کراچی پولیس نے جمعے کو بتایا ہے کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) سے گذشتہ ماہ چھ جنوری کو لاپتہ ہونے والے نوجوان مصطفیٰ عامر کو ان کے دوستوں نے قتل کرنے کے دو روز بعد لاش بلوچستان کے شہر حب چوکی کے قریب گاڑی میں رکھ کر اسے آگ لگا دی تھی۔
پولیس کے مطابق 23 سالہ مصطفیٰ عامر کو ڈی ایچ اے کے ایک گھر میں قتل کرنے کے بعد ملزمان نے آٹھ جنوری کو لاش کو گاڑی کی ڈگی میں رکھ کر حب میں دھوراجی تھانے کی حدود میں آگ لگا دی تھی۔
اس بات کا انکشاف گذشتہ روز مقدمے میں نامزد مرکزی ملزم ارمغان اور مقتول کے مشترکہ دوست شیراز عرف شاویز بخاری کی گرفتاری کے بعد ہوا۔ مرکزی ملزم کو ارمغان کو پولیس پہلے ہی گرفتار کر چکی تھی جبکہ تفتیش کے لیے ان کے دو ملازمین کو بھی حراست میں لیا گیا تھا۔
کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) مقدس حیدر نے جمعے کی شام ایک پریس کانفرنس میں اس واقعے کی تفصیلات بتائیں۔
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر کراچی ساؤتھ انویسٹی گیشن پولیس نے نوجوان کی گمشدگی کی رپورٹ پر اس کی تلاش شروع کی اور 25 جنوری کو مصطفیٰ عامر کی والدہ کو تاوان کے لیے فون کال موصول ہونے کے بعد مقدمہ اغوا برائے تاوان میں تبدیل کرکے سی آئی اے کو دے دیا گیا تھا۔
مقدس حیدر کے مطابق: ’اس کیس میں سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) نے بھرپور مدد کی۔ 25 جنوری کو تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد سی آئی اے اور سی پی ایل سی نے مشترکہ تحقیقات شروع کیں۔
’آٹھ فروری کو پولیس اور سی پی ایل سی نے مشترکہ طور پر ڈی ایچ اے کے ایک گھر پر چھاپہ مارا، جس کے دوران ملزم نے پولیس پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ڈپٹی انسپکٹر پولیس (ڈی ایس پی) احسن ذوالفقار اور سپاہی زخمی ہوئے، تاہم پولیس نے ملزم ارمغان کو گرفتار کرلیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ملزم کی تحویل سے انتہائی مہنگے ہتھیار ملا۔ اس کے علاوہ لاپتہ مصطفیٰ عامر کا فوبائل فون بھی ملزم کے پاس سے ملا اور گھر کے قالین پر خون کے نشانات ملے، جو دونوں انتہائی اہم ثبوت تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پولیس نے گرفتار ملزم ارمغان کا ایک دن کا عدالتی ریمانڈ لیا، تاہم مزید ریمانڈ نہ مل سکا اور بعد میں سی پی ایل سی اور ایک وفاقی حساس ادارے کی مدد سے مزید تفتیش کی گئی۔‘
سی آئی اے کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل کے مطابق مقدمہ آگے بڑھا تو مرکزی ملزم ارمغان کے دوست اور مقتول کے مشترکہ دوست شیراز عرف شاویز بخاری کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جس سے پولیس کو اس کیس کے متعلق تمام پہلو اور کرائم سین سے لاش کو ٹھکانے لگانے کی معلومات ملی اور اس نے پولیس کو جو کچھ بتایا، وہی ارمغان کے ان دو ملازمین نے بھی بتایا، جنہیں پولیس نے تفتیش کے لیے حراست میں لیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقدس حیدر کے مطابق: ’ملزم شیراز عرف شاویز بخاری نے قتل کا اعتراف کرلیا ہے اور ہفتے (15 فروری) کو انہیں عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ لیا جائے گا۔‘
انہوں نے تفتیش کے دوران ملنے والی معلومات کے حوالے سے بتایا کہ ’مصطفیٰ عامر، ملزم ارمغان اور شیراز تینوں دوست ہیں اور انہوں نے پہلی سے ساتویں جماعت تک ایک ساتھ تعلیم حاصل کی تھی۔ نئے سال کے موقعے پر دوستوں کے درمیان کسی بات پر لڑائی ہوئے تھی۔
’ملزمان کے بیانات کے مطابق چھ جنوری کی رات کو جب مصطفیٰ عامر، ملزم ارمغان کے گھر گئے تو نئے سال پر ہونے والی لڑائی کا ایک بار دوبارہ تذکرہ ہوا اور دوبارہ لڑائی ہوگئی، جس کے دوران مصطفیٰ عامر گولی لگنے سے چل بسے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے اسے گاڑی میں ڈال کر حب چوکی کے پاس آگ لگا دی گئی۔‘
مقدس حیدر کے مطابق ایک لاوارث گاڑی جلنے کے واقعے پر حب کے دھوراجی تھانے میں مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا جبکہ دھوراجی پولیس نے لاش کو ایدھی کے حوالے کیا، جسے لاوارث لاش کے طور پر دفنا دیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہم جلد ہی لاش کا ڈی این اے ٹیسٹ کرکے اس بات کی تصدیق کریں گے کہ یہ لاش مصطفیٰ عامر کی ہی ہے۔‘
مصطفیٰ عامر کی گمشدگی کے بعد ان کی بازیابی کے لیے ان کی تصاویر اور والدہ کا ویڈیو بیان بھی سوشل میڈیا پر وائرل رہا۔
نوجوان کے والد عامر شجاع نے اپنے بیٹے کی گمشدگی کے متعلق گورنر سندھ کامران ٹیسوری سے ملاقات میں اپنے بیٹے کی بازیابی کے سلسلے میں مدد کی درخواست کی تھی۔