امریکہ ایران تنازع کی وجہ سے خطے کی صورتحال کشیدہ ہو رہی ہے جس کے باعث پاکستان نے خطے کے دیگر مسلم ممالک سے رابطے بھی کیے ہیں تاکہ کشیدگی میں کمی لانے میں کردار ادا کیا جا سکے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں وزیر دفاع پرویز خٹک نے بتایا کہ ہم یہ چاہتے کہ ساری دنیا میں امن ہو اور کوئی جھگڑا نہ کرے ۔ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ ایسی پالیسی ہو کہ خطے کا امن برقرار رہے کیوں کہ جنگ نقصان پہنچاتی ہے۔ جب اُن سے ثالثی کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’پاکستان خطے کا امن برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا۔‘
اعلیٰ دفتر خارجہ حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگلے چوبیس گھنٹے اہم ہیں۔ ایران کا دورہ کرنے کے حوالے سے مشاورت جاری ہے کہ پاکستان اگر ایران جائے تو کن نکات پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کو روکا جا سکتا ہے کیوں کہ معاملے میں پہل امریکہ کی جانب سے ہوئی ہے اور ایران کے سپریم لیڈر برملا انتقام لینے کا اعلان بھی کر چکے ہیں اس لیے ایسی صورت حال میں ایران سے بات کرنے کے لیے پیچیدگیاں بھی زیادہ ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’امریکہ کی جانب سے یہ عندیہ بھی دیا گیا ہے کہ اگر ایران بدلہ لینے کے لیے کوئی کارروائی نہ کرے تو حالات مزید کشیدگی کی طرف نہیں جائیں گے۔ لیکن اس وقت سب سے اہم معاملہ دونوں فریقین کو کشیدگی کی جانب جانے سے روکنا ہے جو کہ بظاہر بہت مشکل ہے۔‘
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ نے گزشتہ روز اسی ضمن میں ایران، ترکی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ سے رابطہ کیا اور خطے کی صورتحال پر غور و غوض کیا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیر کے روز سینٹ کے سیشن میں خطاب کے دوران کہا کہ ’مشرق وسطیٰ کی صورت حال نازک، حساس اور تشویشناک ہے۔ موجودہ بحران کے پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالات کی سنگینی کے باعث خطے کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور ایران کے وزیر خارجہ سے معاملے پر تفصیلی گفتگو ہوئی ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کو سنجیدہ اثرات کا حامل سمجھتا ہے اور کسی بھی جنگ کی صورت میں پاکستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیٹر رحمن ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت امریکہ و ایران کے درمیان ثالثی کردار ادا کرے۔ محض ’اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے‘ سے پاکستان کی ذمہ داری پوری نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بے شک پاکستان کی ایسی کوششیں اتنی بارآور ثابت نہیں ہوئیں لیکن اب پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہے اور ایسی پوزیشن ہے کہ پاکستان ثالثی کروا کر کشیدگی کم کروا سکے۔‘
جب کہ سابق سیکرٹری خارجہ تسنیم اسلم نے مختلف رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’کیسی ثالثی؟ امریکہ نے اقوام متحدہ چارٹر کی کُھلی خلاف ورزی کی ہے اور امریکہ حالات کو جس نہج پر لے آیا ہے تو ایسے میں ثالثی کیسے ہو سکتی ہے؟‘
انہوں نے کہا کہ ’ماضی قریب میں امریکی صدر نے خود وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں سعودی عرب ایران تنازعے میں کردار ادا کرنے کا کہا تھا لیکن تب حالات اور تھے۔ ابھی جو امریکہ نے حرکت کی ہے اس سے بہت غلط مثال قائم ہوئی ہے۔ اگر یہ کہیں کہ ثالثی ہو جائے معاف کر دیں بھول جائیں، یہ بات ہو نہیں سکتی۔‘
سفارتی ماہرین کے مطابق گزشتہ برس بھی پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات رواں رکھنے کے لیے کوشش کرتا رہا ہے لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ اس سے قبل 2016 میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی آرمی چیف کے ہمراہ ایران سعودی عرب کا دورہ کیا لیکن حالات جوں کے توں ہی رہے۔ 2007 میں سابق صدر و آرمی چیف جنرل مشرف نے بھی خلیجی ممالک کے درمیان ثالثی کو کوشش کی تھی جو کامیاب نہیں ہوئی۔