چھٹی صدی قبل مسیح میں ہندوؤں کے ساتویں اوتار رام کے بھتیجے نے ٹیکسلا کی بنیاد رکھی۔ یہ شہر رفتہ رفتہ چین، یورپ اور ہندوستان کو ملانے کے لیے ایک جنکشن بن گیا جس کی وجہ سے یہاں ایسی تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑی جس نے ہندوستان بھر کی تاریخ پر اہم اثرات مرتب کیے۔
کوٹلیہ چانکیہ نے ’ارتھ شاستر‘ نامی مشہور زمانہ کتاب یہیں بیٹھ کر لکھی، دنیا کی کسی بھی زبان کی پہلی گرامر لکھنے والا پانینی بھی یہاں کی درس گاہوں میں پڑھا تھا اور بعض تاریخ دانوں کے بقول ہندووں کی مقدس کتاب مہا بھارت بھی اسی علاقے میں لکھی گئی۔
ٹیکسلا کو عروج اشوک اعظم کے دور میں ملا جو بادشاہ بننے سے پہلے ٹیکسلا کا گورنر رہ چکا تھا۔ یہ بدھ ازم کے عروج کا بھی زمانہ ہے۔ اسی دور میں ہندوستان بھر میں 60 ہزار سے زائد سٹوپا بنائے گئے۔ ٹیکسلا سے لگ بھگ 50 کلو میٹر کے فاصلے پر اسلام آباد کے ایک چھوٹے سے قصبے مانکیالہ میں بھی ایک شاندار سٹوپا اسی دور کی یاد دلاتا ہے۔ روات سے لاہور کی جانب سفر کرتے ہوئے اس سٹوپے کو سڑک سے ہی دیکھا جا سکتا ہے جہاں آج بھی قریب میں کسی بڑی آبادی کے آثار نہیں ہیں۔ کیا کبھی یہاں کوئی بڑا شہر آباد تھا اور اگر نہیں تھا تو پھر یہاں اس قدر عالیشان سٹوپا کیوں بنایا گیا؟
اس سوال کا جواب ہمیں بدھ مت کی رزمیہ داستانوں پر مشتمل کتاب جاتک کہانیوں میں ملتا ہے جس کے مطابق گوتم بدھ کا پہلا جنم شہزادہ ستوا کی شکل میں ہوا تھا۔ اس شہزادے کو گیان منکیالہ کے مقام ہی پر ملا تھا جہاں اس نے ایک شیرنی کے بھوکے بچوں کی بھاک مٹانے کے لیے اپنے بدن کا گوشت کھلایا تھا۔ اسی کی یاد میں اشوک اعظم نے شاندار سٹوپا تعمیر کروایا تھا۔
اس کا ذکر چینی سیاح فاہین نے اپنے سفرنامے میں بھی کیا ہے جس کا انگریزی ترجمہ ’ریکارڈ آف دی بدھسٹ کنگڈم‘ کے نام سے کیا گیا ہے۔ فاہین نے 399 سے 414 عیسوی تک ہندوستان کا سفر کیا تھا۔ اسی طرح ایک اور چینی سیاح زون زانگ 630 عیسوی میں اس علاقے میں آیا تھا۔ اس نے اپنی کتاب ’ریکارڈ آف ویسٹرن ریجن‘ میں لکھا ہے کہ منکیالہ سٹوپا کے ساتھ سو کے قریب چھوٹے سٹوپا بھی تھے جو بڑی تعمیر کا حصہ تھے، تاہم اس وقت بھی یہ خانقاہ تباہ حال اور ویران تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور کتاب ’وادیِ پوٹھوہار‘ مرتبہ رشید نثار میں لکھا ہے کہ یہ سٹوپا 142 میں کنشک نے بدھ مبلغ اپا گپت کی یاد میں تعمیر کرایا تھا جس کا انتقال 243 قبل مسیح میں پاٹلی پتر سے ٹیکسلا آتے ہوئے منکیالہ کے مقام پر ہوا تھا۔ اس وقت اشوک اعظم نے یہاں ایک چھوٹا سٹوپا بنایا تھا۔
رشید نثار کا خیال ہے کہ اس سٹوپا کا طرز تعمیر یونانی ہے اس لیے اغلب ہے کہ یہ کشان عہد میں ہی بنا کیوں کہ اس دور کے طرزِ تعمیر پر یونانی اثرات گہرے ہیں۔
یاد رہے کہ اشوک کا تعلق موریہ خاندان سے ہے، جس سے پہلے ہندوستان پر سکندر اعظم کے مقررہ کردہ یونانیوں کی حکومت تھی۔ اسی دور میں یہاں کی تہذیب پر یونانی اثرات نمایاں ہوئے تھے، جن میں فنِ تعمیر اور مجسمہ سازی خاص طور پر اہم ہیں۔
