پاکستانی امریکی وزرائے خارجہ رابطہ: افغانستان میں امریکی اسلحے کے حل پر اتفاق

پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کو مزید بڑھانے کی امریکی خواہش کا اظہار کیا۔

اس تصویری مجموعے میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو دکھایا گیا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان 7 اپریل 2025 کو ٹیلیفون پر رابطہ ہوا ہے جس میں افغانستان میں امریکی اسلحے کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی فوجی سازوسامان کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔

پیر کو پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ٹیلی فون پر بات چیت کی جس میں دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تعلقات، علاقائی سکیورٹی اور اقتصادی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔

بیان کے مطابق ٹیلی فون پر اسی گفتگو کے دوران دونوں رہنماؤں نے افغانستان کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق گفتگو میں اسحاق ڈار نے امریکہ کے ساتھ شراکت داری کو مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔

انہوں نے تجارت، سرمایہ کاری اور انسداد دہشت گردی جیسے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں، خاص طور پر اہم معدنیات، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے میں تعاون کی خواہش کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ معیشت اور تجارت میں تعاون مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات کی پہچان ہو گا۔

اسحاق ڈار نے 2013 سے 2018 کے دوران دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیاب کوششوں کو اجاگر کیا جن میں ملک کو بھاری معاشی اور جانی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کو مزید بڑھانے کی امریکی خواہش کا اظہار کیا۔

اسحاق ڈار اور مارکو روبیو نے باہمی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے قریبی رابطے اور مل کر کام کرنے پر بھی اتفاق کیا۔

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز نے 4 مارچ 2025 کو نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو فون کال کر کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں پر شکریہ ادا کیا تھا۔

4 مارچ کی صبح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس سے اپنے خطاب کے دوران بتایا کہ ساڑھے تین سال قبل افغانستان میں امریکی فوجیوں کو قتل کرنے والے ’دہشت گرد کو پاکستان کی مدد‘ سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

جس کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے 5 مارچ کو ایکس پر جاری ایک پیغام میں کہا تھا: ’ہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے خطے میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا اور اس کی تعریف کی جو کہ (تعریف) پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے آئی ایس کے پی (داعش خراسان) کے اعلیٰ درجے کے آپریشنل کمانڈر شریف اللہ، جو کہ افغانستان کے شہری ہیں، ان کے تناظر میں ہے۔‘

وزیر اعظم کے بقول: ’پاکستان افغانستان سرحدی علاقے میں کامیاب کارروائی کے دوران مطلوب دہشت گرد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔‘

پاکستانی دفتر خارجہ نے بتایا تھا کہ ’اسحاق ڈار نے امریکی مشیرِ قومی سلامتی کو نئے عہدے پر مبارک باد دی اور کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کو مزید مضبوط بنانا چاہتا ہے۔‘

شریف اللہ کون ہیں؟

26 اگست 2021 میں افغانستان کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر بم حملے اور دیگر لوگوں سمیت امریکہ کے 13 فوجیوں کو مارنے کے مبینہ ’میٹیریل سپورٹر‘شریف اللہ کو پاکستان کی مدد سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا گیا جہاں انہیں ورجینیا کی عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔

امریکہ کے فیڈرل بورڈ آف انوسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے ان کی حوالگی کی تصدیق کی اور ایف بی آئی نے دو مارچ کو ان کا انٹرویو بھی لیا ہے۔

ایف بی آئی کے ایجنٹ سیتھ پارکر، جنہوں نے شریف اللہ کو باضابطہ دور پر گرفتار کیا، کی طرف سے امریکہ کی ریاست ورجینیا کی عدالت کو بتایا کہ شریف اللہ شدت پسند تنظیم داعش سے 2016 سے منسلک ہیں اور داعش کی خراسان شاخ کے لیے مختلف کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔

دوران انٹرویو شریف االلہ نے بتایا ہے کہ 20 جون 2016 کو کابل کے سفارت خانے پر حملے میں خود کش بمبار کو ہدف کے مقام تک انہوں نے پہنچایا تھا۔

دوران تفتیش شریف اللہ نے بتایا کہ خودکش حملہ آور کا نام عرفان تھا اور دھماکے کی جگہ تک پہنچانے میں تمام تر مدد انہوں نے فراہم کی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان