’ابے گنجے پکڑ کے دکھا‘ کراچی کے تنگ محلوں میں بچوں اور لڑکوں کو چھیڑ چھاڑ کا نیا شغل مل گیا ہے۔ آپ نے ڈیڑھیا گھر تو دیکھے ہی ہوں گے، نہیں دیکھے؟
ایک کمرے پر مشتمل رہائش کو بھارت میں کھولی کہتے ہیں، امیر لوگ اسے سرونٹ کوارٹر کہتے ہیں، جدید تعمیرات میں سٹوڈیو اپارٹمنٹ کہا جاتا ہے اور کراچی میں ڈیڑھیا۔ یہ کبھی کبھی تو12، 10 افراد پر مشتمل خاندان کا واحد مسکن ہوتے ہیں۔
تو قصہ یہ ہے کہ چھ فُٹے جوان جہان لڑکے اس ڈیڑھیا گھر میں قرنطینہ کے مزے لیں بھی تو کیسے لیں۔ گھر میں چھوٹے بہن بھائیوں کا رونا الگ اور جو ابا کی وقت بےوقت پڑتی ہے وہ ڈانٹ الگ۔ یہ لڑکے دفتروں فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں اور شام گلی کی نکڑ اور کوئٹہ ہوٹل پر دوست یاروں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ فی الحال سب بند ہے اور جو بند نہیں اسے بند کرایا جا رہا ہے۔
لڑکے فارغ ہیں اور فراغت میں انہیں شغل کے لیے پولیس کے جوان ہی میسر ہیں۔ وہی پولیس جوان جنہیں محبت میں ’ٹُلے‘ کہہ کر یہ لڑکے دوڑ لگا دیتے ہیں۔ ان دنوں بیچارے پولیس والوں کا ایک اور نک نیم رکھا گیا ہے وہ ہے ’کرونا (کورونا)‘۔ جٹ لین کی گلیوں سے لے کر اورنگی کے محلوں تک جہاں کہیں وردی والا نظر آتا ہے بچے نعرے لگاتے دوڑتے پھرتے ہیں ’بھاگو کرونا آ گیا۔‘
ملک بھر میں آگے آگے گھر سے نکلنے والے لونڈے لپاڑے ہیں تو پیچھے پیچھے مولا بخش۔ کہیں پولیس لاؤڈ سپیکر پر عوام کو اللہ رسول کا واسطہ دے کر گھر بیٹھنے کا کہہ رہی اور کہیں منچلوں کو مرغا بنا کر، اٹھک بیٹھک کرا کے گھر دوڑایا جا رہا ہے۔
تو صاحبان قدردان! ہم سب ہی کے ذہنوں میں ندیم افضل چن کے پیارے’مختیارے‘ کی طرح معصوم سا سوال کلبلا رہا ہے کہ گھر میں بھلا کیوں اور کب تک بیٹھیں۔ ہم سب کو نصیحت بھی ملنی چاہیے ’چن‘ ورگی۔
سندھ کے گوٹھوں میں چائے کے ہوٹل اب بھی چالو ہیں۔ ہاتھ میں چائے کی پیالی تھامے خالی آنکھوں سے ڈبے نما پرانے ٹی وی کی سکرین کو تکتے لوگ، شاید سوچ رہے ہیں کہ کرونا ان کے خلاف کوئی سازش تو نہیں۔
پان گٹکے چھالیہ، سیگریٹ اور نسوار کا حصول بھی زندگی کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ راشن پانی، سو وہ لینے بھی باہر نکلنا پڑتا ہے۔ بچہ ضد کرے تو کچھ دیر بائیک پر ہوا خوری کے لیے بھی نکلنا پڑتا ہے۔ یہ بھی اہم ہے کیوں کہ کرونا خطرناک ہے مگر بچے کا نان سٹاپ رونا اس سے بھی زیادہ جان لیوا لگتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماشا اللہ سے کراچی تا خیبر مصروفیات زندگی میں مگن ہماری قوم کرونا کا منہ چڑا رہی ہے۔ آدھی عوام اگر کرونا کے ڈر سے گھر میں ہے تو باقیوں کو پولیس کا ڈنڈا گھر دھکیل رہا ہے۔ ٹارچر کی تو کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی پر جس ضد پر ہمارے لوگ اڑے ہیں اس کا شافی علاج سوائے پولیس کے کسی کے پاس نہیں۔