رشید نثار راجہ ہل کی کتاب ’سپت ستی‘ کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ لیکن کیا یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جس بدھ راہب کا انتقال 243 قبل مسیح میں ہوا، کیا وہ اتنا اہم تھا کہ اس کی یاد میں سٹوپا کی تعمیر تقریباً تین صدیاں بعد ہوئی؟
منکیالہ کا سٹوپا سانچی کے عظیم سٹوپا سے ہوبہو مشابہ ہے جو مدھیہ پردیش میں تیسری صدی قبل مسیح میں اشوک نے ہی بنوایا تھا۔ جہاں پر بدھا کی راکھ بھی دفن کی گئی تھی۔ سانچی کے سٹوپے کو دیکھیں اور پھر مانکیالہ سٹوپے کو تو ایسے لگتا ہے کو دونوں سٹوپوں کو ایک ہی طرح کے معماروں نے بنایا تھا۔
منکیالہ کے سٹوپے کے بارے میں کئی روایات مشہور ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سیالکوٹ کے راجہ سالباہن کے بیٹے راجہ رسالو نے اسی مقام پر ان سات دیووں کا مقابلہ کیا تھا جو یہاں ہر روز کسی نہ کسی آدم زاد کو نشانہ بناتے تھے۔ چھ دیو مارے گئے تھے اور ساتواں بھاگ کر ترکئی کی پہاڑیوں میں چھپ گیا تھا۔
بعض روایات کے مطابق منکیالہ ریاست مانک پور کا دارالحکومت تھا۔ لیکن اگر ایسا تھا تو یہاں کسی بڑے شہر کہ نہ سہی کسی درمیانے شہر کے کھنڈرات ضرور ملتے۔
میجرجنرل کننگھم (1814-1893) نے بدھ مت پر کافی تحقیق کی، اور وہ آرکیالوجی سروے آف انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل بھی تھے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہاں پر بڑے پیمانے پر آگ سے تباہی کے آثار پائے جاتے ہیں جو شاید سفید ہنوں نے لگائی تھی جو یہاں پانچویں صدی میں حملہ آور ہوئے تھے۔
انہوں نے جب منکیالہ کے ارد گرد کے آثار کا جائزہ لیا تو انہیں یہاں کسی شہر کے آثار نہیں ملے ماسوا ئے ایک بڑی عمارت کے جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ مہیب دیواریں خانقاہوں اور مذہبی عمارات کی ہوں گی۔
دوسری طرف مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ راجہ مان کا محل تھا۔ لیکن جنرل کننگھم کے بقول عین ممکن ہے کہ جب ٹیکسلا اور مگدھ سے راجے اور رانیاں یہاں آتے ہوں تو ان کے ٹھہرنے کے لیے یہ محل بنایا گیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ایک مختصر سی آبادی بھی یہاں مقیم ہو جس کا گزر بسر اس وقت کے مذہبی سیاحوں سے وابستہ کاروباروں سے ہو۔ مقامی روایات کے مطابق اپنے وقت کی یہ راجدھانی آگ لگنے سے تباہ ہوئی۔ جس کی تصدیق سٹوپا سے شمال کی جانب آشرم کی کھدائی سے بھی ہوتی ہے۔
منکیالہ سٹوپا میں استعمال کیے گئے بعض پتھر اتنے بھاری ہیں کہ ان کا وزن سو من تک ہے ا س لیے مقامی روایات کے مطابق اسے دیوتاؤں نے تعمیر کیا تھا۔ کبھی اس کے گرد گولائی میں طواف کرتی سیڑھیاں اس کی چوٹی تک جاتی تھیں۔ جہاں سے خواص اندر اتر کر عبادت کرتے تھے جہاں بدھا کی راکھ بھی اشوک نے خصوصی طور پررکھوائی تھی۔ اس کی اسی فضیلت کے سبب اس کو نہایت متبرک گردانا جاتا تھا۔
