’دس سالہ تجربے کے باوجود صرف 10 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینے کے لیے روزانہ 10 سے 12 کلومیٹر فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ گھر چلانےکے لیے اتنے قرضے لے چکی ہوں کہ خود کو قرضوں میں ڈوبی ہوئی سمجھتی ہوں۔ شوہر کے ساتھ مل کر ہر مہینےتنخواہ سے تھوڑی تھوڑی رقم کاٹ کر قرضے اتار رہی ہوں لیکن قرض کا بوجھ ہے کہ ہلکا ہی نہیں ہو رہا۔‘
یہ کہانی ہے ہے پاکستان کے خوبصورت ضلع سوات کی تحصیل مٹہ سے تعلق رکھنے والی ایک نجی سکول کی استانی نسرین بی بی کی، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اچھی نوکری سے محروم ہیں۔
نسرین نے کئی مشکلات کے باوجود تعلیم حاصل کی اور پشتو میں ماسٹرز کیا، جس کے بعد ان کو نوکری کے لیے دربدر دھکے کھانا پڑے، تاہم بد قسمتی سے وہ کسی ادارے میں سرکاری نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔
انھوں نے کہا: ’میں ملک کے اکثر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی طرح سرکاری نوکری نہ ملنے پر مایوس ہوکر میں متبادل روزگار کی تلاش میں ایک نجی سکول پہنچ گئی اوروہاں تین ہزار روپے تنخواہ پر نوکری شروع کر دی۔‘
جب نسرین نے یہ نوکری شروع کی تو ان کی تعلیم بی اے تھی۔ پانچ سال تجربے کے بعد جب وہ اس سکول کو خیر باد کہہ رہی تھیں تو اس وقت ان کی تنخواہ رینگ رینگ کرچھ ہزار روپے ہو چکی تھی۔
نسرین کے مطابق اس کے بعد انھیں خیبر پختونخوا حکومت کی ایلیمنٹری ایجوکیشن فاؤنڈیشن میں کام کرنے کا موقع مل گیا اور چار سال تک گرلز کمیونٹی سکول میں خدمات سرانجام دیتی رہیں۔نسرین کہتی ہیں کہ وہ کرائے کے گھر میں رہتی تھی، لہٰذا اپنے گھر کا خواب پورا کرنے کے لیے دوستوں اور رشتہ داروں سے قرض لے کر گھر بنانے کے لیے ادھار پر زمین خریدی لیکن مزید پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اس زمین پر گھر بنانے کا خواب ادھورا ہے۔
ایلیمنٹری ایجوکیشن فاؤنڈیشن پراجیکٹ کے تحت خیبر پختونخوا حکومت نے پورے صوبے میں کمیونیٹی سکولز بنائے ہیں جن کا مقصد سکولوں سے باہر بچوں کو مفت تعلیم دینا ہے۔ جب وہ اس منصوبے کا حصہ تھیں تو ایک اور استانی کے ساتھ 250بچوں کو پڑھاتی تھیں اور اس کے عوض انھیں 14 ہزارروپے تنخواہ ملتی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ تنخواہ بروقت نہیں ملتی تھی لیکن وہ خوش تھیں، تاہم چار سال بعد اس سلسلے کو بریک لگ گئی جب پراجیکٹ کو فنڈ ملنا بند ہو گئے۔
نسرین پھر بھی ایک سال بغیر تنخواہ کے کمیونٹی سکول چلاتی رہیں لیکن آخر کار مشکلات نے گھیر لیا۔ وہ ایک سال کی تنخواہ چھوڑ کر دوبارہ نجی سکول میں پچھلی تنخواہ سے بھی کم تنخواہ پر بچوں کو پڑھانے پر مجبور ہو گئیں۔
’دس سال کا تجربہ اور 10 ہزار تنخواہ‘
نسرین کے مطابق: ’دس سال کےتجربے کے باوجود وہ نجی سکول میں10 ہزار روپے تنخواہ لینے پر مجبور ہیں، جس میں گزارا بہت ہی مشکل ہے لیکن اگر میں یہ نوکری بھی نہ کروں تو زندگی کیسے گزاروں گی؟‘
