بلوچستان میں محکمہ تعلیم کو لازمی سروس ایکٹ قرار دے دیا گیا ہے جبکہ اساتذہ تنظیموں نے محکمہ تعلیم کو لازمی سروس ایکٹ قرار دینے کے خلاف احتجاج اور عدالت سے رجوع کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
اس ایکٹ کے خلاف اساتذہ تنظیمیں سراپا احتجاج رہی ہیں اور وہ اسے اساتذہ کی آواز کو دبانے کی کوشش قرار دیتی ہیں۔
بلوچستان صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ سے اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق دس اگست 2019 کو بلوچستان صوبائی اسمبلی سے منظوری اور 19 اگست 2019 کو گورنر بلوچستان کی توثیق کے بعد بلوچستان لازمی تعلیمی خدمات ایکٹ 2019 دی لیمٹیشن (ترمیمی) ایکٹ 2019 اور بلوچستان سول کورٹ (ترمیمی) ایکٹ 2019 نافذالعمل ہو گیا ہے۔
گورنمنٹ ٹٰیچرز ایسوسی ایشن کے چییئرمین حبیب الرحمان مردانزئی سمجھتے ہیں کہ محکمہ تعلیم پہلے سے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اور یہ اقدام مزید تباہی کا باعث بنے گا۔
حبیب الرحمان مردانزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ موجودہ حکومت کا یہ اقدام آئین پاکستان سے متصادم ہے جس کے خلاف ہم لائحہ عمل طے کر رہے ہیں اور جلد عدالت سے رجوع کریں گے۔
ان کے مطابق اس ایکٹ میں بعض چیزیں مشکوک ہیں جیسے کہ ’اگر کوئی ملازم غیر قانونی کام کرے گا تو اس کو تین سال سزا اور جرمانہ دینا پڑے گا لیکن اس میں غیر قانونی کام کا تعین نہیں کیا گیا اس کے علاوہ بھی بہت سے چیزیں غیر واضح ہیں۔‘
دوسری جانب بلوچستان ایجوکیشن ایمپلائز کمیٹی کے رہنما نے بھی احتجاجی لائحہ عمل اختیار کرنے کا اشارہ دیا ہے۔
بلوچستان ایجوکیشن ایمپلائز کمیٹی کے جونیئر وائس چیئرمین درمحمد لانگو کے مطابق ’ہم صوبہ بھر کے اساتذہ کو سڑکوں پر نکال کر احتجاج کریں گے، ہم سزا اور گرفتاری کے لیے تیار ہیں۔‘
واضح رہے کہ مذکورہ ایکٹ کے خلاف اساتذہ تنظیموں نے نہ صرف احتجاجی مظاہرے کیے بلکہ بلوچستان اسمبلی کے سامنے دھرنا بھی دیا۔
اساتذہ تنظیموں کا ماننا ہے کہ لازمی سروس ایکٹ عمومی طور پر سکیورٹی اداروں کے لیے ہوتی ہیں جن میں فوج، ایف سی، پولیس کے ادارے شامل ہیں جبکہ محکمہ تعلیم سوشل سروس ہے جس پر یہ ایکٹ لاگو کرنا آئین سے متصادم ہے۔
بلوچستان پروفیسرز اینڈ لیکچرارز ایسوسی ایشن کے رہنما کے خیال میں اس اقدام سے نہ صرف انتظامی بحران پیدا ہوگا بلکہ تمام تنظمیں اور ایسوسی ایشن پرغیر اعلانیہ پابندیاں لگ جائیں گی۔
بلوچستان پروفیسرز اینڈ لیکچرارز ایسوسی ایشن کے صدر آغا زاہد حسین سمجھتے ہیں کہ اس اقدام سے یہاں سیاسی بحران پیدا ہوگا۔
آغا زاہد حسین کے مطابق اس اقدام کے خلاف محکمہ تعلیم کی تنظیموں کا اتحاد فیصلہ کرے گا کہ احتجاج کیا جائے یا عدالت سے رجوع کیا جائے۔ ’ہم اس کے خلاف ہر قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔‘
اساتذہ تنظیموں کے دعوؤں کے برعکس حکومت کا کہنا ہے کہ اس ایکٹ سے صوبے میں شرح تعلیم میں بہتری آئے گی۔
اساتذہ تنظیموں کے اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان میں محکمہ تعلیم میں ایک لاکھ سے زائد ملازمین ہیں۔
صوبائی مشیر تعلیم حاجی محمد خان لہڑی کے مطابق قانون کا مقصد اساتذہ کے حقوق پر شب خون مارنا نہیں بلکہ تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط کو بہتر بنانا اور انتظامی امور کر بہتر انداز میں چلانا ہے۔
ایک اور اساتذہ تنظیم کے عہدیدار مجیب الرحمان غرشین کہتے ہیں کہ یہ قانون محکمہ تعلیم کو مزید تباہی کی طرف لے جانے کی کوشش ہے۔
اساتذہ تنظیموں کا ماننا ہے کہ اس ایکٹ کو بنانے میں حکومت نے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا۔ یہ اقدام بنیادی انسانی حقوق اور آئین پاکستان سے متصادم اقدام ہے۔