یہاں پہلی کھدائی مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازم ایک اطالوی جنرل جین بپٹسٹ ونچورا نے 1930 میں کروائی۔ اوپر سے نیچے کی جانب کھدائی سے مختلف نوادرات ملے جس سے سٹوپے کی عمر کے تعین میں مدد ملتی ہے۔ 25 فٹ کے کھدائی کے بعد لوہے کا ڈبہ ملا جس کے اندر ایک سونے کا ڈبہ تھا جس کے اندر کچھ سونے چاندی کے سکے اور کچھ زیورات ملے جو ساسانی عہد کے تھے۔
پھر مزید کھدائی میں 45 فٹ پر ایک تانبے کا گلدان ملا جس کے اندر ایک سونے کا سلنڈر تھا۔ 54 اور 64 فٹ کی گہرائی پر کچھ اور سکے بھی ملے۔ 75 فٹ کی گہرائی پر تانبے کا ڈبہ ملا جس کے اندر پیتل کا ڈبہ تھا۔ اس کے ڈھکن پر تحریر نقش تھی۔ اس کے اندر پھر سونے کا سلنڈر تھا جس میں کنشک دور کا سونے کا سکہ اور دیگر نوادرات تھے۔
جنرل ونچورا کے بعد رنجیت سنگھ کے ایک فرانسیسی جنرل کلاؤڈ اگسٹ کورٹ نے منکیالہ میں 15 مختلف چھوٹے سٹوپوں کی کھدائی کروائی۔ اس کے دوران ایک سٹوپے سے تانبے کا کوزہ ملا جس میں چاندی کا سلنڈر تھا جس میں کنشک دور کے سونے کے سکوں کے ساتھ قیمتی پتھر اور موتی موجود تھے سب سے پرانا سکہ 45 قبل مسیح کے رومی بادشاہ مارک اینٹنی کے دور کا تھا۔ یہ تمام نوادرات برٹش میوزیم میں محفوظ ہیں۔
اپنے وقت کی اس عظیم بدھ خانقاہ کا اب کوئی پرسان حال نہیں۔ سٹوپے کے ارد گرد لوہے کی ایک چاردیواری لگا دی ہے۔ گندھارا ریسرچ اینڈ ریسورس سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ندیم عمر تارڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ منکیالہ سٹوپا کا شمار گندھارا کے انتہائی اہم سٹوپوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ اگر چاہے تو وہ اب بھی ا س کو اپنی اصلی حالت میں بحال کر سکتا ہے کیونکہ وقت کے مصائب کا مقابلہ کرنے کے باوجود آج بھی یہ بہت اچھی حالت میں ہے۔ حکومت اگر مذہبی سیاحت کو رواج دینے میں مخلص ہے تو پھر منکیالہ سٹوپا کی بحالی کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں۔ اسے عالمی ورثے کے نقشے پر لایا جانا چاہیے۔‘
ٹیکسلا ٹائم کے مصنف اور گندھارا کی تہذیب کے محقق مالک اشتر کا کہنا ہے کہ ’موریہ سلطنت جب اپنے عروج پر تھی تو اس سٹوپے کی شان و شوکت دیکھنے والی تھی۔ یہاں نیپال سے کشمیر تک کے راہب عبادتیں کرتے نظر آتے۔ کوٹلیہ چانکیہ، پانینی اور اشوک جیسی عظیم ہستیوں نے یہاں گیان دان کیا ہو گا۔ مگر افسوس کہ ہم آج اپنی تاریخ کے انتہائی اہم باب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔‘
سٹوپے کے بالکل ساتھ واقع گھر کے رہائشی یاسر رشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نائن الیون سے پہلے یہاں غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں آتے تھے لیکن اب یہاں کوئی نہیں آتا۔ کبھی کبھی ارد گرد کے علاقوں یا پنڈی اسلام آباد سے اکا دکا لوگ یہاں آ جاتے ہیں۔
منکیالہ کے اس تاریخی سٹوپے کی تباہی سفید ہنوں کا کارنامہ تھی، ماحولیاتی تبدیلیوں کا یا پھر وباؤں کا، حتمی طور پر کچھ نہیں کہا سکتا، لیکن یہ اگر اپنی اصلی شکل میں ہوتا تو بالکل سانچی کے عظیم سٹوپے جیسا ہی دکھائی دیتا۔