ان کا کہنا ہے کہ تنخواہ میں سے ہر ماہ چھ ہزار روپے تو گھر کے کرایے پر ہی خرچ ہو جاتے ہیں اور دو ہزار بجلی کے بل میں چلے جاتےہیں۔ ان کے شوہر بھی ایک سرکاری پرائمری سکول میں نوکری کرتے ہیں لیکن ان کی تنخواہ کا زیادہ حصہ قرض چکانے میں خرچ ہو جاتا ہے۔ دونوں کی تنخواہ میں سے بچنے والے پیسوں سے وہ بمشکل گزارا کرتے ہیں۔
یہاں سکول اساتذہ کو 10 سے 15 ہزار روپے تک تنخواہیں دی جاتی ہیں جو وفاقی حکومت کی طے کردہ مزدور کی کم سے کم تنخواہ 17ہزار 500 روپے ماہانہ سے بھی کم ہے۔
امتیازی سلوک
سوات میں خواتین استانیوں کے لیے روزگار کا مسئلہ امتیازی سلوک کی وجہ سے اور بھی سنگین ہو جاتا ہے۔
نجی سکولوں میں کام کرنے والی خواتین اساتذہ کا کہنا ہے کہ ان کی ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور انھیں مرد اساتذہ کے مقابلے میں کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر سائنس میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر خاتون ٹیچر کی تنخواہ آٹھ ہزار سے 12 ہزارروپے کے درمیان تھی اور زیادہ تجربہ رکھنے والی خواتین اساتذہ کی تنخواہ 15 ہزار تک ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف اگر مرد استاد سائنس ڈگری ہولڈر ہو تو اس کی تنخواہ 15 ہزار سے شروع ہوتی ہے اور 25 سے 30 ہزار تک جا سکتی ہے۔
یہ اعداد و شمار درمیانے درجے کے سکولوں کے ہیں جبکہ اعلیٰ درجے اور کم درجے والے سکولوں کا حساب کتاب کچھ اور ہی ہوتا ہے۔
خواتین اساتذہ کا کہنا ہے کہ نہ تو وہ اپنے حقوق کے بارے میں پوچھ سکتی ہیں اور نہ ہی ایسا ادارہ ہے جو امتیازی سلوک روکنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
پرائیوٹ سکول مینجمنٹ ایسوسی ایشن کا موقف
سوات میں پرائیوٹ سکول منیجمنٹ ایسوسی ایشن کے مطابق پورے ضلعے میں لڑکوں اور لڑکیوں کے تقریباً 13 سو پرائیوٹ سکول ہیں جن میں ہر سکول میں 30 تک اساتذہ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب ایسوسی ایشن کے صدر احمد شاہ سے نجی سکولوں میں اساتذہ کی تنخواہوں اور طلبہ کی فیسوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ایسوسی ایشن کے طرف سے ایسا کوئی مرتب شدہ لائحہ عمل نہیں کہ سکولوں میں بچوں سے کتنی فیس لی جائے گئی اور اساتذہ کو کتنی تنخواہ دی جائے گی۔ ان کے مطابق ہر سکول انتظامیہ کو فیس اور تنخواہ مقرر کرنے کا اختیارہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نجی سکولوں میں کم سے کم تنخواہ 15 ہزار روپے ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ روپے سے بھی اوپرہوتی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر کسی استاد کی تنخواہ 10 ہزار روپے ہے تو کیا وہ ایسوسی ایشن سے رابطہ کرسکتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ایسوسی ایشن کا کوئی ایسا رسمی طریقہ کار نہیں کہ سکول کو مجبور کریں کہ اساتذہ کی تنخواہ بڑھائیں۔ البتہ انھوں نے سکول مالکان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مالکان خود بہت سارے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔
پھر ایسوسی ایشن کس لیے؟
احمد شاہ کہتے ہیں: ’ہمارے بہت سارے مسائل ہیں، جیسے حکومت کی طرف سے ریگولیٹری اتھارٹی سے متعلق، بورڈ سے متعلق اور دیگردوسرے مسائل جو لوکل انتظامیہ کے ساتھ ہوں۔ ایسوسی ایشن ان کے حل تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔‘
’یہ تنظیم 20 سال سے چل رہی ہے۔ انتظامیہ کے طرف سے اکثر اوقات سکولوں سے غیر تدریسی سوالات اور معلومات لی جاتی ہیں اور خیبر پختونخوا کی موجودہ حکومت نے پرائیوٹ سکولوں کی نگرانی کے لیے جو ریگولیٹری اتھارٹی بنائی ہے اس نے اور بھی مشکلات بڑھا دی ہیں۔‘
احمد شاہ کے مطابق ان کے خیال میں اوسطاً تنخواہ 20 سے 25 ہزار روپے ہے لیکن تنخواہوں کا انحصار سکولوں اور اساتذہ کےمعیار اور بچوں سے لی جانے جانے والی فیسوں پر ہے۔ ’اگر کوئی سکول بچے سے 500 سے ایک ہزار روپے فیس لیتا ہے تو وہ کسی استاد کو کس طرح اتنی تنخواہ دے سکتا ہے؟‘
کم فیس والے سکول
سوات میں سکولوں کے بارے میں معلومات رکھنے والے ذرائع کے مطابق ضلعے میں 13سو رجسٹرڈ نجی سکولوں کے علاوہ تقریباً 600 غیر رجسٹرڈ سکول اور بھی ہیں جن میں بچوں سے بہت کم فیس لی جاتی ہے اور اساتذہ کو تنخواہ بھی پھر اسی حساب سے دی جاتی ہے۔
ذرائع کہتے ہیں کہ نجی سکولوں کو تین کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا ہے: کم معیار، درمیانہ میعار اور اعلیٰ معیار۔ان معیارات کے مطابق بچوں سے فیس لی جاتی ہے اور اساتذہ کو تنخواہیں بھی دی جاتی ہے۔مثال کے طور پر کم میعار والے سکول میں اگرایک بچے سے کم سے کم فیس 500 روپے لی جاتی ہے تواستاد کو تنخواہ تین سے لے کر آٹھ ہزار دی جاتی ہے لیکن وہاں پر جو اساتذہ پڑھاتے ہیں ان کا تجربہ اور تعلیمی قابلیت بھی اتنی نہیں ہوتی اس لیے ان کی تنخواہ بھی کم ہوتی ہے۔
احمد شاہ بھی کم معیار کے سکولوں کے بارے میں تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی تنخواہیں کم ہوتی ہیں اور اعلیٰ معیار میں بہتر ہوتی ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر سکولوں کے معیار کے درجے بنائے گئے ہیں تو تعلیمی معیار کے بھی درجے ہوں گے۔ یہ حکومتی تعلیمی پالیسوں کے اوپر سوالات اٹھاتے ہیں۔
پرائیوٹ سکول ریگولیٹری اتھارٹی
غیر سرکاری اور مختلف رپورٹس کے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں 12 ہزار سے بھی زائد سکول ہیں۔ تاہم صوبے میں نجی سکولوں کی نگرانی کے لیے بنائی گئی پرائیوٹ سکول ریگولیٹری اتھارٹی (پی ایس آر اے) کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں کُل سات ہزار 658 رجسٹرڈ سکول ہیں جن میں سے 689 سوات میں ہیں۔ اتھارٹی کے افسران کا کہنا ہے کہ رجسٹریشن کا کام اب بھی جاری ہے۔
پی ایس آر اے صوبائی قانون کے ذریعے جون،2017 میں بنائی گئی تھی، جس نے باقاعدہ کام جون، 2018 میں شروع کیا۔ اس اتھارٹی کے ذریعے سکولوں کی درجہ بندی کرکے ان کی نگرانی کی جانی تھی اور اس کے تحت فیس اور تنخواہوں کی تعین بھی کیا جانا تھا۔
تاہم نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ریگولیٹری اتھارٹی کے ایک افسر نے بتایا کہ کوئی بھی کسی سکول کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کتنی فیس مقرر کریں، اس کے لیے اتھارٹی نے کٹیگریز بنانی تھی اور اس کے حساب سے فیسوں اور تنخواہوں کا تعین کرنا تھا لیکن یہ عمل ابھی مکمل نہیں ہوا۔