پاکستان میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بنیاد پرستی

پاکستان میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بنیاد پرستی کا ماضی میں ریاست کی عسکریت پسندی کی حامی پالیسیوں سے براہ راست تعلق ہے جس نے اس کے فروغ کے لیے ایک سازگار ماحول کو فروغ دیا۔

18 جنوری، 2024  کو اسلام آباد میں نوجوان ایک مظاہرے میں نعرے لگا رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان دنیا میں سب سے کم عمر آبادی والے ممالک میں سے ایک اور جنوبی ایشیا کا دوسرا کم عمر ترین ملک ہے۔ کل آبادی میں تقریباً 64 فیصد کی عمر 30 سال سے کم ہے اور 29 فیصد کی عمریں 15۔29 سال کے درمیان ہیں۔

کم عمری کی آبادی کم از کم اگلی تین دہائیوں تک اثاثہ بھی ہو سکتا ہے یا پھر ذمہ داری بھی۔ اس کا انحصار اس بات پر منحصر ہے کہ یہ طبقہ کس حد تک معاشرے میں مؤثر طریقے سے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ نوجوان پاکستانی آبادی کا سب سے اہم حصہ ہیں۔

حالیہ برسوں میں پاکستان کے پڑھے لکھے نوجوانوں میں بنیاد پرستی نے، اگرچہ محدود سطح پر ہے، انسداد دہشت گردی اور انتہا پسندی کے نئے چیلنجز کو جنم دیا ہے۔

محروم اور الجھنوں کے شکار نوجوان خاص طور پر وہ لوگ جو اپنے مسائل کا جواب تلاش نہیں کر پاتے وہ انتہا پسندانہ پروپیگنڈے کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

اسی طرح تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اہمیت، خود اعتمادی اور زندگی میں ایک اہم مقصد کی تکمیل کی خواہش نوجوانوں کو عسکریت پسندی اور بنیاد پرستی کی طرف دھکیل رہا ہے۔

بنیاد پرستی کی طرف تعلیم یافتہ پاکستانی نوجوانوں کو مائل کرنے میں چار عوامل شامل ہیں، بیزاری، علم کی بندش، گروہ اور گروہ سے باہر کی تفریق اور سادگی کی خصوصیات قابل ذکر ہیں۔

اسی طرح بیزاری سے مراد استثنیٰ، قدامت پسندی، جدت طرازی کو مسترد کرنا اور سیاست، ثقافت اور مذہب کے لیے خالص اندازِ فکر ہے۔

بیزاری سے متعلق زیادہ تر مسائل مذہبی اخلاقیات اور پاکیزگی کے تصورات سے جڑے ہوئے ہیں۔ ذہن کے اس حصے میں باہر کے لوگوں کو خراب کرنے والا اثر و رسوخ سمجھا جاتا ہے۔

پاکیزگی اور نظم و نسق کے حوالے سے اسلام پسندوں کے بنیادی خدشات پائے جاتے ہیں۔ ’تکفیر‘ (مسلمانوں کو اسلام سے خارج کرنا) جیسے تصورات کو مسلم برادری سے نکالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر جون 2014 میں عراق میں خود ساختہ خلافت کا اعلان کرنے کے بعد دولت اسلامیہ نے عراق میں یزیدی برادری کا قتل عام کیا۔

جدیدیت سے نفرت، سیکولرازم کو سیاست اور حکومت کے اسلامی اصولوں کے خلاف پیش کرنا نفرت کی دوسری مثالیں ہیں۔

علم کی بندش سے مراد ترتیب، ساخت اور یقین کی تلاش ہے۔ اس میں ’ابہام کی عدم برداشت‘ شامل ہے، جو آمریت کے سلسلے میں متعارف کرایا گیا ہے۔

مزید برآں، یہ ایک بہت ہی تنگ اور عدم رواداری کا نظریہ ہے، جس میں سیاسی قدامت پسندی، سماجی نظم کا درجہ بندی اور آمرانہ نظریہ شامل ہے۔

علم کی بندش روایت پسندوں کو ذہن اور مقصد کی وحدت فراہم کرتی ہے۔

یہ افراتفری، انتشار اور خلل سے بھری ایک پیچیدہ دنیا کو صاف ستھرے ڈھانچے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہے جس سے وہ اپنے پیغام کو بیان کرتے ہے۔

روایت پسند ایک ایسی دنیا سے نفرت کرتے ہیں جہاں متنوع اور متعدد شناختوں کی گنجائش ہو اور مسابقتی داستانوں کا باہم وجود ممکن ہو۔

اس پیچیدگی سے بچنے کے لیے وہ قدیم ترین آبا و اجداد (سلف صالحین) کی روایت کو اسلام کی خالص ترین شکل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور مذہبی متون کی خالصانہ تشریح پر زور دیتے ہیں۔

عسکریت پسندوں کا صوفی اسلام کو بدعت کے طور پر مسترد کرنا اور لفاظی پر زور پاکستانی تناظر میں اس رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔

اسی طرح عوامی حلقوں میں خواتین کی شمولیت اور اقلیتوں کو مساوی حقوق دے کر قومی دھارے میں شامل کرنے کی مخالفت کو اسلام اور پاکستان کے خلاف سازش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

’اسلام خطرے میں ہے‘ یا ’اسلام کے خلاف جنگ‘ کا نعرہ کسی بھی ایسی کوشش کو روکنے کے لیے لگایا جاتا ہے جو اس بند اور سرنگوں ذہنیت کو چیلنج کر سکے۔

اس خاصیت کا تعلق ایک انٹروورٹ اور مضبوط فرقہ وارانہ بندھن سے ہے، جس کے تحت کسی بھی بیرونی مداخلت کو رد کردیتے ہے یا لوگ سختی سے مزاحمت کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ تمام قسم کی خارجی چیزوں کو منفی سمجھتے ہیں۔

اعلیٰ علمی بندش والے افراد جیسے ناقابل عبور حدود والے گروہ۔ گروپ کے اندر تعصبات اور گروپ سے باہر کے منفی رویے لوگوں کو کسی بھی سمجھے جانے والے یا حقیقی خطرے کے خلاف تشدد کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔

یہ ذہنیت خوف اور عدم تحفظ کا مستقل احساس پیدا کرتی ہے کہ ’اسلام خطرے میں ہے۔‘

اس قسم کا انٹروورٹ کلچر جو تازہ خیالات اور معلومات کے بہاؤ کے دروازے بند کر دیتا ہے، سازشی نظریات پیدا کرتا ہے۔

علم کی بندش کا تعلق آؤٹ گروپ کے خلاف جارحانہ کارروائیوں سے ہے۔ بندش کی زیادہ ضرورت لوگوں کو ’ہم بمقابلہ ان‘ کے انداز میں گروہ کے تعلقات کو دیکھنے کی پیش گوئی کرتے ہے جو مقابلہ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مثال کے طور پر اسلام پسند مغربی ثقافت کو مسترد کرتے ہیں اور اسے نظریاتی طور پر یا کم از کم ثقافتی طور پر خالص رکھتے ہوئے اپنے گروپ کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کا دنیا کا تصور سیاہ اور سفید تصور ہے جو سادہ اور غیر مبہم جوابات کی تلاش میں ہے۔

یہ نقطہ نظر اچھائی اور برائی، صحیح اور غلط، مسلم بمقابلہ غیر مسلم وغیرہ کی بائنریز پر موجود ہے۔

عسکریت پسند تنظیموں کے لٹریچر اور دستورالعمل کا سرسری نظارہ سادگی کے لیے ان کے رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔

کسی کے عقائد میں حد سے زیادہ سادگی نظریاتی انتہا کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ خصلت خاص طور پر ان خودکش بمباروں میں زیادہ ہے جو اس عقیدے کے ساتھ مرعوب ہیں کہ وہ ’شہید ہیرو‘ ہیں جو اپنی قربانیوں سے مذہب کی شان بڑھا رہے ہیں اور اس کے بدلے میں انہیں جنت اور حوریں ملیں گی۔

اسلام پسند اس حد سے زیادہ سادہ تصور کا پرچار کرتے ہیں کہ شریعت اور خلافت کا احیا مسلم دنیا کے کئی پیچیدہ مسائل کو خود بخود حل کر دے گا۔

وہ اس بات کی عملی تفصیلات پیش نہیں کرتے کہ شرعی نظام کیسے کام کرے گا اور متعدد اسلامی مکاتب فکر کے اندر کس طرح اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا جو شریعت کی تشریح میں ایک دوسرے سے معیار کے لحاظ سے مختلف ہیں۔

اسی طرح، مختلف عسکریت پسند گروہ اس بات کی وضاحت کرنے میں ناکام رہتے ہیں کہ غیر ریاستی تشدد ایک متحد عالمی خلافت کیسے بنائے گا جب عالمی جہادی تحریک اندرونی طور پر القاعدہ اور داعش کے درمیان منقسم ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف عسکری تنظیمیں آپس میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

آخر میں، پاکستان میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بنیاد پرستی کا ماضی میں ریاست کی عسکریت پسندی کی حامی پالیسیوں سے براہ راست تعلق ہے جس نے بنیاد پرستی کے فروغ کے لیے ایک سازگار ماحول کو فروغ دیا ہے اسے کنٹرول کرنے کے لیے سٹریٹجک پیراڈائم پر نظر ثانی کی ضرورت ہے جس نے مختلف عسکریت پسند گروپوں کو جسمانی اور نظریاتی جگہیں فراہم کی ہیں۔

حکمت عملی کی سطح پر انسداد دہشت گردی اور انتہا پسندی کی پالیسیوں میں محض نظریاتی تبدیلی سے عارضی مہلت مل سکتی ہے لیکن طویل المدتی حل کے لیے ساختی اصلاحات ضروری ہیں۔

مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