اس بار ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے لیے مختلف ہوگی

پاکستان نے پہلی ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ اپنی سٹریٹجک اہمیت اور ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان خوشگوار تعلقات کی بدولت کامیاب تعلقات قائم کیے، لیکن اس بار پاکستان کے پاس یہ دونوں نہیں۔

23 نومبر، 2024 کو عمران خان کے حامی فلوریڈا میں منتخب صدر ٹرمپ کی رہائش گاہ کے باہر موجود ہیں (اے ایف پی)

ڈونلڈ ٹرمپ کا دوبارہ منتخب ہو کر امریکہ کا 47 واں صدر بننا عالمی جغرافیائی سیاست کے لیے نہایت اہم واقعہ ہے۔

یہ تبدیلی بائیڈن انتظامیہ کے سیاسی نظام کو درہم برہم کر دے گی اور ممکنہ طور پر سابقہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ وابستہ سودے بازی کی سیاست اور بند کمرے کی سفارت کاری کو دوبارہ فروغ دے گی۔ 
 
اس کے برعکس کملا ہیرس کی صدارت زیادہ تر موجودہ پالیسیوں کے تسلسل کو برقرار رکھتی۔امریکہ میں یہ سیاسی تبدیلی ناصرف پاکستان کے علاقائی جغرافیائی ماحول کو متاثر کرے گی بلکہ ممکنہ طور پر اس کی سیاست پر بھی اثر ڈالے گی۔ 
 
ماضی میں ٹرمپ انتظامیہ نے چین کے بارے میں سخت گیر موقف اپنایا لیکن روس کے صدر ولادی میر پوتن کے ساتھ بات چیت کے لیے زیادہ آمادہ تھی۔ 
 
جنوبی ایشیا میں ٹرمپ انتظامیہ کے لیے انڈیا ایک ترجیحی شراکت دار رہا ہے کیوں کہ اس نے چین کے عروج کو روکنے کے لیے ہند بحرالکاہل حکمت عملی کو فروغ دیا۔
 
ابتدائی طور پر پہلی ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے بارے میں خاصی شکوک و شبہات کا شکار تھی، خاص طور پر افغان طالبان کو مبینہ طور پر محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے الزامات کی وجہ سے۔ 
 
اپنی مخصوص ’ٹوئٹر سفارت کاری‘ میں صدر ٹرمپ نے پاکستان پر امریکہ کے ساتھ دھوکہ دہی اور جھوٹ کا کھیل کھیلنے کا الزام لگاتے ہوئے 1.3 ارب ڈالر کی سکیورٹی امداد معطل کر دی۔
 
تاہم یہ صورت حال اس وقت بدلی جب ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان سے مذاکرات اور افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کیا۔ 
 
اس فیصلے نے دونوں ممالک کے درمیان دوبارہ روابط کو ممکن بنایا اور اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے درمیان بات چیت کا ایک راستہ کھل گیا۔ 
 
چوں کہ دونوں رہنما عوام میں مقبولیت کی بدولت اقتدار میں آئے، ان کے دوطرفہ تعلقات خوشگوار رہے، جس سے پاکستان-امریکہ تعلقات کے عمومی رجحان میں بہتری آئی۔ 
 
یہاں تک کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان اور اس کے حریف انڈیا کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی، جو نئی دہلی کو پسند نہیں آئی۔
 
دوطرفہ سفارت کاری میں یہ گرم جوشی تعلقات کی نوعیت میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لا سکی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے لیے معطل شدہ سکیورٹی امداد کے پروگرام کو دوبارہ شروع نہیں کیا، اور صدر ٹرمپ اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے ذاتی تعلق کا فائدہ ملک کے لیے محدود رہا۔ 
 
وائٹ ہاؤس میں بائیڈن انتظامیہ کے آنے اور امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کی سٹریٹجک اہمیت ختم ہو گئی۔ 
 
اس کے علاوہ عمران خان کی جانب سے افغانستان کے اندر کسی بھی مستقبل کے امریکی آپریشن کے لیے پاکستان کی سرزمین یا اڈے استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار نے بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ ان کی ذاتی ساکھ مزید خراب کر دی۔ 
 
حتیٰ کہ عمران خان کے وزارت عظمیٰ چھوڑنے کے بعد بھی دوطرفہ تعلقات لین دین پر مبنی اور کسی سٹریٹجک اہمیت سے محروم رہے۔
 
