 سالوں میں پاکستان میں گندم کی پیداوار میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کے بعد کے سالوں میں پیداوار میں اضافے کا یہ تناسب برقرار نہیں رہ سکا اور 2021 تک گندم کی پیداوار 10 فیصد اضافے کے ساتھ پونے تین کروڑ ٹن رہی، جس کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی ہیں۔
اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کے زرعی شعبے کا پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں حصہ 22.9 فیصد ہے جبکہ 37.4 فیصد ملازمتیں اس شعبے کی مرہون منت ہیں۔ پاکستان میں گندم کی مجموعی پیداوار میں پنجاب اور سندھ کا حصہ 90 فیصد ہے۔ پاکستان میں گندم کی کل کھپت 3.2 کروڑ ٹن ہے جبکہ پیداوار ڈھائی کروڑ سے 2.8 کروڑ ٹن کے درمیان رہتی ہے۔ باقی کمی گندم کی درآمد سے پوری کی جاتی ہے۔ اس سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں گندم کا درآمدی بل بڑھ جائے گا۔
صرف بارانی نہیں نہری علاقہ بھی متاثر ہے
ڈاکٹر مقصود قمر نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سینٹر (این اے آر سی) میں پرنسپل سائنٹیفک آفیسر ہیں اور ویٹ پروگرام لیڈر بھی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسلام آباد میں آخری بارش پچھلے سال چھ اکتوبر کو ہوئی تھی اور اس کے بعد سے مسلسل خشک سالی چل رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول ڈاکٹر مقصود قمر: ’تقریباً یہی حال باقی بارانی علاقے کا بھی ہے، جس کا سب سے شدید اثر گندم کی فصل پر ہوا ہے۔ 15 نومبر تک گندم کی فصل ٹھیک چل رہی تھی، لیکن اس کے بعد بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے فصل خراب ہونا شروع ہو گئی اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بارشیں نہ ہونے سے اور مناسب نمی نہ ملنے کی وجہ سے اس کی 70 فیصد جنریشن متاثر ہو چکی ہے۔
’اس کی ذیلی شاخیں نہیں نکلیں اور جو اکیلی شاخ بنی، اس نے بھی سٹہ نکال لیا ہے، جس پر دانے کم ہوں گے اور وہ بھی بہت چھوٹے ہوں گے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بارانی علاقے میں گندم کی صورت حال کتنی تشویش ناک ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں گندم کے زیر کاشت رقبے میں 20 سے 25 فیصد بارانی ہے مگر گندم کی مجموعی پیداوار میں اس کا حصہ 10 فیصد ہے۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے صرف بارانی علاقہ ہی متاثر نہیں ہو گا بلکہ نہری علاقوں میں درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے وہاں بھی گندم کی پیداوار پر فرق پڑے گا۔
’پاکستان میں اس سال گندم ویسے ہی کم رقبے پر کاشت ہوئی ہے جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ این اے آر سی سے مصدقہ بیج لینے والوں کی لائنیں لگتی تھیں مگر اس بار نہ لائن لگی، نہ کوئی سفارش آئی، بلکہ ہم کسانوں کی منتیں کرتے رہے کہ بیج لے جائیں، ٹرانسپورٹ کا خرچہ بھی ہم دیں گے، پھر بھی ہمارا بیج بچ گیا اور فروخت نہیں ہوا۔‘
اس سال گندم کیوں کم کاشت کی گئی؟
میاں عمیر مسعود مرکزی کسان اتحاد کے صدر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گندم کے کاشت کاروں کو پچھلے سال ایک ہزار ارب روپے کا نقصان ہوا تھا کیونکہ ان کی گندم خریدنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے بارانی ایریا کی گندم کی فصل تباہ ہو چکی ہے اور میدانی علاقوں کی بھی شدید متاثر ہے۔‘
بقول عمیر مسعود: ’پہلے ہی گندم کی کاشت 30 فیصد کم ہوئی ہے اور بارشیں نہ ہونے کا عنصر بھی اگر اس میں شامل کر لیا جائے تو اس سال گندم کی پیداوار پچھلے سال کی نسبت 50 فیصد کم ہو گی۔ یہ عملی صورت حال ہے، جو کسان اتحاد پیش کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب سرکاری بابو اپنی نوکریاں بچانے کے لیے حکومت کو گمراہ کن اعدادوشمار پیش کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے گندم کی کاشت کا 98 فیصد حاصل کر لیا ہے، جس کے ثبوت کے طور پر وہ کہہ رہے ہیں کہ اس سال 50 فیصد کھاد زیادہ فروخت ہوئی ہے، حالانکہ ہماری اطلاعات کے مطابق فیکٹریوں میں کھاد سرپلس پڑی ہوئی ہے اور خریدار نہیں مل رہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کسان اتحاد موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے محسوس کر رہا ہے کہ پاکستان میں گندم کا شدید بحران آنے والا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر پہلے ہی پاسکو کو غیر مؤثر کر دیا ہے، اس سال وہ بھی گندم نہیں خرید رہا جبکہ حکومت کے پاس 11 لاکھ ٹن کے ذخائر موجود ہیں، جو مارکیٹ کی ضرورت کے لیے بہت ہی کم ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’گندم کی فصل میں پچھلے سال سرکاری پالیسیوں کی وجہ سے اور اس سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے کسان کو جو نقصان ہو چکا ہے، اس کا اثر اب خریف کی فصلوں پر بھی پڑے گا کیونکہ اس کی کاشت کے لیے کسان کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں رہے۔‘
نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کی وزارت کے ڈپٹی فوڈ سکیورٹی کمشنر ڈاکٹر محمد آصف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ہماری وزارت صوبوں، پاسکو اور سپارکو سے ڈیٹا حاصل کر رہی ہے کہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے گندم کی فصل کو کتنا نقصان ہوا ہے یا ہونے کا خدشہ ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’اس حوالے سے ابھی تک ہمارے پاس ایسا کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے، جس کی بنیاد پر ہم کوئی بھی بیان جاری کر سکیں، تاہم عمومی صورت حال خشک سالی کی طرف ہی لگ رہی ہے۔‘