پشاور کے کرکٹ گراؤنڈز میں رن بناتے، گیند کے پیچھے یہاں وہاں دوڑتے بچے کرونا نامی کسی بھی وبا سے بےفکرے ہیں۔ زندہ دل لاہوریوں کو گھر بٹھانا بھی حکومت کے لیے چیلنج ہے۔
شہریوں کو تیز دوڑتی زندگی پر لگا بریک عجیب لگا تو ادھر دیہاتی بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہر سال ہونے والی بیل گاڑی کی ریس اس بار کیوں نہ کریں، مرغے لڑانے کا بےضرر کھیل کیوں نہ کھیلیں؟
صرف ہم نہیں پوری دنیا کے عوام ضدی بچہ بنے ہوئے ہیں۔ ابھی کل تک لندن میٹرو میں اتنا رش تھا کہ کھوے سے کھوا چھل جائے، لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا تو لندن کے پارکوں میں ٹھڈ کے ٹھڈ جمع ہوگئے۔ بھارت میں کرونا بھگانے کا دن تہوار بن گیا۔ ہزاروں لوگ تھالیاں گھماتے ڈفلی بجاتے باہر نکل آئے۔
یورپ میں تو ہلاکتوں کا تناسب بھی زیادہ ہے وہاں بھی لوگ گھر بیٹھنے کو یوں آسانی سے راضی نہیں۔ کہیں عوامی نمائندے ہاتھ جوڑ جوڑ کر اپیل کر رہے ہیں اور کہیں پولیس بازو مروڑ کر ڈرا دھمکا رہی ہے اور پکڑ دھکڑ کر چھوڑ رہی ہے۔
تو صاحبان قدردان! ہم سب ہی کے ذہنوں میں ندیم افضل چن کے پیارے’مختیارے‘ کی طرح معصوم سا سوال کلبلا رہا ہے کہ گھر میں بھلا کیوں اور کب تک بیٹھیں۔ ہم سب کو نصیحت بھی ملنی چاہیے ’چن‘ ورگی۔
جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان کے مشیر ندیم افضل چن اپنی ایک لیک آڈیو میں فرماتے ہیں کہ ’بہت سیریس بیماری ہوگئی ہے، گھر کے اندر چپ کر کے بیٹھو اور بچوں کو بھی باہر نہ نکلنے دو۔‘ میرے خیال میں یہی ہمارا قومی پیغام ہونا چاہیے مگر اشرافیہ سے لے کر غربا تک ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہر مختارے کو سمجھانے کے لیے چن صاحب والا ’ایکس فیکٹر‘ زیادہ کارآمد ہے۔
چن صاحب نے آپ اور ہم جیسے ضدی ’مختارے‘ کو ڈرانے کے لیے پیار سے ایک بات سمجھائی ہے اور میری مانیں تو یہی بات لاکھوں میں ایک ہے۔ ’مختاریا! کم از کم ہزاروں لوگ مر رہے ہیں، اندازہ کوئی نہیں کیوں کہ حکومت بتا نہیں رہی۔‘
چن صاحب کا پیغام بالکل وہی ڈراوا ہے جیسے امیاں بچوں کو بلیک میل کرتی نظر آتی ہیں کہ ’باہر نہ نکلنا اللہ بابا آیا ہوا ہے پکڑ کر لے جائے گا۔‘ ہماری حکومت اللہ اللہ کر کے متحرک تو ہوئی ہے، فیصلے بھی لیے گئے ہیں مگر جو حال ہم ترقی یافتہ ملکوں کا دیکھ رہے ہیں اس کے بعد مختارے کو ڈرانا ضروری ہے۔