دوسری ٹرمپ انتظامیہ میں زیادہ تر ایسے لوگ شامل ہیں جو چین کے خلاف سخت موقف رکھتے ہیں اور انڈیا کے ساتھ مزید شراکت داری کے حق میں دلائل دیتے رہے ہیں۔ 

اگرچہ نکی ہیلی جیسی انڈیا نواز شخصیات نئے تقرریوں کی فہرست میں شامل نہیں ہوئیں، لیکن اس میں اب بھی ایسے افراد شامل ہیں جنہوں نے ماضی میں پاکستان کے خلاف بیانات دیے۔

مثال کے طور پر فلوریڈا سے رکن کانگریس مائیک والٹز، جو ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر نامزد ہیں، پاکستان پر دہشت گردی کو ریاستی پالیسی کے طور پر اپنانے کا الزام لگا چکے ہیں اور اس کے خلاف پابندیوں کی وکالت کر چکے ہیں۔ 
 
اسی طرح ٹرمپ کے وزیر خارجہ کے لیے منتخب کردہ سینیٹر مارکو روبیو نے بھی پاکستان کے اقدامات پر زیادہ سخت جانچ پڑتال کا مطالبہ کیا۔
 
تاہم، روبیو اور والٹز دونوں افغانستان سے امریکی انخلا کے سخت ناقد رہے ہیں، اس لیے یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ اپنے اپنے شعبوں میں کس حد تک پالیسی آزادی حاصل کر سکیں گے، خاص طور پر ایک ایسے صدر کے تحت جو مکمل وفاداری کا مطالبہ کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نئی ٹرمپ انتظامیہ میں خاص طور پر دہشت گردی سے متعلق معاملات پر بعض اہم شخصیات کے پاکستان مخالف پس منظر کے علاوہ، یہ بھی متوقع ہے کہ پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے امریکی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

ایران ایک اور اہم خارجہ پالیسی کا شعبہ ہے جہاں وائٹ ہاؤس میں اس تبدیلی کا نمایاں اثر پڑ سکتا ہے۔پاکستان اور ایران اس سال کے شروع میں سرحد پار حملوں کے بعد اپنے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

ایک کلیدی مسئلہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر کا بھی رہا ہے۔ ایران مسلسل پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنی طرف کے پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرے اور پاکستان کے اس معاملے میں پس و پیش کے بعد ایران نے یہ معاملہ بین الاقوامی عدالت برائے ثالثی میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

پاکستانی نقطہ نظر سے گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ایران پر امریکی پابندیاں ہیں۔ 
 
بائیڈن انتظامیہ کے دور میں ان پابندیوں پر سختی سے عمل درآمد نہیں کیا گیا، لیکن ٹرمپ دور میں صورت حال ممکنہ طور پر تبدیل ہو جائے گی اور پابندیوں کا نظام مزید سخت ہو جائے گا، جو پاک ایران تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دے گا۔
 
اس صدارتی انتخاب میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں نے صدر ٹرمپ کی حمایت کے لیے کچھ سرگرمیوں کا مظاہرہ کیا جن میں پاکستان میں جمہوریت کی موجودہ حالت اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی قید کو اجاگر کرنے پر توجہ مرکوز رہی۔ 
 
تاہم یہ بعید از قیاس ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ فوری طور پر پاکستانی حکام پر خان کے حوالے سے کوئی دباؤ ڈالے گی، لیکن بائیڈن انتظامیہ کی عمران خان کے لیے جو شدید ناپسندیدگی پائی جاتی تھی، وہ اب ختم ہو چکی ہے۔
ساتھ ہی کانگریس کے کئی ارکان کے اس معاملے پر دباؤ نئی انتظامیہ پر کچھ اثر ڈال سکتا ہے جس سے پاکستان میں سیاست متاثر ہونے کا امکان ہے۔
 
پہلی ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ پاکستان نے اپنی سٹریٹجک اہمیت اور صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان خوشگوار ذاتی تعلقات کی بدولت کامیاب تعلقات قائم کیے۔ 
 
اس بار ملک کے پاس یہ دونوں نہیں اس لیے تعلقات کی شروعات مثبت طور پر ہونے کا امکان کم ہے۔
 
عمر کریم برمنگھم یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے محقق ہیں۔ ان کی تحقیق سعودی عرب کی سٹریٹجک سوچ کے ارتقا، سعودی-ایران کشمکش، شام میں تنازع، اور ترکی، ایران اور پاکستان کی جغرافیائی سیاست پر مرکوز ہے۔ X: @UmarKarim89
 
یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