ایتھنز کی جمہوریت جو یورپ میں بطور ماڈل کے اختیار کی گئی، اس میں عورتوں کو ووٹ کا حق نہیں تھا۔ انہیں ووٹ کے لیے حق سے محروم رکھنے کے لیے ارسطو کی یہ دلیل دی جاتی تھی کیونکہ عورتیں کم عقل ہیں ان میں شعور کی کمی ہے اس لیے انہیں یہ ذمہ داری نہیں دینی چاہیے۔
دوسرا اعتراض یہ تھا کہ عورتیں اپنے باپ اور شوہر کے زیر اثر ہوتی ہیں، لہٰذا وہ اپنی مرضی سے ووٹ نہیں دے سکتیں کیوں کہ ان کا ووٹ باپ یا شوہر کے زیرِ اثر ہی ہو گا۔
انگلستان میں ووٹ کا حق بہت محدود تھا اور ملک میں اکثریت کو اس حق سے محروم رکھا گیا تھا۔ صنعتی اور فرانسیسی انقلابوں نے انگلستان کے معاشرے کو بدلا اور جب اس کا متوسط طبقہ وسیع ہوا تو اس نے ووٹ کے حق کا مطالبہ کیا چنانچہ برطانیہ میں 1832 میں ’گریٹ ریفارم ایکٹ‘ نامی قانون نے ووٹروں کی تعداد کو بڑھایا۔ پھر 1860 تا 80 کی دہائیوں میں ووٹروں کی تعداد اور زیادہ بڑھی لیکن عورتوں کو اس حق سے محروم رکھا گیا۔
انگلستان کے معاشرے میں عورتیں گھریلو کاموں تک نہیں رہی تھیں بلکہ یہ کارخانوں میں کام کرنے لگی تھیں اور مزدور تنظیموں کی سرگرمیوں کی وجہ سے یہ سیاسی طور پر لاشعور ہو چکی تھیں۔ انہوں نے بنیادی تعلیم بھی حاصل کر لی تھی، لہٰذا اخبارات، پمفلٹوں اور کتابوں کے ذریعے نئے خیالات سے واقف ہو رہی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس لیے 19ویں صدی میں عورتوں کی مختلف جماعتوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ انہیں ووٹ کا حق دیا جائے تاکہ وہ اپنی پسند کے امیدواروں کا انتخاب کرسکیں۔ ووٹ کے حق کو وہ اس لیے ترجیح دیتی تھیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے ہی ان کو بنیادی حقوق مل سکیں گے۔ لہٰذا 1903 میں ڈیلی میل اخبار کے ایک نمائندے چارلز ہینڈز نے خواتین کی سیاسی و سماجی تحریک کی کارکنان کو ’سفراگیٹ‘ (خواتین کے ووٹ کے حق کی جدوجہد کرنے والی) کا نام دینے والا ڈیلی میل اخبار کا نمائندہ تھا۔ اس تحریک کی ابتدائی راہنما خواتین مسز کرسٹابیل پینکہرسٹ اور نینی کینی تھیں۔
تحریک کومقبول بنانے کے لیے جو حکمت عملی تیار کی گئی اس کا ایک مقصد تو یہ تھا کہ عام پبلک میں عورتوں کے ووٹ کے لیے حمایت حاصل کی جائے۔ دوسرا یہ تھا کہ عوامی نمائندوں اور سیاست دانوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ پارلیمان میں عورتوں کی ووٹنگ کے حق کو تسلیم کرائیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ مثلاً لندن میں ٹریفالگر سکوائر پر ایک بڑا مظاہرہ کیا جس میں بینروں پر ’عورتوں کو ووٹ کا حق دیا جائے‘ کے نعرے درج تھے۔
پھر انہوں نے یہ مظاہرے پارلیمنٹ کے سامنے کیے اور یہ کوشش بھی کی کہ زبردستی پارلیمنٹ میں داخل ہو کر پارلیمنٹ کے ارکان سے اپنے حق کے لیے بات کریں۔ لیکن پولیس نے انہیں عمارت میں جانے سے روک دیا۔ عورتوں نے پولیس سے مقابلہ کیا جس میں یہ زخمی بھی ہوئیں۔ دوسرا طریقہ اپنی تحریک کو مقبول بنانے کا یہ اختیار کیا گیا کہ انہوں نے وزیراعظم کو ہزاروں دستخطوں کی ایک اپیل پیش کی اور یہ اپیل پیش کرنے کے لیے ان کا ایک وفد وزیراعظم کا ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ گیا لیکن انہیں تمام تر کوششوں کے باوجود وزیراعظم سے نہیں ملنے دیا گیا۔ اگرچہ ان میں سے ایک عورت زبردستی وزیراعظم کی رہائش گاہ میں داخل ہو گئی لیکن فوراً ہی اسے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
