مصطفیٰ عامر قتل: ملزم کا ریمانڈ، والد کا بیٹے کو پھسانے کا الزام

سندھ ہائی کورٹ نے نوجوان مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کے کیس میں ملزم ارمغان کے ریمانڈ کی چاروں درخواستیں منظور کی تھیں۔

اغوا کے بعد دوست کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے کراچی کے نوجوان مصطفیٰ عامر کے قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزم ارمغان کو چار روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔

اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ نے نوجوان مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کے کیس میں ملزم ارمغان کے ریمانڈ کی چاروں درخواستیں منظور کی تھیں۔

کراچی میں نوجوان مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کے ہائی پروفائل کیس کے ملزم ارمغان کو سندھ ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا۔

ملزم ارمغان کو بکتر بند گاڑی میں ہائی کورٹ لایا گیا جس کے چہرے کو ڈھانپا گیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ میں انسداد دہشتگردی عدالت کی جانب سے ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہ دیے جانے کے خلاف پراسیکیوشن کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کسٹڈی کہاں ہے؟ جس پر ارمغان کو پیش کردیا گیا۔

ایڈیشنل پراسکیوٹر نے جواب دیا کہ چھ جنوری کو مصطفیٰ عامر کا اغوا ہوا، ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے مصطفیٰ عامر کے اغوا کی ایف آئی آر پڑھ کر سنائی گئی۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ تحقیقات کے دوران مغوی کی والدہ کا بیان ریکارڈ کیا گیا، مغوی کی والدہ نے بتایا کہ انہیں دو کروڑ روپے کے تاوان کی کال موصول ہوئی، جس کے بعد کیس کی انویسٹی گیشن اے وی سی سی پولیس کو منتقل ہوگئی، آٹھ فروری کو پولیس کو اطلاع ملی کہ ڈیفنس کے ایک بنگلے میں ملزم کی موجودگی کی اطلاع پر چھاپہ مارا گیا۔

عدالت نے پوچھا کہ سی آئی اے کی جانب سے کون تفتیش کررہا تھا، سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ انسپکٹر امیر سی آئی اے کے تفتیشی افسر تھے، 4:40 منٹ پر کارروائی کی جو نو بجے تک جاری رہی، ملزم نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی۔

عدالت نے سوال کیا کہ ملزم کے گھر سے کونسا اسلحہ برآمد ہوا؟ سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ اس کی الگ ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

جسٹس ظفر راجپوت  استفسار کیا کہ  پہلے کتنے مقدمات میں ملزم گرفتار ہو چکا ہے۔

سرکاری وکیل  نے بتایا کہ ملزم ارمغان کو 10 فروری کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا، ملزم کو تین مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کے لیے پیش کیا گیا تھا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ پولیس افسر اور اہلکار ملزم کی فائرنگ سے زخمی ہوئے، ایک ماہ جسمانی ریمانڈ مانگا تھا جو نہیں ملا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ  پورا آرڈر ٹائپ ہے، وائٹو لگا کر جیل کسٹڈی (جے سی) کیا ہے، حکام محکمہ داخلہ نے کہا کہ رجسٹرار کا عہدہ خالی ہے جس کے پاس چارج ہے وہ عمرے پر ہیں۔

جسٹس ظفر احمد راجپوت  نے ریمارکس  دیے کہ  ہاتھ سے وائٹو لگا کر جے سی کیا گیا ہے پولیس ابھی تک لکھا ہوا ہے، پراسکیوٹر جنرل نے کہاکہ  ملزم کا باپ جج صاحب کے کمرے میں موجود تھا، میں حلف اٹھا کر کہتا ہوں، عدالت نے کہا کہ  وہ بات نہ کریں جو آپ نے درخواست میں نہیں لکھی ہے۔

عدالت کا ارمغان سے سوال، آپ پر تشدد ہوا؟

دوران سماعت عدالت نے ملزم ارمغان سے سوال کیا کہ کیا آپ پر تشدد ہوا؟ ملزم ارمغان نے جواب دیا کہ جی ہاں مجھ پر تشدد ہوا، عدالت نے کہا کہ دکھائیں نشانات کہاں ہیں، ملزم کی شرٹ اتاریں اور دکھائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پر ملزم کی شرٹ اتار کر دکھائی گئی تو ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ تشدد کا کوئی نشان نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ اگر تشدد کی شکایت تھی تو میڈیکل چیک اپ کا آرڈر کرتے۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ ریمانڈ پراسیکیوشن کا حق تھا، کیا ملزم نے جیل میں درد کی شکایت کی ہے؟ کیا جیل میں علاج یا معائنے کی درخواست دی تھی؟جس پر ملزم ارمغان نے کہا کہ میں شاک میں تھا۔

اس کے ساتھ ہی عدالت نے عدالت نے پولیس ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

بعد ازاں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور ملزم کو جسمانی ریمانڈ کے لیے اے ٹی سی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ 

میں نے مصطفیٰ کو نہیں مارا مجھے پھنسایا جارہا ہے: ملزم ارمغان

ملزم ارمغان کو جب عدالت میں پیش کیا جارہا تھا اسی دوران صحافیوں کی جانب سے سوال کیے گئے جس میں ملزم ارمغان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے مصطفیٰ کو نہیں مارا مجھے پھنسایا جارہا ہے۔‘

صحافی نے جب ملزم ارمغان سے سوال کیا کہ ’پولیس پر فائرنگ کیوں کی؟ تو جواب میں اس نے کہا کہ میرے گھر پر ڈکیتی مار رہے تھے۔‘

ملزم ارمغان کے والد کا بیان

ملزم ارمغان کے والد کامران قریشی نے عدالت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے بیٹے کا میڈیکل تک نہیں کیا گیا، میڈیا پر چلایا گیا کہ ارمغان نشے میں تھا، اس کی میڈیکل رپورٹ کہاں ہے؟‘

کامران قریشی نے کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالت کے تین احکامات ہیں اس پر عمل درآمد نہیں ہوا، کورٹ نے کہا میری بیٹے سے ملاقات کرائی جائے، مقدمہ درج کیا جائے اب تک اس پر عمل نہیں ہوا۔‘

پس منظر

کراچی پولیس نے جمعے 14 فروری کو بتایا ہے کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) سے گذشتہ ماہ چھ جنوری کو لاپتہ ہونے والے نوجوان مصطفیٰ عامر کو ان کے دوستوں نے قتل کرنے کے دو روز بعد لاش حب چوکی کے قریب گاڑی میں رکھ کر اسے آگ لگا دی تھی۔

پولیس کے مطابق 23 سالہ مصطفیٰ عامر کو ڈی ایچ اے کے ایک گھر میں قتل کرنے کے بعد ملزمان نے آٹھ جنوری کو لاش کو گاڑی کی ڈگی میں رکھ کر حب میں دھوراجی تھانے کی حدود میں آگ لگا دی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان