پنجاب میں اس سال گندم کی بہت اچھی فصل حاصل ہوئی ہے لیکن کاشتکاروں کو کم حکومتی نرخ کے باوجود خریداری نہ ہونے پر پریشان کا سامنا ہے۔
حکومت نے اس سال گندم کی خریداری کا حدف 3900 روپے فی من مقرر کیا ہے، جب کہ گذشتہ برس یہ نرخ 4000 روپے تھا۔
پنجاب میں گندم کی کٹائی شروع ہو چکی ہے لیکن فروخت حکومتی نرخ سےکم پر بھی نہیں ہو رہی۔
کسان اتحاد کے ایک دھڑے نے 29 اپریل سے مال روڑ پر دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔
کاشتکاروں کے مطابق فلور ملز گندم 2000 سے 2200 روپے فی من کے نرخ پر خرید رہی ہیں اور حکومتی اعلان کے باوجود انہوں نے ابھی تک خریداری شروع نہیں کی۔
صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین کے مطابق: ’پنجاب میں ان دنوں ضرورت سے زیادہ 26 ہزار میٹرک ٹن درآمدی گندم گوداموں میں موجود ہے، جو نگران حکومت نے منگوائی تھی۔
’لاکھوں درخواستیں باردانے کی موصول ہوئی ہیں ہم 40 لاکھ میٹرک ٹن گندم نہیں خرید سکتے۔ اس سے تین سے چار سو ارب روپے کا نقصان ہو گا۔‘
محکمہ خوراک پنجاب کی جانب سے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’کاشتکاروں سے باردانہ کے اجرا کے لیے پی آئی ٹی بی (پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ) کی موبائل ایپ کے ذریعے 13 اپریل سے 17 اپریل کو وصول کی گئیں۔
اعلامیہ کے مطابق پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اور پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کی تصدیق کے بعد کسانوں کو باردانہ ایپ کے ذریعے تصدیقی پیغامات موصول ہوں گے۔
’باردانہ کا اجرا آئندہ جمعے سے شروع ہو گا، جو پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر ہو گا۔‘
پنجاب میں گندم کی خریداری کے 393 مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں 22 اپریل سے کسانوں سے 3900 روپے فی من پر گندم خریدی جائے گی۔
گندم خریداری میں حکومت کو درپیش چیلنجز
صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری حکومت ایک ماہ پہلے آئی ہے مگر اس سے پہلے سرکاری گوداموں میں 26 لاکھ میٹرک ٹن گندم کا سٹاک موجود ہے۔ جو نگران حکومت نے درآمد کر رکھی ہے ہمارے گوداموں میں گندم رکھنے کی جگہ موجود نہیں۔ حکومت جو گندم خریدے گی وہ بھی جگہ کرائے پر لے کر رکھی جائے گی۔‘
بلال یاسین کے بقول، ’خریداری ضرور ہو گی مگر پہلے سے آدھی خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تین لاکھ 60 ہزار درخواستیں موصول کی جارہی ہیں۔ جن سے درخواستیں موصول ہوئی ہیں ان سے گندم ضرور خریدیں گے۔ اگر ساری گندم خریدیں تو حکومت کو تین سے پانچ سو ارب روپے تک نقصان ہو گا۔‘
صوبائی وزیر خوراک نے کہا کہ ’کسانوں کے نمائندوں کی وزیر اعلی مریم نواز سے ملاقات بھی ہوئی ہے۔ ہم کسانوں کو کسان کارڈ دے رہے ہیں جس سے انہیں کھادیں، بیچ اور سپرے سستے دام میں ملیں گے۔ حکومت سبسڈی دے نہیں سکتی کیونکہ آئی ایم ایف نے سبسڈی دینے سے منع کیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے جو پالیسی بنائی ہے اس کے مطابق صرف چھ ایکڑ والے کاشتکار حکومت کو 3900 روپے فی من کے ریٹ سے گندم فروخت کر سکیں گے۔ چھ ایکڑ کے مالک کسان کو فی ایکڑ چھ بیگ کے حساب سے 36 تھیلے باردانے کے فراہم کیے جائیں گے۔‘
کسانوں کا ردعمل
چیئرمین کسان اتحاد پاکستان خالد حسین باٹھ اور مرکزی صدر میاں عمیر کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ’گذشتہ سال حکومت نے کسانوں گندم لگانے کی ترغیب دی اور انہوں نے پہلے سے زیادہ فصل لگائی۔ مگر اب گندم خریدی نہیں جا رہی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیان میں کہا گیا کہ ’بجلی مہنگی، مہنگا ڈیزل اور بلیک میں کھاد لے کر کسانوں نے گندم لگائی مگر اس کو نرخ نہیں مل رہا۔ گذشتہ سال گندم کا سرکاری ریٹ 4000 روپے من تھا جب کہ اس بار صرف 3900 روپے سرکاری ریٹ مقرر کیا گیا ہے۔‘
بیان میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ نگران حکومت پاکستانی کسانوں کی فصلوں کا سوچے بغیر 22 لاکھ ڈالر کی گندم بیرون ملک سے منگوائی۔
’فلور ملز والے 2200 اور 2400 میں گندم خرید رہے ہیں۔ چھ ایکڑ والے کو ایک ایکڑ کے عوض چھ بیگ دیے جا رہے ہیں۔ جو پالیسی بنائی گئی ہے اس سے کسان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ جنوبی پنجاب میں تو وٹس ایپ نہیں چلتا وہاں پر ایپ کیسے چلے گی؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ملتان اور بہاولپور ڈویژنوں میں 70 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی پیداوار ہوئی اس کا کسان کیا کریں؟‘
بیان میں نے اعلان کیا گیا کہ ’اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو 29 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے سامنے پورے پاکستان کے کسان دھرنا دیں گے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’شوگر مافیا نے کسانوں کا پیسہ نیچے لگا رکھا ہے۔ اگر آپ ان مافیاز کو کنٹرول نہیں کر سکتے تو بارڈر کھول دیے جائیں۔ ہم افغانستان اور دوسرے ہمسائیہ ممالک کو گندم بیچ کر ملک میں زرمبادلہ لائیں گے۔‘