وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ سندھ کے 12 ہزار سے زائد سکولوں میں اساتذہ جبکہ 11 ہزار سے زائد سکولوں میں کوئی طالب علم نہیں ہے۔
نیو سیکریٹریٹ میں آٹھ گھنٹے جاری رہنے والے کابینہ اجلاس میں تمام صوبائی وزرا، چیف سیکریٹریوں، مشیران اور متعلقہ سیکریٹریوں نے شرکت کی۔
اجلاس میں سکول ایجوکیشن کی موجودہ صورتِ حال اور فیوچر روڈ میپ پر بات چیت کی گئی۔
وزیر تعلیم سندھ سردار شاہ نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ حال ہی میں کیے گئے سروے کے مطابق سندھ میں کُل 49 ہزار 103 سکول ہیں، جن میں سے 37 ہزار 795 سکولوں میں بنیادی سہولیات میسر نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ صوبے کے 12 ہزار 136 سکول ایسے ہیں جن میں طالب علم تو ہیں مگر اساتذہ نہیں جبکہ 11 ہزار 441 سکولوں کی عمارت ہے، اساتذہ بھی ہیں، مگر کوئی طالب علم نہیں۔
وزیرِ تعلیم سندھ سردار شاہ نے مزید بتایا کہ صوبے میں 7 ہزار 611 سکول شیلٹر لیس (چھتوں اور چار دیواری سے محروم) ہیں جن میں سے 71 سکولوں میں 100 سے زائد طالب علم رجسٹرڈ ہیں۔
دو ماہ قبل وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے احکامات جاری کیے تھے کہ جن شیلٹر لیس سکولوں میں 40 سے زائد بچے زیرِ تعلیم ہیں، انہیں قریبی سرکاری سکول میں ضم کردیا جائے، تاہم اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔
وزیر تعلیم سندھ نے اجلاس کو مزید بتایا کہ اس وقت سندھ میں 18 ہزار 660 سکول ایسے ہیں، جہاں ایک ہی استاد موجود ہے، جن میں سے 10 ہزار 516 سکول صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں جبکہ 18 ہزار 507 سکول دو کمروں پر مشتمل ہیں، یعنی ان سکولوں میں لائبریری، کمپیوٹر لیب، سائنس لیب اور پلے گراؤنڈ جیسی بنیادی سہولیات کا تصور ہی نہیں۔
سردار شاہ نے بتایا کہ صوبے میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اساتذہ کی ٹریننگ پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ درسی کتابوں کے نصاب کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے، جس کو موجودہ حالات کے حساب سے بہتر کیا جائے گا۔
اجلاس میں ہر علاقے میں دو ماڈل سکول قائم کرنے کی بھی منظوری دی گئی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ کُل اساتذہ میں سے 90 فیصد آرٹس ٹیچرز ہیں اور صرف 10 فیصد اساتذہ سائنس کے مضامین پڑھا سکتے ہیں، لہذا اب جن ٹیچرز کی تقرری ہوگی، وہ سائنس ٹیچرز ہی ہوں گے۔
صوبائی کابینہ کے اجلاس میں امتحانی اصلاحات کے معاملے پر بھی غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ امتحانات کھلے میدان میں لیے جائیں اور ان کی مانیٹرنگ سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے کی جائے۔ امتحانی کاپیوں کی چیکنگ بھی ایک مقام پر سی سی ٹی وی کیمرے کے سامنے کی جائے گی۔