عورتوں کے یہ مظاہرے صرف لندن ہی میں نہیں ہوئے بلکہ انگلستان کے دوسرے شہروں میں بھی عورتوں نے جلوس نکالے اور اپنے حق کے لیے نعرے لگائے۔ مظاہروں کے ساتھ ساتھ اس تحریک نے عورتوں کے جلسوں کا بھی انتظام کیا۔ ان جلسوں میں تقاریر کے ذریعے رہنما عورتیں حاضرین میں نعروں کے ذریعے جوش و خروش پیدا کرتی تھیں اور بعض اوقات یہ اپنے جذبات اور غصے کا اظہار توڑ پھوڑ اور پولیس سے مقابلہ کر کے کرتی تھیں۔
اپنے مقصد کو کامیاب بنانے کے لیے ان کا طریقہ کار یہ بھی رہا کہ سیاسی رہنماﺅں کے جلوس میں جا کر ان رہنماﺅں سے عورتوں کے ووٹ کے بارے میں سوال کرتی تھیں۔ مثلاً چرچل نے جب ایک جلسہ کیا تو اس نے ان عورتوں سے وعدہ لیا کہ وہ اس کے جلسے کو خراب نہیں کریں گی اور وہ آخر میں ان کے سوالوں کا جواب دیں گے۔ لیکن جب عورتوں نے آخر میں اس سے سوال کیا کہ کیا وہ عورتوں کے ووٹنگ کے حق کو تسلیم کرتے ہیں تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔
اسی طرح سے لبرل پارٹی کے سر ایڈورڈ گِرے جِن کو ہونے والے انتخابات میں وزیراعظم بننے کی توقع تھی۔ مانچسٹر کے ایک جلسے میں جب وہ اپنی پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک پروگرام کے تحت پروگرام کے متعلق بتا رہے تھے تو اس دوران تحریک کی ایک کارکن نینی کینی نے سوال کیا کہ وہ عورتوں کے ووٹ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں تو اس پر ایڈورڈ گرے خاموش رہے۔
جب ہال میں موجود عورتوں نے نعرے لگائے تو پولیس کے ذریعے ان عورتوں کو ہال سے باہر بھجوا دیا گیا اور ان پر جلسے کو خراب کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اس تحریک نے ایک اہم روایت جو قائم کی وہ یہ تھی کہ جب بھی ان پر مقدمات بنائے گئے اور انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تو جج نے ان پر یا تو جرمانہ لگایا کہ وہ جرمانے کی رقم ادا کر کے آزاد ہو جائیں۔ دوسری صورت میں انہیں قید بامشقت کی سزا دی گئی۔ لیکن عورتوں نے جرمانے کی رقم کبھی ادا نہیں کی اور جیل جانا پسند کیا جہاں انہوں نے جیل کی سختیوں کو برداشت کیا اور جیل سے چھوٹ کر پھر دوبارہ سے اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئیں۔
جیل میں ایک بار کچھ خواتین نے بھوک ہڑتال کی۔ جب ان کی حالت خراب ہونے لگی تو انہوں نے اس کی مزاحمت کی۔ جیل میں جانے اور قیدی ہونے کی صورت میں ان کے خیالات میں اور زیادہ پختگی آ گئی اور انہیں جیل میں جانے کا کوئی خوف نہیں رہا۔ لوگوں میں بھی یہ احساس پیدا ہوا کہ تحریک کی یہ خواتین اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہر مشکل کو برداشت کر رہی ہیں اس لیے مردوں میں بھی اس کا اثر ہوا اور وہ عورتوں کی حمایت پرتیارہوئے۔
1914 میں چھڑنے والی پہلی عالمگیر جنگ نے تحریکی سرگرمیوں کو گم کر دیا لیکن اس جنگ نے عورتوں کو عملی طور پر متحرک ہونے کا موقع دیا۔ جب مرد محاذ جنگ پر چلے گئے تو ان کی جگہ عورتوں نے لی اور وہ کام جو اب تک مرد کرتے تھے عورتوں نے انہیں بخوبی سنبھالا۔ فیکٹریوں میں مزدور عورتوں کی تعداد بڑھ گئی اور مردوں کی غیرموجودگی میں نہ صرف آزاد ہوئیں بلکہ ان میں اپنی شناخت کا احساس بھی پیدا ہوا۔ اس لیے جنگ کے خاتمے کے بعد انہوں نے واپس گھریلو کاموں پر جانا پسند نہیں کیا اور سیاسی طور پر ان کے حقوق کی جنگ بھی تیز تر ہوگئی۔ یہ وہ حالات تھے کہ 1918 میں 30 سال کی عمر کے لیے ووٹ کا حق دیا گیا۔ لیکن اس کامیابی کے پس منظر میں عورتوں نے نہ صرف قربانیاں دیں سختیاں اٹھائیں، مردوں کے تعصبات سے دوچار ہوئیں لیکن بالآخر انہوں نے ووٹ کا حق حاصل کر کے نہ صرف جمہوریت کو نئی زندگی دی بلکہ اسے مستحکم بھی کیا۔
انگلستان میں عورتوں کی اس کامیابی کا اثر امریکہ اور دوسرے یورپی ملکوں میں بھی ہوا جہاں عورتوں کو انتخابات میں ووٹ کا حق دیا گیا۔