اسلام آباد ٹی چوک پر روات کا قلعہ واقع ہے جو کبھی سرائے تھی اور جی ٹی روڈ پر گزرتے تجارتی قافلوں کی قیام گاہ کا درجہ رکھتی تھی۔
جب شیر شاہ سوری اور گکھڑوں کی دشمنی شروع ہوئی تو گکھڑوں نے اس سرائے کو فوجی مقاصد کے لیے ترقی دے کر ایک چھوٹے قلعے میں بدل دیا۔ یہیں پر گکھڑ سلطان سارنگ خان اپنے خاندان کے 16 افراد سمیت مدفون ہیں جو 1548 میں شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ کے ساتھ روہتاس قلعے کے ارد گرد جنگ میں مارے گئے تھے۔
بظاہر سلیم شاہ فتح یاب ہوا مگر اس کے کچھ عرصے بعد ہی جب ہمایوں سلیم شاہ سے اپنا کھویا ہوا تخت واپس لے کر دلی میں داخل ہوا تو اس کے ساتھ سلطان سارنگ خان کا بھائی آدم خان بھی تھا جس سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی کہ دلی جس نے بھی فتح کیا، گکھڑ اس کے ہمرکاب تھے۔
معرکہ روہتاس جس میں سلطان سارنگ خان اپنے خاندان کے 16 افراد کے ساتھ مارا گیا وہ کیوں ہوا تھا؟
راولپنڈی کے گزیٹیئر، رائے بہادر دونی چند کی گکھڑوں کی تاریخ پر مبنی کتاب ’کائی گوہر نامہ،‘ سر لیپل ایچ گریفن کی کتاب ’پنجاب چیفس‘ میں اس حوالے سے ملتی جلتی روایتیں بیان کی گئی ہیں۔
جن میں قدر مشترک یہ ہے کہ سلطان سارنگ خان جیسا بہادر اور جری گکھڑ سردار تاریخ نے کم ہی دیکھا جس نے سندھ دو آب جیسے وسیع علاقے پر قائم اپنی ریاست کی پروا نہ کرتے کرتے ہوئے سوریوں جیسے جابر حکمرانوں سے محض اس لیے ٹکر لے لی کہ وہ مغل خاندان کا احسان مند تھا اور بابر نے اس کی مدد کی تھی۔
سلطان سارنگ کی زندگی پر حال ہی میں ایک کتاب Sarang, Reflective Essays on the History of Gakkhars سامنے آئی ہے جسے ڈاکٹر صہیب احمد کیانی نے لکھا ہے۔ ڈاکٹر صہیب احمد کیانی بنیادی طور پر انجینیئر ہیں اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں پڑھاتے ہیں۔ کتاب میں سلطان سارنگ خان کے حالات پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کائی گوہر نامہ کے بعد گکھڑوں کی تاریخ پر کسی نے مستند کام کیا ہے تو وہ ڈاکٹر صہیب احمد کیانی ہی ہیں۔
سلطان سارنگ خان کو پوٹھوہار کی حکمرانی کا تاج بابر نے اس وقت پہنایا جب بابر ہندوستان پر حملے کی غرض سے بھیرہ میں مقیم تھا۔ آج صدیاں گزرنے کے باوجود سلطان سارنگ خان پوٹھوہار کے لوک ہیرو کے طور پر موجود ہے گکھڑوں کی جنگی روایات میں جو مقام سلطان سارنگ خان کو حاصل ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔
سلطان سارنگ خان جس کے نام کا سکہ چلتا تھا
سلطان سارنگ خان پوٹھوہار کے گکھڑوں کے سردار اس وقت بنے تھے جب ان کے چچا زاد سلطان ہاتھی خان کو اس کی بیوی نے زہر دے کر قتل کر دیا تھا۔ صہیب احمد کیانی لکھتے ہیں کہ ہاتھی خان نے اس سے پہلے سارنگ خان کے والد تاتار خان کو پھروالہ پر اچانک حملہ کر کے قتل کر دیا تھا اور گکھڑ علاقے کا بلا شرکت غیرے مالک بن گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واقعہ کچھ یوں تھا کہ سلطان سارنگ خان کے والد تاتار خان نے لاہور کے گورنر دولت خان کے حکم پر اپنے بھتیجے ہاتھی خان کو لگام ڈالنے کی کوشش کی جس میں وہ مارے گئے اور ہاتھی خان پھروالہ کا حکمران بن گیا۔
1519 میں جب بابر اپنی فوجوں کے ساتھ بھیرہ میں قیام پذیر تھا تو اس نے تاتار خان کے بیٹے سارنگ خان کے کہنے پر پھروالہ قلعے پر چڑھائی کی۔
ہاتھی خان بابر کی فوجوں کا مقابلہ تو نہ کر سکا اور فرار ہو گیا۔ تاہم بعد میں ہاتھی خان اور بابر کے درمیان صلح ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد ہاتھی خان کو اس کی بیوی نے زہر دے دیا تو ہاتھی خان نے خود ہی اقتدار اپنے بھتیجے سارنگ خان کے سپرد کر دیا تھا کیونکہ وہ اپنے کسی بیٹے کو اس کے اہل نہیں سمجھتا تھا۔
بابر کی ہمدردیاں بھی سارنگ خان کے ساتھ تھیں کیونکہ اس نے بابر کے ہندوستان پر حملے میں مدد کی تھی جس کے عوض اسے مغل دربار سے سالانہ ایک گھوڑا تحفے میں بھیجا جاتا تھا۔ ہمایوں کے دور میں سلطان سارنگ خان گکھڑ سلطنت کا نہ صرف بلا شرکت غیرے حکمران تھا بلکہ اس نے دان گلی موجود ڈڈیال آزاد کشمیر کے قریب ایک ٹیکسال بھی لگا لی تھی جہاں سے اس نے اپنے نام کا سکہ جاری کیا تھا۔
گکھڑوں اور شیر شاہ سوری کے درمیان دشمنی کی کہانی
1540 میں ہمایوں کو اپنے ایک مخالف سردار فرید الدین خان جو شیر شاہ سوری کے نام سے معروف ہوئے ان کے ساتھ قنوج کی جنگ میں شکست کے بعد ایران فرار ہونا پڑا۔
شیر شاہ سوری نے ہمایوں کی واپسی کا راستہ روکنے کے لیے پنجاب کے مختلف سرداروں سے مدد چاہی جن میں گکھڑ سردار سلطان سارنگ خان بھی شامل تھے۔ شیر شاہ سوری نے بھیرہ میں قیام کے دوران سلطان سارنگ خان کو طلب کرنے کے لیے اپنا ایلچی پھروالہ بھیجا جس کے جواب میں سلطان سارنگ خان نے تیر کمان، شیر کے دو بچے، بھنگ سے بنا ہوا کمبل اور باجرہ بھیجا۔
اس سے مراد تھی کہ آپ طاقتور ضرور ہیں اور ہم آپ سے جنگ میں جیت نہیں سکتے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم مغلوں کے ساتھ غداری کرتے ہوئے آپ کا ساتھ دیں۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جب شیر شاہ سوری کی فوجیں ہمایوں کے سوتیلے بھائی کامران مرزا اور عسکری مرزا کا پیچھا کر رہی تھیں تو یہ سلطان سارنگ خان ہی تھا جس نے انہیں کابل جاتے ہوئے بحفاظت دریائے سندھ پار کرانے میں مد دکی تھی۔
شیر شاہ سوری جانتا تھا کہ گکھڑ تزویراتی حوالے سے ایک ایسے علاقے میں بیٹھے ہوئے ہیں جو کابل اور کشمیر سے جڑا ہوا ہے اور جہاں سے وہ کسی بھی بیرونی حملہ آور کا ساتھ دے کر اس کے لیے مشکل پیدا کر سکتے ہیں، اس لیے شیر شاہ سوری نے گکھڑوں کے خلاف حملہ کر کے ہاتھیا (موجودہ سوہاوہ) تک کا علاقہ تاراج کر دیا۔
گکھڑوں نے بھرپور مقابلہ کیا دونوں طرف سے متعدد سپاہی یرغمال بنا لیے گئے۔ شیر شاہ سوری کی فوجوں نے سلطان سارنگ خان کی ایک بیٹی بھی یرغمال بنا کر اسے اس وقت کی جنگی روایات کے تحت اپنے ایک انتہائی قریبی جرنیل خواص خان کے حوالے کر دی۔
روہتاس کا قلعہ تعمیر کرنے کی وجہ بھی شیر شاہ سوری کا وہ خوف تھا کہ جب بھی ہمایوں واپس آئے گا اسی راستے سے آئے گا۔ گکھڑوں نے شیرشاہ سوری کی افواج کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں کرتے ہوئے ان کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔
روہتاس قلعے کی تعمیر اور یہاں ایک بڑی چھاؤنی کے باعث پیدا ہونے والے خطرے نے سلطان سارنگ خان کو دفاعی اقدامات کرنے پر مجبور کیا۔ اس وقت وہ دینہ کے قریب سلطان پور میں مقیم تھے جو دریائے جہلم کے دائیں کنارے پر واقع تھا۔
اب سلطان پور منگلا ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے زیر آب آ چکا ہے۔ دان گلی پرگنے کی جنوبی سرحد پر واقع یہ ایک اہم مقام تھا جو تین طرف سے دریا میں گھرا ہوا تھا۔ سلطان پور کا دفاع مضبوط بنانے کے لیے سلطان سارنگ خان نے ایک دیوار تعمیر کی جو گاؤں کے جنوب مشرق سے شمال مغرب تک تقریباً پانچ میل تک پھیلی ہوئی تھی۔ 1956 تک اس دیوار کے کچھ حصوں کے بچے کھچے آثار دیکھے جا سکتے تھے۔
شیر شاہ سوری کا 1545 میں انتقال ہوا تو اس کا بیٹا اسلام شاہ سوری تخت نشین ہوا۔ اس نے گکھڑ علاقے کو فوجی کارروائیوں کے ذریعے زیر کرنے کی اپنے والد کی پالیسی جاری رکھی۔
اس دور میں شیر شاہ سوری کے ایک باغی ہیبت خان نیازی نے بھاگ کر گکھڑوں کے پاس پناہ لے لی تھی۔ اتفاق سے ہیبت خان نیازی ان فوجی کمانڈروں میں سے ایک تھا جنہیں شیر شاہ سوری نے 1541 میں بنگال جانے سے پہلے گکھڑوں کو زیر کرنے کے لیے مقرر کیا تھا۔
اسلام شاہ نے پنجاب میں درپیش سکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے 1548 میں خود بڑی فوج کے ساتھ گکھڑوں کے خلاف مارچ کیا اور روہتاس قلعے میں پڑاؤ ڈالا۔ کئی گنا بڑی اور مسلح فوج، جدید تر جنگی حکمت عملی کی بدولت اسلام شاہ، سلطان سارنگ خان اور اس کے خاندان کے کئی قریبی افراد کو شکست دے کر قید کرنے میں کامیاب ہو گیا جس کے بعد بغاوت کے جرم میں سلطان سارنگ خان کی زندہ کھال اتار دی گئی اور اس کی کھال کو روہتاس قلعے کے ایک دروازے پر لٹکا دیا گیا۔
سلطان سارنگ خان کے بیٹے کمال خان کو یرغمال بنا کر گوالیار قلعے میں قید کر دیا گیا۔ سلطان سارنگ خان کے خاندان کے مرد اراکین کو قتل کر دیا گیا جبکہ عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا گیا۔ جو خاندان سندھ دو آب کا حکمران تھا وہ نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔
اس سانحے کے راوی گکھڑوں کے ایک صوفی اور شادمان خان کے بیٹے شاہ دولہ (1581-1676) ہیں جنہوں نے یہ واقعہ ایک شخص عزت خان کو گجرات میں سنایا تھا۔ سلطان شادمان صاحبِ دیوان شاعر تھا جو پھروالہ کا حکمران رہا۔ شاہ دولہ کے مطابق، وہ نعمت خاتون کے ہاں پیدا ہوا تھا، جو غازی خان کی نواسی تھی۔ غازی خان، سلطان سارنگ خان کا بیٹا تھا۔ نعمت خاتون کی والدہ ان خواتین میں سے ایک تھیں جو سلطان سارنگ خان کی شکست کے بعد قید کر کے دہلی لے جائی گئی تھیں۔
گکھڑوں کی مغلوں سے وفاداری جو رشتہ داری میں بدل گئی
سلطان سارنگ خان کی موت گکھڑ مزاحمت کے لیے شدید دھچکہ تھی۔ ان کا چھوٹا بھائی سلطان آدم خان جس نے اپنے بھائی کی وفات کے بعد جتنا ممکن ہو سکا مقابلہ جاری رکھا، لیکن آخرکار معاملہ ایک جمود پر پہنچ گیا۔ اس نے مزید خونریزی اور تباہی سے بچنے کے لیے حملہ آور فوج کے رہنماؤں سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔
ایک غیر مستحکم امن اس شرط پر قائم ہوا کہ تمام باغی فراریوں، بشمول ہیبت خان نیازی کو پوٹھوہار سے نکال دیا جائے گا۔ سلطان آدم خان نے اس نازک صورت حال کو ہوشیاری سے سنبھالا اور طاقت کے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے امن کو قائم رکھا۔ گکھڑوں نے اپنی طاقت اور خودمختاری دوبارہ حاصل کر لی۔
جب ہمایوں نے اپنا اقتدار سلیم شاہ سوری سے چھین لیا اور اس کی فوجیں فتح مند ہو کر دلی میں داخل ہو ئیں تو سلطان آدم خان بھی ان کے ہمراہ تھے۔ سلطان سارنگ خان اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کی باقیات کو سلطان آدم نے روات کے قلعے میں دفنایا۔
بعد ازاں جب سلطان سارنگ خان کا بیٹا سلطان کمال خان اپنے چچا سلطان آدم خان کی جگہ پوٹھوہار کا حکمران بنا تو اس نے سلطان سارنگ خان اور اس کی دو بیویوں کی قبروں پر ایک عالی شان مقبرہ تعمیر کیا۔ سکھ دورِ حکومت میں اس مقبرے میں موجود قبروں کو مسمار کر دیا گیا۔
2020 میں محکمہ آثار قدیمہ پاکستان نے روات قلعہ کی بحالی اور تحفظ کے منصوبے کے تحت سلطان سارنگ خان کے مقبرے کی کھدائی کی تو پتہ چلا کہ مقبرے کے مرکز میں سلطان سارنگ خان کی قبر کے علاوہ چار دیگر قبریں بھی موجود ہیں۔
یہ تمام پانچ قبریں چونے کے پتھر سے بنی ہوئی ہیں۔ مرکزی قبر کے گرد موجود چار قبریں مختلف سائز کے بڑے پتھر کی تختیوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ مقبرے سے آثار قدیمہ کے کئی نمونے بھی ملے۔
آج اسلام آباد سے لاہور جی ٹی روڈ پر سفر کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ روات میں موجود اس قلعے میں پوٹھوہار کا وہ حریت پسند مدفون ہے جس نے مغل خاندان سے وفاداری کی ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
سلطان سارنگ خان کی بےمثال قربانی کی بدولت آنے والے مغل حکمرانوں کے درباروں میں جو عزت و وقار گکھڑ سرداروں کو حاصل رہا وہ کسی اور جنگجو قبیلے کے حصے میں نہیں آیا بلکہ سلطان سارنگ خان کی پوتی اور سلطان سید خان کی بیٹی جہانگیر کے عقد میں آئی۔ اس طرح گکھڑوں اور مغلوں کا تعلق قریبی رشتہ داری میں بدل گیا۔